بدھ، 9 ستمبر، 2015

محاورہ کی اہمیت

ر اردو محاورات کا تقابلی جائزہ - علامہ اُسید الحق قادری بدایونی (ولی عہد خانقاہ عالیہ قادریہ ، بدایوں، انڈیا)
-------------------------------------------------------
کسی بھی زبان کا منظوم ادب ہو یا نثری اسالیب، محاورہ ادب کی ان دونوں شاخوں میں بڑی اہمیت رکھتا ہے- لسانیات اور ادبیات کے باب میں محاورہ کی ہمہ گیریت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کسی زبان سے اس کے محاورات الگ کرلیے جائیں تو جو کچھ باقی بچے گا وہ شاید ایک بے روح جسم کے علاوہ اور کچھ نہ ہو- محاورہ اپنی ہیئت ترکیبی اور معنوی گہرائی کے اعتبار سے زبان کی ایک خوبصورت فنی پیداوار ہوتا ہے- عام طور پر محاورہ تشبیہ، استعارہ اور کنایہ جیسی اصناف بلاغت کے حسین امتزاج سے تشکیل پاتا ہے اور عوام و خواص کا بے تکلف اور برجستہ استعمال اس کی فصاحت، بلاغت، ہمہ گیریت اور مقبولیت پر مہر تصدیق ثبت کردیتا ہے-
ڈاکٹر یونس اگا سکو کے بقول اردو میں محاورہ ’’ الفاظ کے ایسے مجموعہ کو کہتے ہیں جس سے لغوی معنی کی بجائے ایک قرار یافتہ معنی نکلتے ہوں- محاورہ میں عموماً علامت مصدر ’’ نا‘‘ لگتی ہے جیسے آب آب ہونا، دل ٹوٹنا، خوشی سے پھولے نہ سمانا- محاورہ جب جملے میں استعمال ہوتا ہے تو علامت مصدر ’’ نا‘‘ کی بجائے فعل کی وہ صورت آتی ہے جو گرامر کے اعتبار سے موزوں ہوتی ہے جیسے دل ٹوٹ گیا- دل ٹوٹ جاتے ہیں، دل ٹوٹ جائے گا وغیرہ‘‘ ( اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی و لسانی پہلو ص:۴۵)
جدید عربی میں محاورہ کو ’’ التعبیر الاصطلاحی‘‘(Idiomatic Expression) کہتے ہیں-اس کے علاوہ بعض لوگوں نے اس کے لیے’’التعبیر الأدبی‘‘ یا ’’ العبارۃ الماثورہ‘‘ یا ’’ القول السائر‘‘ جیسے الفاظ بھی استعمال کیے ہیں- عربی میں ’’ التعبیر الاصطلاحی‘‘ کا مفہوم اردو میں محاورہ کے مفہوم سے تھوڑا وسیع ہے- اردو میں ہم محاورہ، روز مرہ اور اصطلاح تین قسمیں کرتے ہیں اور ان تینوں کے درمیان لفظی و معنوی اعتبار سے فرق کیا جاتا ہے مگر عربی میں التعبیر الاصطلاحی اپنے وسیع تر مفہوم میں ان تینوں کو شامل ہے مثلاً، ’’مگر مچھ کے آنسو‘‘ اردو میں محاورہ نہیں بلکہ اصطلاح کے تحت درج کیا جائے گا، مگر عربی میں ’’ دموع التمساح‘‘ التعبیر الاصطلاحی کہلائے گا-
یہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری ہے کہ عام طور پر محاورہ اور کہاوت یا التعبیر الاصطلاحی اور ضرب المثل کے درمیان خلط ملط کردیا جاتا ہے- یہ غلطی ایسی ’’ عامۃ الورود‘‘ ہے کہ عوام تو عوام بہت سے خواص بھی اس کا شکار ہوگئے ہیں- مثال کے طورپر پروفیسر محمد حسن کی کتاب ’’ ہندوستانی محاورے‘‘ میں آدھے سے زیادہ ضرب الامثال یا با لفاظ دیگر کہاوتیں درج کردی گئی ہیں- اسی طرح منشی چرنجی لال دہلوی نے ’’ مخزن المحاورات‘‘ کے نام سے جو ذخیرہ جمع کیا ہے اس میں کثرت سے امثال روز مرہ اور اصلاحات کو شامل کرلیا ہے- منیر لکھنوی کی مشہور لغت ’’ محاورات نسواں‘‘ میں ایک بھی محاورہ نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے ضرب الامثال اور کہاوتوں کا مجموعہ ہے-
پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی نے اپنی مشہور کتاب ’’ کیفیہ‘‘ میں دسواں باب محاورہ کے لیے خاص کیا ہے مگر اس میں بھی ۳۰؍ سے زائد کہاوتیں درج کردی ہیں- در اصل یہ خلط مبحث محاورہ اور مثل کی متفقہ جامع و مانع تعریف وضع نہ کیے جانے کا شاخسانہ ہے- مثال کے طور پر ’’ فرہنگ آصفیہ‘‘ کے مصنف نے اصطلاح کی جو تعریف کی ہے اس کو کسی حد تک محاورہ کی تعریف تو کہا جاسکتا ہے مگر ان کی بیان کردہ محاورہ کی تعریف در اصل نہ محاورہ پر صادق آتی ہے نہ ضرب المثل پر- محاورہ کی تعریف میں انہوں نے یہ جملہ لکھ کر مسئلہ کو اور پیچیدہ کردیا کہ ’’عین مستورات کی زبان کو محاورہ کہتے ہیں‘‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ محاورہ کی مثال میں مصنف نے میر کا یہ شعر نقل کیا ہے
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
ان کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
اس میں غالباً ’’زلفوں کا اسیر ہونا‘‘ کو تو محاورہ کہا جاسکتا ہے مگر یہ مسئلہ تحقیق طلب ہے کہ یہ’’ عین مستورات کی زبان‘‘ کیونکر قرار پایا-
محاورہ اور ضرب المثل کی متضاد تعریفوں اور غیر متعین حدود اربعہ ہی کا نتیجہ ہے کہ جن مخصوص تراکیب کو فیروز اللغات میں محاورہ قرار دیا گیا ہے ان تراکیب کو فرہنگ آصفیہ میں صرف ’’ مصدر‘‘ کہا گیا ہے- اور صاحب فرہنگ نے جن تراکیب کو محاورہ لکھا ہے وہ فیروز اللغات میں ضرب المثل کے تحت درج ہیں-
اسی قسم کا خلط مبحث عربی میں نظر آتا ہے- مثلاً ابن عمر السدوسی کا رسالہ ’’ کتاب الا مثال‘‘ در اصل محاورات یا بالفاظ دیگر التعبیر الاصطلاحی کا مجموعہ ہے- ابن سلمہ نے ’’ الفاخر‘‘ میں محاورات اور امثال کو آپس میں گڈ مڈ کردیا ہے- البتہ الشعابی نے ’’ فقہ اللغۃ‘‘ میں محاورات کو امثال سے الگ رکھتے ہوئے ان کو ’’ فصل فی الا ستعارہ‘‘ کے تحت درج کیا ہے- ان متقدمین کا دفاع کرتے ہوئے ڈاکٹر کریم حسام الدین نے
ی صورت میں ضروری ہے کہ آپ دونوں زبانوں کے محاورات سے بخوبی واقف ہوں تاکہ محاورہ کا ترجمہ محاورہ میں کیا جاے- اسی کو ’’ با محاورہ ترجمہ‘‘ کہتے ہیں، اگر آپ محاورہ کا لفظی ترجمہ کردیں گے تو یا تو وہ بے معنی ہوجائے گا یا کم ازکم غیر فصیح ہوگا- سواے ان محاورات کے جو لفظ و معنی میں یکسانیت کے ساتھ دونوں زبانوں میں ہیں مگر ایسے محاورے کم ہی ہیں - یہ ایسا نازک مقام ہے کہ یہاں اچھے اچھوں کی قابلیت غوطہ کھا جاتی ہے- ہمارے یہاں آج بھی ’’ ذھب ابو حنیفۃ الی کذا‘‘ کا ترجمہ ’’ ابو حنیفہ اس طرف گئے ہیں‘‘ کیا جاتا ہے- یہ ترجمہ نہ صرف یہ کہ غیر فصیح ہے بلکہ اردو محاورہ کے اعتبار سے بھی غلط ہے دراصل سلیس اور با محاورہ ترجمہ کرنا بھی ایک فن ہے جو محض زبان کے قواعد رٹ لینے اور مفردات کو حفظ کرلینے سے نہیں آتا بلکہ اس کے لیے ذوق سلیم اور ادبی شعور بھی ضروری ہے- شاید اسی ذوق سلیم اور ادبی شعور کے فقدان کا نتیجہ ہے کہ ہمارے یہاں اگر ’’ فقد قال زید‘‘ کا ترجمہ ’’ پس تحقیق کہ کہا زید نے‘‘ نہ کیا جائے تو بعض ’’کافیہ بردوش‘‘ قسم کے علامہ چیں بجبیں ہوجاتے ہیں - اس قسم کے ترجمے اگر نحو و صرف کی کتابوں میں دی گئی مثالوں تک محدود رہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں مگر حیرت اس وقت ہوتی ہے جب اسی قسم کے نحوی و صرفی ترجمے عام مذہبی، ادبی اور تاریخی کتابوں میں روا رکھے جاتے ہیں، ان کو دیکھ کر سواے اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ ’’ شعر مرا بمدرسہ کہ برد‘‘ یہ تو عربی سے اردو ترجمہ کی بات تھی اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اردو سے عربی ترجمے اپنے جلو میں کیسے کیسے ادبی جواہر پارے اور محاوراتی شاہکار رکھتے ہوں گے-
ایک بڑی دشواری یہ بھی ہے کہ عام طور پر عربی سے اردو یا اردو سے عربی لغات میں محاورات بہت کم شامل کیے گئے ہیں، اورجو ہیں بھی ان کے یا تو لفظی معنی درج کردئیے گئے ہیں یا پھر اپنی طرف سے کوئی ایسی تعبیر گڑھ دی گئی ہے جس سے اہل زبان نا آشنا ہیں-
اب تک کوئی ایسی کتاب بھی دیکھنے میں نہیں آئی جس میں عربی محاورات کو یکجا کر کے اردو میں ان کا متبادل محاورہ دیا گیا ہو- پاکستان سے شائع شدہ ایک دو کتابیں ضرور نظر سے گذریں مگر ان میں یا تو محاورات کے نام پر ضرب الامثال جمع کردی گئی ہیں یا پھر تعبیرات کے نام پر عرب کے مستند ادبا کی کتابوں سے شگفتہ اور عمدہ جملے یکجا کردئیے گئے ہیں-
جیسا کہ ہم نے ابھی عرض کیا کہ با محاورہ ترجمہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو دونوں زبانوں کے محاورات سے واقفیت ہو، مثال کے طور پر اگر عربی میں یہ ہو کہ ’’ضرب عصفورین بحجر‘‘ تو اس کا ترجمہ یہ نہیں ہوگا کہ اس نے ایک پتھر سے دو چڑیا ں ماریں بلکہ یہ ہوگا کہ اس نے ایک تیر سے دو شکار کیے- اسی طرح اگر یہ ہو کہ ’’جعل الحبۃ قبۃ‘‘ تو اس کا ترجمہ یہ نہیں ہوگا کہ اس نے دانے کا گنبد بنادیا بلکہ یہ ہوگا کہ اس نے رائی کا پہاڑ بنادیا- اسی طرح اگر اردو میں یہ ہو کہ اس نے خود اپنے پیر پر کلہاڑی مارلی تو اس کا ترجمہ عربی میں یہ نہیں ہوگا کہ ’’ضرب علی رجلہ بالفأس‘‘ بلکہ یہ ہوگا کہ ’’ حفر قبرہ بیدہ‘‘ یعنی اس نے اپنے ہاتھ اپنی قبر کھود دی-
راقم الحروف نے اس موضوع کی اہمیت اور طلبہ کو اس کی اشد ضرورت کے پیش نظر اپنی کم علمی کے باوجود تقریباً ایک ہزار عربی محاورے یکجا کر کے ان کا ترجمہ اردو محاورے میں کرنے کی کوشش کی ہے-
اس کتاب سے عربی زبان و ادب میں دلچسپی رکھنے والے طلبہ کو نہ صرف ترجمہ کرنے میں بلکہ عربی انشا پردازی میں بھی کافی مدد ملے گی- اس پر ایک تفصیلی مقدمہ بھی ہے جس میں عربی اور اردو محاورات کا تقابلی تجزیہ کرتے ہوئے ان کے لسانی، تاریخی، سماجی، اور ترکیبی پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے- ساتھ ہی مقدمہ میں عربی سے اردو اور اردو سے عربی ترجمہ کرنے کے لیے مثالوں کے ساتھ کچھ ایسے رہنما اصول بھی درج کیے گئے ہیں جن کی رعایت کر کے ان لسانی غلطیوں سے کسی حد تک بچا جاسکتا ہے جو ہمارے ’’ادباے روزگار‘‘ کی عربی یا عربی سے اردو ترجمہ کا خاص وصف ہیں- انشاء اللہ جلد ہی یہ کتاب منظر عام پر آکر اہل ذوق کے ہاتھوں میں ہوں گی-
(جامِ نور جولائی ۲۰۰۴ئ)
31 October 2013 at 00:00 · Publ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں