منگل، 29 ستمبر، 2015

خبروں اور کالم نویسی کے اصول

تیب کی بجائے اہمیت اور دلچسپی کو مرکزی اہمیت دی جاتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس طریقہ میں خطر کا آغاز واقعہ کے سب سے اہم عنصر سے ہوتا ہے اور اس کے بعد قدرے اہم اور آخر میں نسبتاً غیر اہم واقعات بیان کئے جاتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ واقعاتی ترتیب پر مبنی خبر کو اول تا آخر پڑھنا ضروری ہے تاہم منطقی یا بہ لحاظ اہمیت و ترتیب پر مبنی خبر مکے ابتدائی چند سطور کو پڑھ کر خبر کا مفہوم سمجھ میںآسکتا ہے۔ان کا کہناتھا کہ اس طریقہ کے تحت خبر کے انٹرو یا ابتدائیہ میں پوری خبر کا ماحصل بیان کیاجاتا ہے جس کے بعد  ابتدائیہ کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں او ر میں اہم واقعات و بیانات اور اس کے بعد کم اہم واقعات یا دیگر تفصیلات دی جاتی ہیں۔پروفیسر شافع قدوائی نے کہا کہ خبر نگاری کو دو حصوں میں تقسیم کیاسکتا ہے جس میں پہلا حصہ لیڈ یا انٹرو یا ابتدائیہ اور دوسرا حصہ متن یا باڈی کہلاتا ہے،ابتدائیہ میں واقعہ کے اہم یا دلچسپ ترین عنصر کا بے لاگ بیان ہوتا ہے اور اسے خبر کا تعارف یا خلاصہ بھی قراردیاجاسکتا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ ابتدایہ خبر نویسی کی جان ہے اور اس پر رپورٹر کی کامیابی یا ناکامی منحصر ہے جبکہ اس کے بعد متن میں خبر کی دیگر تمام تفاصیل فراہم کی جاتی ہیں۔پروفیسر کے مطابق ہر واقعہ کے بیان میں کیا ،کون ،کہاں ،کب ،کیوں اور کیسے کو اساسی اہمیت حاصل ہوتی ہے اور ہر خبر اصلاً مذکورہ بالا چھ سولات کے جوابات پر مشتمل ہوتی ہے اور ابتدائیہ میں ہی ان چھ سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔پروفیسر شافع قدوائی نے ابتدائیہ کے اقسام بیان کرتے ہوئے کہا کہ ابتدائیہ ملحض یا رسمی ،حکائی ،تحیر آمیز ،سوالاتی،قولی یا اقتباساتی ،بالواسطہ قولی ،تضمینی ،تلمیحی اورمکالماتی ہوسکتے ہیںان کا کہنا تھا کہ ابتدائیہ کے بعد متن نویسی کا مرحلہ شروع ہوتا ہے اور اس میں اختصار ،معروضیت اور دلچسپی کو پیش نظر رکھاجاتا ہے لہٰذابرمحل ،موزون ،مستعمل اور عام فہم استعمال کئے جاتے ہیں ۔انہوں نے متن نویسی میں پیراگراف سازی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہر پیراگراف میں خبر کے کسی ایک پہلو کا احاطہ ہونا چاہئے ۔ادارت سازی پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ادارت سے مراد خبر ،فیچر یا مضمون کو ممکنہ تمام غلطئوں سے پاک رکھنے کی شعوری کوشش اور مواد کو قابل مطالعہ بناناہے۔انہوں نے کہا کہ خبروں کا انتخاب ،واقعات کی صحت ،بیانات کی تصدیق ،زبان و بیان کی غلطیوں کی اصلاح اور موزوں سرخیوں کے انتخاب سے ادارتی لائحہ عمل مرتب ہوتا ہے۔انہوں نے ادارت سے جڑے لوگوں کو ان سنگ ہیرو قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ ہمیشہ بے نام رہ کر بھی خبر کو انتہائی معقول صورت میں قارئین تک پہنچاتے ہیںاور ادارتی عمل میں واقعاتی غلطیوں کی اصلاح ،خبروں کی ترتیب میں غلطی کی اصلاح کرنا،زبان و بیان کی غلطی درست کرنا ،ماخذ اور ذرائع کی نشاندہی کو یقینی بنانا،توہین آمیز جملوں اور اندراجات پر نظر ثانی کرنا اورموزوں سرخی کا انتخاب شامل ہے۔پروفیسر شافع قدوائی کی مدلل گفتگو کے بعد شرکائے ورکشاپ نے ان سے کئی نکتوں کی وضاحت طلب کی جن کا انہوں نے اطمینان بخش جواب دیا جبکہ بعد میں خبر نگاری اور ادارت سازی کے حوالے سے عملی مشق بھی کرائی گئی ۔دوسری نشست میں معروف کالم نویس حسن زینہ گیری نے کالم نویسی کے رموز اسرار سے نوجوان صحافیوں کو روشناس کراتے ہوئے کہا کہ کالم نویسی کی بنیاد حقیقت بیانی پر ہوتی ہے ۔انہوں نے کالم نویسی کی تکمیل میں درپیش مراحل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لئے معلومات کاذخیرہ ہونا لازمی ہے۔ان کی تقریر کے اختتام پر بھی سوال وجوابات کا سلسلہ چلا جس کے بعد تربیتی کارروائی کل تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔ورکشاپ کے تربیتی مراحل کی نظامت کے فرائض نظامت فاصلاتی میں تعینات اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر الطاف احمد نے انجام دئے جبکہ ڈاکٹر عرفان عالم نے ان کی معاونت کی ۔یاد رہے کہ اس ورکشاپ کو کامیاب بنانے میں ڈاکٹر نیلوفر خان کا اہم رول رہا ہے جو بدستور ہر روز کی کارروائی کو کامیاب بنانے کیلئے ہمہ تن محو ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں