اتوار، 6 ستمبر، 2015

طنزومزاح کی نثری تاریخ

فکاہیات
مزاح کی تعریف: کسی عمل، خیال، صورت‌حال، واقعے، لفظ یا جملے کے خندہ‌آور پہلووں کو دریافت کرنا، سمجھنا اور ان سے محظوظ ہونا-
طنز  کی تعریف: حماقتوں، برائیوں اور بداخلاقی کی مذمت، بدمزگی پیدا کیے بغیر اس طرح کرنا کہ ان کے خلاف جذبات پیدا ہوں اور مزاح بھی پیدا ہو-
اردو نثر میں مزاح‌نگاری:
1ـ ابتدائی دور (آغاز سے 1857ء تک):
فارسی شعرا کے پاس معاصرانہ چشمکوں اور طنز و تعریض کی روایت تھی- وہ اردو میں در آئی اور اس کےآثار قطب‌شاہی دور کے شعرا کے پاس بھی ملتی ہیں-
مثلاً نط”صرتی اپنی مثنوی “علی‌نامہ”‌(1665ء) میں بعض مقامات پر مغول اور اورنگ‌زیب کی فوجیوں کا مضحکہ اڑایا ہے اور ایک آدھ مقام پر دشمنوں کے پسپا ہونے اور شکست کھاکر بھاگنے کا نقشہ کھینچا ہے-
عادل‌ شاہی دور کے شاعر ملک خوشنود کے پاس ایک گھوڑے کی ہجو میں چند اشعار ملتے ہیں-
اردو نثر میں مزاح کا اولین نمونہ:
(1) جعفر زٹلی(1658ء ـ 1713ء): جعفرزٹلی کے پاس اردو میں مزاح کی روایت کے اولین باقاعدہ نقوش نظر آتے ہیں- جعفر سے پہلے نظم اور نثر دونوں میں مزاح کی مثالیں مدّھم، بے‌قاعدہ اور سرسری ہیں- جعفر مزاح کے سلسلے میں اولین کڑی ہیں- درحقیقت جعفر اردو میں مزاح‌نگاری کے بانی ہیں- انہیں اردو کا اولین مزاح‌نگار تسلیم کرنا چاہیے-
جعفر ایک بے‌باک اور تیز مزاح شخص تھے اور اسی لیے انہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا- “فرخ‌سیر”‌ جب تخت‌نشین ہوا تو اس نے اپنا سکہ جاری کیا- سکوں پر یہ شعر تھا: “سکہ زد از فضل حق بر سیم و زر/ بادشاہ بحر و بر فرخ سیر”-
فرخ‌سیر ظالم تھا اور اس نے کئی نامور لوگوں کو تسمہ‌کشی کے ذریعے ہلاک کر دیا تھا- جعفر نے سکوں پر لکھے ہوئے شعر کو یوں تحریف کی: “سکہ زد بر گندم و موٹھ و مٹر/ بادشاہ تسمہ‌کش فرخ‌سیر”‌- یہ شعر سن کر فرخ‌سیر نے جعفر کو قتل کروا دیا-
مزاح پیدا کرنے کے لیے جعفر کا سب سے بڑا ہتھیار ہجو اور تحریف ہے- جعفر کی نثر کا غالب حصہ فارسی میں ہے مگر بنیادی الفاظ و محاورات وغیرہ ضرب‌الامثال اردو کے ہیں- ان کے سامنے اردو مزاح کا کوئی نمونہ نہیں تھا- ان کے مزاج کا معیار بلند نہ ہونے کے باوجود اردو میں اولین نمایندہ سیاسی اور سماجی طنز پہچانا جاتا ہے-
کلیات جعفر زٹلی میں شامل“اخبارات سیاہہ دربار معلی”‌ ہے جو دراصل “اخبار دیوان خاص”‌ کی تحریف ہے- اس دور کے کئی سیاسی واقعات کی نشاندہی ہوتی ہے-
“نسخہ چورنِ امساک و ہاضمہ الطعام”‌: جعفر زٹلی کی یہ نثر، نسخہ‌جات کی تحریف ہے-
(2) شاہ‌حاتم جعفر زٹلی کے بعد مزاح کی تلاش میں اگر اردو نثر پر نظر ڈالی جائے تو جعغر کے مزاح اور اس کے بعد لکھے گئے نثری مزاح کے درمیان تقریباً سو سال کا فاصلہ نظر آتا ہے-
“نسخہ مفرح الضحک”‌: شاه‌حاتم کی یہ نثر، ایک مزاحیہ‌طلبی نسخہ ہے اور یہ نسخہ جعفر زٹلی کے “نسخہ چورنِ امساک و ہاضمہ الطعام”‌ سے خاصا ملتا جلتاہے- اطبا کے نسخہ‌جات کی تحریف لکھنا، جعفر زٹلی کا تتبع ہے اور الفا1 حاتم نے بعینہ وہی استعمال کیے ہیں جو جعفر کے پاس ملتےہیں-
اگر داستانوں میں پائے والے مزاح کو نظرانداز کر دیا جائے تو جعفر زٹلی اور شاہ‌حاتم کے بعد اردو میں مزاح انیسویں صدی کے ابتدائی سالوں تک دستیاب نہیں ہوتا-
(3) سعادت یارخان‌رنگین: “اخبار رنگین”‌(1819ء ـ 1822ء): پیرایہ بیان جعفرزٹلی کے وقایع دربار معلی سے خاصا ملتا جلتا ہے- رنگین سنی مذہب تھے اور واقعات میں شیعہ سنی تنازع کو موضوع بنایا ہے ارو ان میں سنی مسلک کو برحق بتایا ہے- ان کی اردو نثر قلیل ہے-
(4) انشاء‌ا...‌خان‌انشاء:“دریائے‌لطافت”‌(1808ء): اردو قواعد کے موضوع پر ہے- مثالیں اردو میں ہیں اور انشاء نے کئی طبقوں کی اردو کی نقل اتاری ہے-
2ـ دوسرا دور: اردو نثر میں مزاح کا تشکیلی دور
غالب:
“غالب کے خطوط”‌(1797ء ـ 1869ء)
غالب کی دیگر اردو نثری تصانیف: “لطائف غیب”‌(1865ء)، “تیغ‌تیز”‌(1867ء)، “سوالات‌عبدالکریم”‌(1865ء)- ان میں کہیں کہیں مزاح کی جھلکیاں ملتی ہیں-
علی‌گڑھ تحریک کا مزاح:
(الف) سرسیداحمدخان نے خود تو مزاح زیادہ تخلیق نہیں کیا لیکن وہ مزاح کی تخلیق کا باعث بنے-
(ب) نذیراحمد(1830ء ـ 1912ء): نذیراحمد کے اخلاقی اور مقصدی ناولوں میں پائے جانے والے مزاح بڑا عمدہ اور جامع ہے- نذیراحمد باقاعدہ مزاح‌نگار نہیں تھے مگر ان کےپاس بعض نہایت اچّھے نمونے ملتے ہیں-
مزاح کا پس ‌منظر: مسلمانوں کی اصلاح کے خیال اور مغرب کی نقالی سے پرہیز پر مبنی ہے-
“اودھ‌پنچ”‌ اور مزاح‌نگاری:
“اودھ‌پنچ”‌ ہفت‌روزہ رسالہ/اخبار ہے لکھنۆ سے- 1877ء سے شایع ہونے لگا ہے-اس کا مدیر “منشی‌سجاد‌حسین”‌ ہے- ”‌اودھ‌پنچ”‌ اردو کا پہلا مزاحیہ جریدہ نہیں تھا، اردو کا پہلا مزاحیہ اخبار “مذاق”‌ تھا جو رام‌پور سے 1845ء کو جاری کیا گیا- “اودھ‌پنچ”‌ نے مزاحیہ صحافت
یا- “اودھ‌پنچ”‌ نے مزاحیہ صحافت کو اتنی ترقی اورمقبولیت عطا کی کہ “اودھ‌پنچ”‌ کی تقلید میں کئی “پنچ”‌ اخبارات جاری کیے گئے، اور یہ سلسلہ بیسویں صدی کے آغاز تک چلتا رہا-
منشی‌سجادحسین(1856ء ـ 1915ء): صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ناول‌نگار بھی تھے- ان کی تصانیف: “احمق‌الذین”‌، “پیاری‌دنیا”‌، “حاجی‌بغلول”‌، “کایا پلٹ”‌، “حیات‌شخ‌چلی”‌، “طرح‌دار لونڈی”‌- سجادحسین کے مزاح کا انداز (بالخصوص “حاجی‌بغلول”‌ میں) کیلے کے چھلکے پر سے پھسلنے والے آدمی کو دیکھ کر ابھرنے والے قہقہے کا سا ہے-
لفظی پیوند، مضحک تشبیہات اور تحریف بھی ان کے ہتھیار ہیں-
اکبرالہ‌آبادی(1845ء ـ 1921ء): ان کی نثر میں تراجم سے قطع‌نظر، متعدد مضامین و خطوط بھی شامل ہیں- “اودھ‌پنچ”‌ میں اکبر کے مضامین “ا ـ ح”‌ کےنام سے شایع ہوئے جو “اکبرحسین”‌ کا مخفف ہے- اکبر کے پاس طنز کے ساتھ ساتھ مزاح بھی ہے- اکبر، علی‌گڑھ تحریک کے خلاف تھے-
تربھون‌ناتھ‌ہجر: اودھ‌پنچ کے اہم لکھاریوں میں سے ہے-
علی‌گڑھ تحریک کا معاصر مزاح:
پنڈت‌رتن‌سرشار(1846ء ـ 1903ء): اودھ‌پنچ گے بعد “اودھ‌اخبار”‌ میں لکھنا شروع کیا- سرشار کے پاس مزاح پیدا کرنے کے لیے مختلف حربے ہیں؛ مثلاً بذلہ سنجی ، عملی مذاق، مضحکہ‌خیز واقعات، مزاحیہ کردار، کبھی کبھی پیروڈی اور طنز سے بھی کام لیتے ہیں-
کام ليتے ہيں-
3ـ تيسرا دور: اردو نثر ميں مزاح کا عبوري دور (1900ء سے 1936ء تک):
   مغرب سے بيزاري
ہندو مسلم اختلافات
مرزافرحت‌ا...‌بيگ-  سيدمحفوظ‌علي‌بدايوني- عظيم‌بيگ‌چغتائي- مہدي‌افادي- سجادحيدر- عبدالعزيزفلک‌پيما- خواجہ‌حسن‌نظامي
4ـ چوتھا دور: ارتقائي دور (1936ء سے 1947ء تک):
ترقي‌پسند تحريک:
ترقي‌پسندمزاح‌نگار:
کرشن‌چندر(1914ء ـ 1977ء): “ايک‌گدھے کي سرگزشت”‌، “ايک‌گدھے کي واپسي”‌-
ابراہيم‌جليس(1924ء ـ 1977ء): “زردچہرے”‌، “چاليس کروڑ بھکاري”‌-
ان مزاحوں کا پس منظر اکثر  سياسي وسماجي ہے-
احمدعلي- پريم‌چند- اخترحسين‌رائے‌پوري- عصمت‌چغتائي- عزيزاحمد- پطرس‌بخاري- شوکت‌تھانوي-
5ـ پانچواں دور: آزادي کے بعد





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں