اتوار، 1 جولائی، 2018

عاجزی انسان کا جوہر خاص

عاجزی انسان کا جوہر خاص 

آج تقابل کا دورہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کامتمنی ہے۔ مادّیت کے اس دور میں ہمارے سودوزیاں اور نفع ونقصان کا سارا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم دنیاوی عیش وعشرت اور جاہ و حشم میں کس قدر آگے ہیں۔ ہمارے پاس بینک بیلنس کتنے ہیں۔ ہمارے پاس گاڑیاں کتنی مہنگی ہیں۔ ہمارا گھر کس قدر عالیشان ہے اور سماج میں ہماری عزت اور آؤ بھگت کس پیمانے پر ہے۔ اس طرح کے مزید پہلو ہیں جن پر ہماری نظریں مر کوز رہتی ہیں۔

ان حالات میں ہمارے سامنے دوصورتیں پیدا ہو تی ہیں۔ اگر ہم کم تر ہیں تو دل حسرت و یاس کا پتلا بن جا تا ہے اور نا امیدی ہمارے گر د ہالہ بنا لیتی ہے اور اگر ہم بہتر ہیں تو فخر و مباہات اورتکبر و انانیت کا غیر محسوس مر ض ہمار ے اندر کی دنیا کو بیمار کر دیتا ہے۔ یہ دونوں صورت انسانی زندگی کے لیے جس قدر نقصان دہ ہے اسی قدر برے انجام کا پیش خیمہ ہے۔ پہلی صورت میں صبر کا پیمانہ ہم سے چھن جا تا ہے۔ جب کہ دوسری صورت میں شکر کی نعمت سے ہم محروم ہو جاتے ہیں۔ زیرِ نظر مضمون میں دوسری صورت (فخرومباہات اور تکبر و انانیت )پر قرآن و احادیث کی روشنی میں اپنا محاسبہ مقصود ہے۔
اس ضمن میں پہلا نکتہ یہ ہے کہ انسان کا وجود اور اس کا آغاز و انجام خود اس کے لیے درسِ عبرت ہے۔ اس کے وجود کا آغاز ایک ناپاک قطرہ سے ہے اور اس کی حیاتِ مستعارکا اختتام سپردِ خاک ہوجانا ہے۔ پھر کہاں کی بڑائی اور کس چیز کا غرور اس کی رگ رگ میں دوڑ رہا ہے۔ اگر دولت و ثروت کانشہ ہے تو قارون کا ہیبت ناک انجام اس کے سامنے ہے ۔ اگر قوت اور فنی مہارت اس کے تکبر کو مہمیز لگا رہی ہے تو قومِ عاد کے ویران کھنڈرات کی سسکیاں اور پہاڑوں میں تراشے گئے عالیشان محلات کی ہچکیاں اس کے لیے نمونۂ عبرت ہیں اور اگر شوکت و عظمت پر اس کے فخرومباہات کی بنیاد ہے تو پھر اسے قیصروکسریٰ کی تاریخ دہرا نی چاہیے! جس کی شان اور آن کے صنم خانوں میں خاک اڑائی جاچکی ہے۔
تکبر اوربڑائی صرف اس ذات کو زیبا ہے جس کی جلالتِ شان سے ہر چیز پر لرزہ طاری ہے اور ہر بلندی اس کی عظمت کی چوکھٹ پر سرِ نیاز خم کیے ہوئے:
’’ولہ الکبریاء فی السموات والارض وہوالعزیز الحکیم‘‘
کی زمزمہ خوانی میں مصروف ہے !!
آسما ن کی رفعتوں میں اور زمین کے ذرّوں میں عظمت و کبریائی کی ساری جلوہ سامانیاں اسی ایک ذاتِ واحد کے لیے ہے اور وہی ساری حکمتوں کا زبر دست شہنشاہ ہے۔
یہ سچ ہے کہ جب یہ خاک کا پتلا فخروغرور کا مظاہرہ کر تا ہے تو نہ جانے کن کن خرافات کو اپنے دامنِ کبر میں جگہ دیتا ہے۔ کبھی اترا کر چلتا ہے، کھبی اکڑ کر بولتا ہے، ہر کسی کو اپنے سے کمتر و حقیر سمجھ بیٹھتا ہے، دولت وثروت کے نشے میں چوٗر؛ غریبوں اور ناداروں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ ان کی مجلسوں میں نششت وبرخاست پر عار محسوس کرتا ہے، ان سے رواداری وبھائی چارگی میں اسے کسرِ شان کا گمان ہوتا ہے اور پھر اس سے ہر ایسے فعل کا صدور ہو نے لگتا ہے جس سے اس کی کمینگی و نا ہنجاری اور بد بختی و بدخصلتی ظاہر ہو تی ہے۔ اسی لیے قرآن اس کی حقیقت کو واشگاف کرتے ہو ئے اسے متنبہ کر تا ہے:
’’ولاتمش فی الارض مرحا انک لن تخرق الارض ولن تبلغ الجبال طولا‘‘(سورہ اسرا پ۱۵ آیت ۳۷)
تر جمہ: اور مت چل زمین پر اتراتا ہواتو پھاڑ نہ ڈالے گا زمین کواور نہ پہنچے گاپہاڑوں تک لمبا ہوکر‘‘
یہی وجہ ہے کہ قرآن نے مختلف مقامات پر اپنے خوبصورت اور عبرت آموز اسلوب میں تکبر و انانیت کی قباحت و شناعت اور اس کے ہلاکت خیز انجام سے انسان کو باخبر کیا ہے:160
’’ان اللہ لایحب من کان مختالافخورا‘‘(سورہ نساء۳۶)
بیشک اللہ کو پسند نہیں آتااترانے والابڑائی کر نے والا
’’واذاقیل لہ اتق اللہ أخذتہ العزۃبالاثم فحسبہ جہنم ولبئس المہاد‘‘(سورہ بقرہ:۲۰۶)
اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تو آمادہ کرے اس کو غرور گناہ پر سو کافی ہے اس کو دوزخ اور وہ بیشک برا ٹھکانہ ہے‘‘
قرآن نے مختلف مقامات پر انسان کو متنبہ کیا ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی بڑائی اور تکبر کو اپنے وجود کا حصہ نہ بنائے۔
احادیث بنویہ کا اعلان بھی بہت صاف اور واضح ہے ۔ آپ ﷺ نے انسان کواس کے برے انجام سے آگاہ کیا اور ایسے شخص کی محرومیوں، حسرتوں، افسردگیوں اور یاس انگیزیوں کو ظاہر کیا ہے :
’’عن عیاض بن حمار قال قال رسول اللہ ﷺ ان اللہ أوحی الی ان تواضعوا حتی لایبغی احد علی احدولا یفخر احد علی احد (رواہ ابو داؤد)
تر جمہ : عیاض بن حمارؓ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ اللہ نے میری طرف وحی فر مائی اور حکم بھیجا کہ تواضع اور خاکساری اختیار کرو (جس کا بتیجہ یہ ہو نا چاہیے )کہ کو ئی کسی پر ظلم وزیادتی نہ کرے اور نہ کو ئی کسی کے مقابلے میں فخرومباہات کا مظاہرہ کرے۔
ایک اور روایت میں جہاں آپ ﷺ نے تواضع اختیار کر نے والوں کو حسنِ انجام کا مژدہ سنایا وہیں تکبر کر نے والوں کو انجام بد سے آگاہ کیا:
’’عن عمرؓ قال وہوعلی المنبر:یایہاالناس!تواضعوافانی سمعت رسول اللہ ﷺ یقول من تواضع للہ رفعہ اللہ فہوفی نفسہ صغیر،وفی اعین الناس عظیم، ومن تکبر وضعہ اللہ فہوفی اعین الناس صغیر وفی نفسہ کبیر حتی لہو اہون علیہم من کلب أوخنزیر(رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
تر جمہ: حضرت عمر فاروقؓ نے ایک دن خطبہ دیتے ہو ئے ارشاد فر مایا کہ لو گو ! فروتنی اور خاکساری اختیار کروکیو ں کہ میں نے رسو ل اللہ ﷺ سے سنا ہے :آ پﷺ فرماتے تھے جس نے اللہ کے لیے خاکساری کا رویہ اختیار کیا (بندگان خدا کے مقابلہ میں اپنے کو نیچا رکھنے کی کوشش کی )تو اللہ تعالی اس کو بلند کر گا۔(جس کانتیجہ )یہ ہو گا کہ وہ اپنے خیال اور اپنی نگاہ میں تو چھوٹا ہو گا لیکن عام بندگان خدا کی نگا ہوں میں اونچا ہو گااور جو کو ئی تکبر کر ے گا تو اللہ تعالی اس کو نیچا گرادے گا(جس کا نتیجہ )یہ ہو گا کہ وہ عام لو گوں کی نگاہوں میں ذلیل و حقیر ہو جا ئے گا گر چہ خود اپنے خیال میں بڑا ہو گا۔ لیکن دوسروں کی نظروں میں وہ کتوں اور خنزیروں سے بھی زیادہ ذلیل اور بے وقعت ہو جا ئے گا۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشادفر مایا کہ:
’’ایک شخص(امم سابقہ)میں سے لباسِ فاخرہ پہنے جی ہی جی میں خوش ہوتا سر میں کنگھی کیے (بال سنوارے)متکبرانہ چال سے چلا جارہا تھا کہ اللہ تعالی نے اچانک اسے زمین میں دھنسا دیا اور اب وہ قیامت تک دھنستا ہی رہے گا’’(بخاری:۲۰۸۸۔مسلم:۵۴۵۲)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالی نے فر مایا کہ عزت میرا پہناوا، کبریائی میری چادرہے ان دونوں کے بارے میں جو بھی مجھ سے جھگڑے گا میں اسے عذاب میں مبتلا کر دوں گا‘‘(مسلم:۲۶۲۰)
ان آیات و احادیث پر غو ر کر نے سے معلوم ہو تا ہے کہ انسان کے لیے احساسِ تفاخر کا کو ئی جواز نہیں۔ اس کے بر عکس جب ہم اس نکتے پر غور کر تے ہیں کہ جس نے بھی عاجزی و انکساری اور محبت و رواداری کو اپنا یااللہ نے اسے کامران کیا۔
آج ہمارے سماج میں لباس ،مکان،طعام، شادی بیاہ،سواری اوردیگر امور میں تفاخر وتقابل کا جو نظریہ سر اٹھا رہا ہے وہ یقیناًاپنے اندرافسوس کا پہلو رکھتا ہے۔مگر آج علمی میدان میں بھی ہم نے اس نظریے کو اپنا ناشروع کر دیا ۔ جو جس قدر جہالت میں آگے ہے وہ اسی قدر اپنی علمی گہرائی کے زعم میں مبتلا ہے۔ فتوے خود صادر کر تا ہے۔ مسائل کا استخراج کر تا ہے اور اس پر یہ تصور کہ’’ہم چوں دیگر ے نیست‘‘۔۔۔!!اور پھر و ہ دوسروں کو حقارت آمیز نظروں سے دیکھتا ہے اور اس کی ذلت و رسوائی کے سامان کرتا ہے۔ حالانکہ علمی اعتبار سے بھی ہمیں کسی پر کو ئی افتخار نہیں۔ صحیح علمی گہرائی انسان کو متواضع بناتی ہے۔جس کے راز پر آگاہی کا ئنات پر غور کر نے سے ہو تی ہے۔اللہ تعالی نے جس قدر با ریکیاں اور حکمت کی تہہ داریاں اس کائنات میں رکھی ہیں کہ انسان اس کے پا نے سے عاجز ہے۔ بہت کچھ جان کر بھی اسے اس بات کا احساس ہو تا ہے کہ اس نے اس کائنات کے اسرار کا عشر عشیر بھی نہیں جا ن سکا ہے۔یہیں سے اس میں عاجزی اور انکساری کی صفت پیدا ہو تی ہے ۔ ہاں اگر وہ مد مقابل سے زیادہ جان کار ہے تو اس کی ذمے داری اس تک اپنے علم کی تر سیل کی ہے جس میں خلو ص ہو ، دکھلاوا یا تضحیک نہ ہو ۔

1 تبصرہ: