اتوار، 1 جولائی، 2018

حج عشقِ الہی کا مظہر


حج عشق الہی کا حسین مظہر ہے ۔

 محبت الہی کے اظہار کا خوبصورت استعارہ ہے ۔ انسانی خمیر میں داخل جذبہ عشق کی تسکین اور محبوب حقیقی کے سامنے شوق وتعظیم کے بیان کا سبب ہے ۔ ایمانی تا زگی و توانائی اور تطہیر قلوب واذہان کا موثر ذریعہ ہے ۔ جس میں روح بے تاب ا ور دل بے قرار کو سکون نصیب ہوتا ہے ۔ بقول حضرت شاہ ولی ا للہ محدث دہلوی:
’’ کبھی کبھی انسا ن کو اپنے رب کے طرف غایت درجہ اشتیاق ہو تا ہے ،اور محبت جوش ما رتی ہے ،اور وہ اس شوق کی تسکین کے لئے اپنے چاروں طرف نظر دوڑا تا ہے ،تو اس کو معلوم ہو تا ہے کہ اس کا سامان حج ہے ‘‘(ارکان اربعہ ص۲۹۴)
حج میں انسان کو اپنی حقار ت کا احسا س اور رب ا لعلمین کی عزت وجلال کا اعتراف ہوتاہے،یہاں جن اعمال اور نقل وحرکت کا پا بند بنایاگیا ہے ،وہ عقل انسانی سے ماوراء ہے مگر یہی اعمال کمالِ بندگی کا اشاریہ ہے ۔حج حضرت ابراہیم ؑ سے تجدیدِ تعلق کا ذریعہ بھی ہے اور حضرت ابراہیم وہاجرہ اور اسمعیل علیہم السلام کے حسین وبے مثال قصے کی تمثیل بھی،حج ملت اسلامیہ کی ایسی اجتماع گاہ ہے جہاں سے ان کی رگوں کو خونِ تازہ نصیب ہوتاہے ،حج نسلی،وطنی ،لسانی اور علاقائی حدِفاصل کوختم کر کے ایک ہی لباس ،ایک ہی صدا ،ایک ہی ادا اور ایک ہی مقصد کے ساتھ اسلا می وانسانی اخوت اور عا لمی برادری کا حسین سبق دیتا ہے ۔



ایک بار پھر حج کا موسم اپنے فضائل وبر کات کے ساتھ سا یہ فگن ہے ،طالع بختوں اور اقبال مندوں کا روحا نی کا رواں سوئے بیت اللہ رواں ہے ،۔۔۔ان کی روا نگی کا روح پر ور منظر دیکھئے!۔۔۔عشق ومحبت کے یہ قافلے خود سے بے گا نہ ہو چکے ہیں ،ان کی جذباتیت ،فنا ئیت اور وجدا نی کیفیت کا یہ نورانی لمحہ کس قدر رقت انگیز ہے ،نوائے عاشقاں’’لبیک اللہم لبیک،لا شریک لک لبیک،ان الحمد والنعمۃلک والملک لا شریک لک،کی حسین تکبیر کے ساتھ یہ کارواں پاک وہند ،افریقہ وملیشیا ،ایران ومصر ،ترکی و افغا نستان ،شمال و جنوب ،مشرق ومغرب سے کشاں کشاں ،افتاں وخیزاں،آشفتہ ودیوانہ بیت عتیق کی طرف چلے جا رہے ہیں ،۔۔۔ رنگ ونسل کا امتیاز اٹھ چکا ہے ،عربی وعجمی کے فاصلے مٹ چکے ہیں ایک جذبہ،ایک عقیدہ ،ایک دعوت اور ایک ہی مقصدکے حسین نظاروں کے ساتھ ایک ہی منزل کے یہ لاکھوں راہی عین تفسیر ہیں اس آیت کی:
واذن فی الناس بالحج یاتوک رجالاوعلی کل ضامریاتین من کل فج عمیق
(ترجمہ)’’اور لوگوں میں حج کااعلان کردو!لوگ تمہارے پاس پیدل بھی آئیں گے اور دبلی اونٹنیوں پر بھی ،جو دور دراز راستوں سے پہنچی ہو نگی(پ ۱۷ س حج)۔
جب کعبہ تعمیر ہوگیا ،تو ابراہیم ؑ نے پکا راکہ لوگو!!تم پر اللہ نے حج فرض کیاہے ،حج کوآؤ!!!حق تعا لی نے یہ آوازہر ایک ذی روح کو پہنچادی ،جس کے لئے حج مقدر تھااس کی روح نے لبیک کہا ۔۔۔وہی شوق کی دبی ہوئی یہ چنگاری آج شعلہ بن کر عشق کی جولان گاہ میں پہنچ رہی ہے،یہ دعائے ابراہیم ؑ ’’سو رکھ بعضے لوگوں کے دل کہ مائل ہوں ان کی طرف (پ ۱۳ س ابراہیم)کابھی اثرہے۔
سفر تو سفر ہے ،چاہے پیدل ہو یا ہوائی جہاز کا۔ ،صعوبت بہر حال مسافر کامقدر ہے،لیکن راہِ عشق کے ان مسا فروں کو ان صعوبتوں میں کچھ اس طر ح لطف ملتا ہے ؂
ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیاتھامیں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر
(غالب)
اسی خوشی میں جدہ سے روانہ ہوچکے ہیں،پہا ڑوں،پتھروں،اور سنگریزوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے،راستے میں دھوپ کی شدت ،آفتاب کی تمازت،کنکریلی اور پتھریلی زمین تا حد نگاہ پھیلی ہوئی ہے ،مگر بزبان شا عر یہ پیغام ملتاہے کہ ؂
انھیں پتھروں پہ چل کے آسکو تو چلے آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی گلستاں نہیں
دیوانگی ،فریفتگی اور بے تابی کے عالم میں انہیں پتھروں پہ چل کے پہنچ چکے ہیں،۔۔۔لیجئے!!وہ منزل سامنے ہے ،دیکھنا چاہتے ہیں،مگر ’’آنکھوں کوبند کئے ہوئے ہیں دیدار کے لئے ‘‘اور کیفیت یوں ہے کہ ؂
وہ سامنے ہیں نظامِ حواس برہم ہے
نہ آرزو میں سکت ہے نہ عشق میں دم ہے
پلکیں کبھی کھل رہی ہیں،کبھی بند ہورہی ہیں ،اب بڑھنا چا ہتے ہیں ،قدم لرزرہا ہے ،اور قوتِ اعضا جو اب دے چکی ہے ،ہاں ! مگر قوتِ عشق ہے جو قدم کو آگے بڑھا رہی ہے ،عبودیت ،سپر دگی اور جذبہ اطاعت و انقیاد کی مکمل تصویر بنے ہو ئے ہیں،زرق برق لباس ،شا ہا نہ آن بان ،طلا ئے عظمت اتار پھینکا ہے ،قبا ئے زریں ،لباس حریر ودیباج اور شیروانی لپیٹ کر رکھدےئے ہیں،خوشبو ،چمک دمک اور شہوت جذبات کی باتیں ختم کر چکے ہیں،حکم کے بندے اور اشاروں کے غلا م بن چکے ہیں،اب وہ وقت آچکاہے ،جس کے لیے بلا ئے گئے ہیں،ان کی حا لت یہ ہو چکی ہے
’’سر تسلیم خم ہے جو مزاج یارمیں آئے‘‘
وہ دیکھئے !!کبھی مکہ میں نظر آرہے ہیں ،تو کبھی منیٰ میں،کبھی عرفات میں ہیں، تو کبھی مژدلفہ میں،کبھی ٹھہرے ہوئے ہیں ،تو کبھی سفر جا ری ہے ،کبھی خیمہ گاڑتے ہیں ، تو کبھی اکھا ڑتے ہیں ،اپنا نہ کوئی ارادہ ہے ،نہ فیصلہ ،وہ منیٰ میں اطمنا ن کی سانس بھی نہیں لے پاتے کہ عرفات جا نے کا حکم مل چکا ہوتا ہے ،لیکن مزدلفہ میں رکنے کی اجازت نہیں ہوتی،عرفات پہنچ کر وہ دن بھر مناجات و عبادات میں مشغول ہیں ،وہاں غروب آفتاب کے بعد بدن کی تھکاوٹ اطمنان چا ہتی ہے کہ فورا مزدلفہ جا نے کا حکم مل جا تا ہے،وہ زندگی بھر نمازوں کے پا بند رہے ،مگر یہاں حکم ملتاہے،مغرب چھوڑدو اور یہ نماز مزدلفہ پہنچ کر عشاء کے ساتھ پڑھو !! جیسا کہا جا رہا ہے ،ویسا ہی کر رہے ہیں،مزدلفہ میں کیف ونشاط سے جونہی ہم آغوش ہونا چاہتے ہیں،کہ حکم ملتا ہے منیٰ کی طرف کوچ کرو ،۔۔۔ا ن کی ہر اداؤں سے حضرت ابراہیم ؑ کے عمل کی تصویریں روشن ہو رہی ہیں۔کبھی بیت اللہ کاطواف کر رہے ہیں ،کبھی حجر اسود کوبوسہ دے رہے ہیں،کبھی رمی جمار میں مصروف ہیں،کبھی صفا مروہ کی سعی میں حضرت ہاجرہ کی ما متا اور جوش اضطراب سے معمور دکھا ئی دے رہے ہیں،جہاں وہ تیز دوڑی تھیں ،وہاں یہ بھی تیز دوڑ رہے ہیں،جہاں متا نت وسنجیدگی کا اظہار ہوا تھا ،وہاں یہ بھی متانت وسنجیدگی کے پیکر بنے ہوئے ہیں۔۔۔کبھی وہ عرفات کے میدان میں رو رہے ہیں،تو کبھی پہاڑی کے دامن میں گڑگڑا رہے ہیں،اور کبھی ملتزم سے چمٹ کر آہ و زاری کر رہے ہیں،ہےئت کیا ہے ،وہی جو شرعی زبان میں ایک حا جی کی ہو تی ہے ،با ل بکھرے ہوئے،ناخن بڑھے ہوئے ،بدن گرد وغبار آلود ،’’الشعث التفل‘‘کی تصویر میں ڈھل چکے ہیں۔۔۔بس وہی کیفیت جو مجنوں کی لیلی کی گلی میں تھی ،شعری پیرائے میں وہ ساری کیفیتیں سمٹ آ ئی ہیں ؂
امر علی الدیار دیار لیلی
اقبل ذالجدار و ذالجدارا
وما حب الدیار شغفن قلبی
ولکن حب من سکن الدیارا
(ترجمہ)کہ جب لیلی کے مکان سے گذرتا ہوں ،تو کبھی اس دیوارکو چومتا ہوں اور کبھی اس دیوارکو ،کبھی اس دروازے کو چومتا ہوں ،تو کبھی اس دہلیز کو،اور ہاں!!مجھے ان اینٹوں اور دروازوں سے کوئی قلبی شغف نہیں ہے ،لیکن چومنے کی وجہ یہ ہے کہ ا ن میں میرے محبوب کی خوشبو بسی ہو ئی ہے ،اور وہ انہی کے اندر بیٹھی ہوئی ہے )
ان وفا شعار ،جاں نثاراور عشاق ومحبین کے یہ پر کیف نظارے مکہ میں دیکھنے کو مل رہے ہیں ،۔۔۔مگر ابھی تو ایک اور حسین منظر جلوہ نمائی کے لئے بیتاب ہے ،،عشق کی ایک اور جولان گاہ میں ان عا شقوں کا نور محبت اور نور شوق مچلنے کو بیقرار ہے ،۔۔۔قلب تھام لیجئے !!!اپنی دھڑکن روک لیجئے !!لرزتے بدن پر قابو پا ئیے !!دیوا نوں اور عا شقو ں کا قافلہ اب سوئے مدینہ روانہ ہو چکا ہے ،مگر وہاں کی حاضری سے پہلے اپنا جا ئزہ لیتے ہیں تو دل تڑپ اٹھتا ہے ،اشک غم کا دریا رواں ہو جا تا ہے ،اپنی عصیا ں پر وری کے احساس سے ندامت کے پسینے ان کی پیشا نی سے ٹپکنے لگتے ہیں ؂
ترا جب سامنا ہوگا تڑپ اٹھے گا دل مرا
میری آنکھوں سے اشک غم مسلسل بہہ رہا ہوگا
ندامت کے پسینے میری پیشانی پہ ابھریں گے
میرا دل اپنی عصیاں پروری پر جل اٹھا ہوگا
لپٹ کر تیرے دامن سے کہوں گااپنی سب حالت
نہ جانے کس طرح مجھ سے بیان مدعا ہوگا
گنبد خضراء نظر آتے ہی شعلہ اشتیاق کی لہک کچھ کم ہوتی ہے ، اب روضہ رسول ﷺکی سنہری جا لیوں کو پکڑ چکے ہیں ،ہجر یار میں آبلوں کے طرح رستی ہوئی آنکھیں بادلوں کے طرح روضہ پر برس پڑی ہیں ؂
جو آنکھیں ہجر میں رستی تھیں آبلوں کی طرح
برس پڑی ہیں وہ روضے پہ بادلوں کی طرح
راز ونیاز شروع ہو چکا ہے ،درود وسلام کا سلسلہ جا ری ہے کچھ اس طرح ؂
نبی اکرم شفیع اعظم دکھے دلوں کا پیام لے لو
تمام دنیا کے ہم ستائے کھڑے ہو ئے ہیں سلام لے لو
خیال کی پر واز بند ہو گئی ہے ،تصور کی اڑان ختم ہو چکی ہے ،الفاظ ،تعبیرات ،تشبیہات اور ہر خو بصورت جملے ذہن سے غائب ہو چکے ہیں،کیامانگ رہے ہیں ،کیا کہہ رہے ہیں ،نہ کچھ ہو ش ہے ،نہ خبر ہے ،درددل کی بے تابی کا یہ روحا نی اثر ہے :
والعشق نار فی القلوب
یحرق ما سوی المحبوب
کا روح پر منظر ہے ،ذوق وشوق ،عشق ومحبت اوردل سوزی وبیقراری سے مغلوب ہو چکے ہیں، ان کے زخم خوردہ دل کے شکستہ تار پر احساس جرم کی یہ دردبھری لے سنائی دینے لگتی ہے ؂
زخم کھائے ہوئے سر تا بقدم آئے ہیں
ہانپتے کانپتے یا شاہ امم آئے ہیں
سرنگوں آئے ہیں بادیدۂ نم آئے ہیں
آبرو باختہ دل سوختہ ہم آئے ہیں
کھو کے بازار میں سب اپنا بھرم آئے ہیں
شرم کہتے ہوئے آتی ہے کہ ہم آئے ہیں

آپ کے سامنے جس حال میں ہم آئے ہیں
ایسے مجرم کسی دربار میں کم آئے ہیں
اسی بے تا بی کے عالم میں ان عا شقوں کے زخمی ضمیر پر ایک ضرب لگتی ہے ،یہ ضرب جدائی کے بگل کی ہے ،جو اس با ت کا اعلان کر رہی ہے کہ جدا ئی کا الم انگیز وقت آچکا ہے،مدت میعاد مکمل ہو چکی ہے ،اب واپسی ہے ۔۔۔جدائی کے المناک وقت کی کیفیت کا بیان لفظوں میں کہاں ممکن ہے ، بس اتنا کہ آنکھیں اشکبار ہیں،قلب حزن ووالم سے ریزہ ریزہ ہے ،سینہ جدائی کی آگ سے دہک رہا ہے ،اور دل کے ارماں دل میں گھٹ کے رہ گئے ہیں !!

1 تبصرہ: