ہفتہ، 22 مئی، 2021

حقانی القاسمی صاحب سے ایک ملاقات 22/05/2021


 حقانی القاسمی صاحب سے ایک ملاقات





برسوں کے انتظار کے بعد آخر کار آج وہ لمحہ آہی گیا جب وقت کے مشہور و معروف ناقد حقانی القاسمی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ان سے مل کر اندازہ ہوا کہ انسان جس طرح اپنے کارناموں سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح اپنے اخلاق و کردار اور مشفقانہ انداز نظر کے ذریعے سامنے والوں پر اپنا سحر قائم کرتا ہے۔انھوں نے نہ صرف اپنا قیمتی وقت دیا بلکہ اپنی کتاب ,, کتاب کائنات،، سے بھی نوازا۔ایسے لمحے یقیناً بہت کم میسر آتے ہیں ۔ہم جیسے طالب علموں کے لیے ان کی شخصیت یقیناً شبنمی چھانو جیسی ہے۔اللہ تعالیٰ تادیر ان کا سایہ قائم رکھے۔

جمعرات، 20 مئی، 2021

حوصلوں کی اڑان از ظفر کمالی

 حوصلوں کی اڑان از ظفر کمالی ادب اطفال پر ایک اہم کتاب



ادب اطفال میں ظفر کمالی کی اب تک دو کتابیں بچوں کا باغ اور چہکاریں ‌ شائع ہو چکی ہیں اور تیسری کتاب حوصلوں کی اڑان ہے بچوں کا باغ میں 30 نظمیں ہیں اور حوصلوں کی اڑان میں نظموں کی تعداد چالیس ہے اس طرح انہوں نے اب تک بچوں کے لیے ستر نظمیں کہی ہیں جو کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے اس قابل ہیں کہ ان پر باضابطہ گفتگو ہونی چاہیے اور کسی بھی انتخاب اور تجزیاتی مطالعے میں انہیں شامل رکھا جانا چاہیے

حوصلوں کی اڑان ان کی ایسی کتاب ہے جو بچوں کی تمام خواہشات ضروریات آرزوؤں اور تمناؤں کو پوری کرتی ہے اس میں جو نظمیں ہیں ان نظموں کا مطالعہ بچوں کے لئے بہت مفید اور کارآمد ہے یہ ایسی کتاب ہے جو ہر گہر میں ہونی چاہیے تاکہ اس کے ذریعے بچوں کا ذہنی شور بالیدہ ہو۔

اے میرے خدا اے میرے خدا 22/05/2021

 اے میرے خدا اے میرے خدا


حامد حسین




اے میرے خدا اے میرے خدا
ہے کوئی نہیں یاں تیرے سوا
یہ ارض و سما یہ شمس و قمر
یہ پانی ہوا یہ بحر و بر
ہے سب کا خالق تو ہی خدا
اے میرے خدا اے میرے خدا
چڑیوں کی چہک پھولوں کی
مہک
گلشن میں جہاں کے ہے جو چمک
بخشش ہے تری یہ تیری عطا
اے میرے خدا اے میرے خدا


اتوار، 1 جولائی، 2018

حج عشقِ الہی کا مظہر


حج عشق الہی کا حسین مظہر ہے ۔

 محبت الہی کے اظہار کا خوبصورت استعارہ ہے ۔ انسانی خمیر میں داخل جذبہ عشق کی تسکین اور محبوب حقیقی کے سامنے شوق وتعظیم کے بیان کا سبب ہے ۔ ایمانی تا زگی و توانائی اور تطہیر قلوب واذہان کا موثر ذریعہ ہے ۔ جس میں روح بے تاب ا ور دل بے قرار کو سکون نصیب ہوتا ہے ۔ بقول حضرت شاہ ولی ا للہ محدث دہلوی:
’’ کبھی کبھی انسا ن کو اپنے رب کے طرف غایت درجہ اشتیاق ہو تا ہے ،اور محبت جوش ما رتی ہے ،اور وہ اس شوق کی تسکین کے لئے اپنے چاروں طرف نظر دوڑا تا ہے ،تو اس کو معلوم ہو تا ہے کہ اس کا سامان حج ہے ‘‘(ارکان اربعہ ص۲۹۴)
حج میں انسان کو اپنی حقار ت کا احسا س اور رب ا لعلمین کی عزت وجلال کا اعتراف ہوتاہے،یہاں جن اعمال اور نقل وحرکت کا پا بند بنایاگیا ہے ،وہ عقل انسانی سے ماوراء ہے مگر یہی اعمال کمالِ بندگی کا اشاریہ ہے ۔حج حضرت ابراہیم ؑ سے تجدیدِ تعلق کا ذریعہ بھی ہے اور حضرت ابراہیم وہاجرہ اور اسمعیل علیہم السلام کے حسین وبے مثال قصے کی تمثیل بھی،حج ملت اسلامیہ کی ایسی اجتماع گاہ ہے جہاں سے ان کی رگوں کو خونِ تازہ نصیب ہوتاہے ،حج نسلی،وطنی ،لسانی اور علاقائی حدِفاصل کوختم کر کے ایک ہی لباس ،ایک ہی صدا ،ایک ہی ادا اور ایک ہی مقصد کے ساتھ اسلا می وانسانی اخوت اور عا لمی برادری کا حسین سبق دیتا ہے ۔



ایک بار پھر حج کا موسم اپنے فضائل وبر کات کے ساتھ سا یہ فگن ہے ،طالع بختوں اور اقبال مندوں کا روحا نی کا رواں سوئے بیت اللہ رواں ہے ،۔۔۔ان کی روا نگی کا روح پر ور منظر دیکھئے!۔۔۔عشق ومحبت کے یہ قافلے خود سے بے گا نہ ہو چکے ہیں ،ان کی جذباتیت ،فنا ئیت اور وجدا نی کیفیت کا یہ نورانی لمحہ کس قدر رقت انگیز ہے ،نوائے عاشقاں’’لبیک اللہم لبیک،لا شریک لک لبیک،ان الحمد والنعمۃلک والملک لا شریک لک،کی حسین تکبیر کے ساتھ یہ کارواں پاک وہند ،افریقہ وملیشیا ،ایران ومصر ،ترکی و افغا نستان ،شمال و جنوب ،مشرق ومغرب سے کشاں کشاں ،افتاں وخیزاں،آشفتہ ودیوانہ بیت عتیق کی طرف چلے جا رہے ہیں ،۔۔۔ رنگ ونسل کا امتیاز اٹھ چکا ہے ،عربی وعجمی کے فاصلے مٹ چکے ہیں ایک جذبہ،ایک عقیدہ ،ایک دعوت اور ایک ہی مقصدکے حسین نظاروں کے ساتھ ایک ہی منزل کے یہ لاکھوں راہی عین تفسیر ہیں اس آیت کی:
واذن فی الناس بالحج یاتوک رجالاوعلی کل ضامریاتین من کل فج عمیق
(ترجمہ)’’اور لوگوں میں حج کااعلان کردو!لوگ تمہارے پاس پیدل بھی آئیں گے اور دبلی اونٹنیوں پر بھی ،جو دور دراز راستوں سے پہنچی ہو نگی(پ ۱۷ س حج)۔
جب کعبہ تعمیر ہوگیا ،تو ابراہیم ؑ نے پکا راکہ لوگو!!تم پر اللہ نے حج فرض کیاہے ،حج کوآؤ!!!حق تعا لی نے یہ آوازہر ایک ذی روح کو پہنچادی ،جس کے لئے حج مقدر تھااس کی روح نے لبیک کہا ۔۔۔وہی شوق کی دبی ہوئی یہ چنگاری آج شعلہ بن کر عشق کی جولان گاہ میں پہنچ رہی ہے،یہ دعائے ابراہیم ؑ ’’سو رکھ بعضے لوگوں کے دل کہ مائل ہوں ان کی طرف (پ ۱۳ س ابراہیم)کابھی اثرہے۔
سفر تو سفر ہے ،چاہے پیدل ہو یا ہوائی جہاز کا۔ ،صعوبت بہر حال مسافر کامقدر ہے،لیکن راہِ عشق کے ان مسا فروں کو ان صعوبتوں میں کچھ اس طر ح لطف ملتا ہے ؂
ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیاتھامیں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر
(غالب)
اسی خوشی میں جدہ سے روانہ ہوچکے ہیں،پہا ڑوں،پتھروں،اور سنگریزوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے،راستے میں دھوپ کی شدت ،آفتاب کی تمازت،کنکریلی اور پتھریلی زمین تا حد نگاہ پھیلی ہوئی ہے ،مگر بزبان شا عر یہ پیغام ملتاہے کہ ؂
انھیں پتھروں پہ چل کے آسکو تو چلے آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی گلستاں نہیں
دیوانگی ،فریفتگی اور بے تابی کے عالم میں انہیں پتھروں پہ چل کے پہنچ چکے ہیں،۔۔۔لیجئے!!وہ منزل سامنے ہے ،دیکھنا چاہتے ہیں،مگر ’’آنکھوں کوبند کئے ہوئے ہیں دیدار کے لئے ‘‘اور کیفیت یوں ہے کہ ؂
وہ سامنے ہیں نظامِ حواس برہم ہے
نہ آرزو میں سکت ہے نہ عشق میں دم ہے
پلکیں کبھی کھل رہی ہیں،کبھی بند ہورہی ہیں ،اب بڑھنا چا ہتے ہیں ،قدم لرزرہا ہے ،اور قوتِ اعضا جو اب دے چکی ہے ،ہاں ! مگر قوتِ عشق ہے جو قدم کو آگے بڑھا رہی ہے ،عبودیت ،سپر دگی اور جذبہ اطاعت و انقیاد کی مکمل تصویر بنے ہو ئے ہیں،زرق برق لباس ،شا ہا نہ آن بان ،طلا ئے عظمت اتار پھینکا ہے ،قبا ئے زریں ،لباس حریر ودیباج اور شیروانی لپیٹ کر رکھدےئے ہیں،خوشبو ،چمک دمک اور شہوت جذبات کی باتیں ختم کر چکے ہیں،حکم کے بندے اور اشاروں کے غلا م بن چکے ہیں،اب وہ وقت آچکاہے ،جس کے لیے بلا ئے گئے ہیں،ان کی حا لت یہ ہو چکی ہے
’’سر تسلیم خم ہے جو مزاج یارمیں آئے‘‘
وہ دیکھئے !!کبھی مکہ میں نظر آرہے ہیں ،تو کبھی منیٰ میں،کبھی عرفات میں ہیں، تو کبھی مژدلفہ میں،کبھی ٹھہرے ہوئے ہیں ،تو کبھی سفر جا ری ہے ،کبھی خیمہ گاڑتے ہیں ، تو کبھی اکھا ڑتے ہیں ،اپنا نہ کوئی ارادہ ہے ،نہ فیصلہ ،وہ منیٰ میں اطمنا ن کی سانس بھی نہیں لے پاتے کہ عرفات جا نے کا حکم مل چکا ہوتا ہے ،لیکن مزدلفہ میں رکنے کی اجازت نہیں ہوتی،عرفات پہنچ کر وہ دن بھر مناجات و عبادات میں مشغول ہیں ،وہاں غروب آفتاب کے بعد بدن کی تھکاوٹ اطمنان چا ہتی ہے کہ فورا مزدلفہ جا نے کا حکم مل جا تا ہے،وہ زندگی بھر نمازوں کے پا بند رہے ،مگر یہاں حکم ملتاہے،مغرب چھوڑدو اور یہ نماز مزدلفہ پہنچ کر عشاء کے ساتھ پڑھو !! جیسا کہا جا رہا ہے ،ویسا ہی کر رہے ہیں،مزدلفہ میں کیف ونشاط سے جونہی ہم آغوش ہونا چاہتے ہیں،کہ حکم ملتا ہے منیٰ کی طرف کوچ کرو ،۔۔۔ا ن کی ہر اداؤں سے حضرت ابراہیم ؑ کے عمل کی تصویریں روشن ہو رہی ہیں۔کبھی بیت اللہ کاطواف کر رہے ہیں ،کبھی حجر اسود کوبوسہ دے رہے ہیں،کبھی رمی جمار میں مصروف ہیں،کبھی صفا مروہ کی سعی میں حضرت ہاجرہ کی ما متا اور جوش اضطراب سے معمور دکھا ئی دے رہے ہیں،جہاں وہ تیز دوڑی تھیں ،وہاں یہ بھی تیز دوڑ رہے ہیں،جہاں متا نت وسنجیدگی کا اظہار ہوا تھا ،وہاں یہ بھی متانت وسنجیدگی کے پیکر بنے ہوئے ہیں۔۔۔کبھی وہ عرفات کے میدان میں رو رہے ہیں،تو کبھی پہاڑی کے دامن میں گڑگڑا رہے ہیں،اور کبھی ملتزم سے چمٹ کر آہ و زاری کر رہے ہیں،ہےئت کیا ہے ،وہی جو شرعی زبان میں ایک حا جی کی ہو تی ہے ،با ل بکھرے ہوئے،ناخن بڑھے ہوئے ،بدن گرد وغبار آلود ،’’الشعث التفل‘‘کی تصویر میں ڈھل چکے ہیں۔۔۔بس وہی کیفیت جو مجنوں کی لیلی کی گلی میں تھی ،شعری پیرائے میں وہ ساری کیفیتیں سمٹ آ ئی ہیں ؂
امر علی الدیار دیار لیلی
اقبل ذالجدار و ذالجدارا
وما حب الدیار شغفن قلبی
ولکن حب من سکن الدیارا
(ترجمہ)کہ جب لیلی کے مکان سے گذرتا ہوں ،تو کبھی اس دیوارکو چومتا ہوں اور کبھی اس دیوارکو ،کبھی اس دروازے کو چومتا ہوں ،تو کبھی اس دہلیز کو،اور ہاں!!مجھے ان اینٹوں اور دروازوں سے کوئی قلبی شغف نہیں ہے ،لیکن چومنے کی وجہ یہ ہے کہ ا ن میں میرے محبوب کی خوشبو بسی ہو ئی ہے ،اور وہ انہی کے اندر بیٹھی ہوئی ہے )
ان وفا شعار ،جاں نثاراور عشاق ومحبین کے یہ پر کیف نظارے مکہ میں دیکھنے کو مل رہے ہیں ،۔۔۔مگر ابھی تو ایک اور حسین منظر جلوہ نمائی کے لئے بیتاب ہے ،،عشق کی ایک اور جولان گاہ میں ان عا شقوں کا نور محبت اور نور شوق مچلنے کو بیقرار ہے ،۔۔۔قلب تھام لیجئے !!!اپنی دھڑکن روک لیجئے !!لرزتے بدن پر قابو پا ئیے !!دیوا نوں اور عا شقو ں کا قافلہ اب سوئے مدینہ روانہ ہو چکا ہے ،مگر وہاں کی حاضری سے پہلے اپنا جا ئزہ لیتے ہیں تو دل تڑپ اٹھتا ہے ،اشک غم کا دریا رواں ہو جا تا ہے ،اپنی عصیا ں پر وری کے احساس سے ندامت کے پسینے ان کی پیشا نی سے ٹپکنے لگتے ہیں ؂
ترا جب سامنا ہوگا تڑپ اٹھے گا دل مرا
میری آنکھوں سے اشک غم مسلسل بہہ رہا ہوگا
ندامت کے پسینے میری پیشانی پہ ابھریں گے
میرا دل اپنی عصیاں پروری پر جل اٹھا ہوگا
لپٹ کر تیرے دامن سے کہوں گااپنی سب حالت
نہ جانے کس طرح مجھ سے بیان مدعا ہوگا
گنبد خضراء نظر آتے ہی شعلہ اشتیاق کی لہک کچھ کم ہوتی ہے ، اب روضہ رسول ﷺکی سنہری جا لیوں کو پکڑ چکے ہیں ،ہجر یار میں آبلوں کے طرح رستی ہوئی آنکھیں بادلوں کے طرح روضہ پر برس پڑی ہیں ؂
جو آنکھیں ہجر میں رستی تھیں آبلوں کی طرح
برس پڑی ہیں وہ روضے پہ بادلوں کی طرح
راز ونیاز شروع ہو چکا ہے ،درود وسلام کا سلسلہ جا ری ہے کچھ اس طرح ؂
نبی اکرم شفیع اعظم دکھے دلوں کا پیام لے لو
تمام دنیا کے ہم ستائے کھڑے ہو ئے ہیں سلام لے لو
خیال کی پر واز بند ہو گئی ہے ،تصور کی اڑان ختم ہو چکی ہے ،الفاظ ،تعبیرات ،تشبیہات اور ہر خو بصورت جملے ذہن سے غائب ہو چکے ہیں،کیامانگ رہے ہیں ،کیا کہہ رہے ہیں ،نہ کچھ ہو ش ہے ،نہ خبر ہے ،درددل کی بے تابی کا یہ روحا نی اثر ہے :
والعشق نار فی القلوب
یحرق ما سوی المحبوب
کا روح پر منظر ہے ،ذوق وشوق ،عشق ومحبت اوردل سوزی وبیقراری سے مغلوب ہو چکے ہیں، ان کے زخم خوردہ دل کے شکستہ تار پر احساس جرم کی یہ دردبھری لے سنائی دینے لگتی ہے ؂
زخم کھائے ہوئے سر تا بقدم آئے ہیں
ہانپتے کانپتے یا شاہ امم آئے ہیں
سرنگوں آئے ہیں بادیدۂ نم آئے ہیں
آبرو باختہ دل سوختہ ہم آئے ہیں
کھو کے بازار میں سب اپنا بھرم آئے ہیں
شرم کہتے ہوئے آتی ہے کہ ہم آئے ہیں

آپ کے سامنے جس حال میں ہم آئے ہیں
ایسے مجرم کسی دربار میں کم آئے ہیں
اسی بے تا بی کے عالم میں ان عا شقوں کے زخمی ضمیر پر ایک ضرب لگتی ہے ،یہ ضرب جدائی کے بگل کی ہے ،جو اس با ت کا اعلان کر رہی ہے کہ جدا ئی کا الم انگیز وقت آچکا ہے،مدت میعاد مکمل ہو چکی ہے ،اب واپسی ہے ۔۔۔جدائی کے المناک وقت کی کیفیت کا بیان لفظوں میں کہاں ممکن ہے ، بس اتنا کہ آنکھیں اشکبار ہیں،قلب حزن ووالم سے ریزہ ریزہ ہے ،سینہ جدائی کی آگ سے دہک رہا ہے ،اور دل کے ارماں دل میں گھٹ کے رہ گئے ہیں !!

عاجزی انسان کا جوہر خاص

عاجزی انسان کا جوہر خاص 

آج تقابل کا دورہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کامتمنی ہے۔ مادّیت کے اس دور میں ہمارے سودوزیاں اور نفع ونقصان کا سارا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم دنیاوی عیش وعشرت اور جاہ و حشم میں کس قدر آگے ہیں۔ ہمارے پاس بینک بیلنس کتنے ہیں۔ ہمارے پاس گاڑیاں کتنی مہنگی ہیں۔ ہمارا گھر کس قدر عالیشان ہے اور سماج میں ہماری عزت اور آؤ بھگت کس پیمانے پر ہے۔ اس طرح کے مزید پہلو ہیں جن پر ہماری نظریں مر کوز رہتی ہیں۔

ان حالات میں ہمارے سامنے دوصورتیں پیدا ہو تی ہیں۔ اگر ہم کم تر ہیں تو دل حسرت و یاس کا پتلا بن جا تا ہے اور نا امیدی ہمارے گر د ہالہ بنا لیتی ہے اور اگر ہم بہتر ہیں تو فخر و مباہات اورتکبر و انانیت کا غیر محسوس مر ض ہمار ے اندر کی دنیا کو بیمار کر دیتا ہے۔ یہ دونوں صورت انسانی زندگی کے لیے جس قدر نقصان دہ ہے اسی قدر برے انجام کا پیش خیمہ ہے۔ پہلی صورت میں صبر کا پیمانہ ہم سے چھن جا تا ہے۔ جب کہ دوسری صورت میں شکر کی نعمت سے ہم محروم ہو جاتے ہیں۔ زیرِ نظر مضمون میں دوسری صورت (فخرومباہات اور تکبر و انانیت )پر قرآن و احادیث کی روشنی میں اپنا محاسبہ مقصود ہے۔
اس ضمن میں پہلا نکتہ یہ ہے کہ انسان کا وجود اور اس کا آغاز و انجام خود اس کے لیے درسِ عبرت ہے۔ اس کے وجود کا آغاز ایک ناپاک قطرہ سے ہے اور اس کی حیاتِ مستعارکا اختتام سپردِ خاک ہوجانا ہے۔ پھر کہاں کی بڑائی اور کس چیز کا غرور اس کی رگ رگ میں دوڑ رہا ہے۔ اگر دولت و ثروت کانشہ ہے تو قارون کا ہیبت ناک انجام اس کے سامنے ہے ۔ اگر قوت اور فنی مہارت اس کے تکبر کو مہمیز لگا رہی ہے تو قومِ عاد کے ویران کھنڈرات کی سسکیاں اور پہاڑوں میں تراشے گئے عالیشان محلات کی ہچکیاں اس کے لیے نمونۂ عبرت ہیں اور اگر شوکت و عظمت پر اس کے فخرومباہات کی بنیاد ہے تو پھر اسے قیصروکسریٰ کی تاریخ دہرا نی چاہیے! جس کی شان اور آن کے صنم خانوں میں خاک اڑائی جاچکی ہے۔
تکبر اوربڑائی صرف اس ذات کو زیبا ہے جس کی جلالتِ شان سے ہر چیز پر لرزہ طاری ہے اور ہر بلندی اس کی عظمت کی چوکھٹ پر سرِ نیاز خم کیے ہوئے:
’’ولہ الکبریاء فی السموات والارض وہوالعزیز الحکیم‘‘
کی زمزمہ خوانی میں مصروف ہے !!
آسما ن کی رفعتوں میں اور زمین کے ذرّوں میں عظمت و کبریائی کی ساری جلوہ سامانیاں اسی ایک ذاتِ واحد کے لیے ہے اور وہی ساری حکمتوں کا زبر دست شہنشاہ ہے۔
یہ سچ ہے کہ جب یہ خاک کا پتلا فخروغرور کا مظاہرہ کر تا ہے تو نہ جانے کن کن خرافات کو اپنے دامنِ کبر میں جگہ دیتا ہے۔ کبھی اترا کر چلتا ہے، کھبی اکڑ کر بولتا ہے، ہر کسی کو اپنے سے کمتر و حقیر سمجھ بیٹھتا ہے، دولت وثروت کے نشے میں چوٗر؛ غریبوں اور ناداروں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ ان کی مجلسوں میں نششت وبرخاست پر عار محسوس کرتا ہے، ان سے رواداری وبھائی چارگی میں اسے کسرِ شان کا گمان ہوتا ہے اور پھر اس سے ہر ایسے فعل کا صدور ہو نے لگتا ہے جس سے اس کی کمینگی و نا ہنجاری اور بد بختی و بدخصلتی ظاہر ہو تی ہے۔ اسی لیے قرآن اس کی حقیقت کو واشگاف کرتے ہو ئے اسے متنبہ کر تا ہے:
’’ولاتمش فی الارض مرحا انک لن تخرق الارض ولن تبلغ الجبال طولا‘‘(سورہ اسرا پ۱۵ آیت ۳۷)
تر جمہ: اور مت چل زمین پر اتراتا ہواتو پھاڑ نہ ڈالے گا زمین کواور نہ پہنچے گاپہاڑوں تک لمبا ہوکر‘‘
یہی وجہ ہے کہ قرآن نے مختلف مقامات پر اپنے خوبصورت اور عبرت آموز اسلوب میں تکبر و انانیت کی قباحت و شناعت اور اس کے ہلاکت خیز انجام سے انسان کو باخبر کیا ہے:160
’’ان اللہ لایحب من کان مختالافخورا‘‘(سورہ نساء۳۶)
بیشک اللہ کو پسند نہیں آتااترانے والابڑائی کر نے والا
’’واذاقیل لہ اتق اللہ أخذتہ العزۃبالاثم فحسبہ جہنم ولبئس المہاد‘‘(سورہ بقرہ:۲۰۶)
اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تو آمادہ کرے اس کو غرور گناہ پر سو کافی ہے اس کو دوزخ اور وہ بیشک برا ٹھکانہ ہے‘‘
قرآن نے مختلف مقامات پر انسان کو متنبہ کیا ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی بڑائی اور تکبر کو اپنے وجود کا حصہ نہ بنائے۔
احادیث بنویہ کا اعلان بھی بہت صاف اور واضح ہے ۔ آپ ﷺ نے انسان کواس کے برے انجام سے آگاہ کیا اور ایسے شخص کی محرومیوں، حسرتوں، افسردگیوں اور یاس انگیزیوں کو ظاہر کیا ہے :
’’عن عیاض بن حمار قال قال رسول اللہ ﷺ ان اللہ أوحی الی ان تواضعوا حتی لایبغی احد علی احدولا یفخر احد علی احد (رواہ ابو داؤد)
تر جمہ : عیاض بن حمارؓ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ اللہ نے میری طرف وحی فر مائی اور حکم بھیجا کہ تواضع اور خاکساری اختیار کرو (جس کا بتیجہ یہ ہو نا چاہیے )کہ کو ئی کسی پر ظلم وزیادتی نہ کرے اور نہ کو ئی کسی کے مقابلے میں فخرومباہات کا مظاہرہ کرے۔
ایک اور روایت میں جہاں آپ ﷺ نے تواضع اختیار کر نے والوں کو حسنِ انجام کا مژدہ سنایا وہیں تکبر کر نے والوں کو انجام بد سے آگاہ کیا:
’’عن عمرؓ قال وہوعلی المنبر:یایہاالناس!تواضعوافانی سمعت رسول اللہ ﷺ یقول من تواضع للہ رفعہ اللہ فہوفی نفسہ صغیر،وفی اعین الناس عظیم، ومن تکبر وضعہ اللہ فہوفی اعین الناس صغیر وفی نفسہ کبیر حتی لہو اہون علیہم من کلب أوخنزیر(رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
تر جمہ: حضرت عمر فاروقؓ نے ایک دن خطبہ دیتے ہو ئے ارشاد فر مایا کہ لو گو ! فروتنی اور خاکساری اختیار کروکیو ں کہ میں نے رسو ل اللہ ﷺ سے سنا ہے :آ پﷺ فرماتے تھے جس نے اللہ کے لیے خاکساری کا رویہ اختیار کیا (بندگان خدا کے مقابلہ میں اپنے کو نیچا رکھنے کی کوشش کی )تو اللہ تعالی اس کو بلند کر گا۔(جس کانتیجہ )یہ ہو گا کہ وہ اپنے خیال اور اپنی نگاہ میں تو چھوٹا ہو گا لیکن عام بندگان خدا کی نگا ہوں میں اونچا ہو گااور جو کو ئی تکبر کر ے گا تو اللہ تعالی اس کو نیچا گرادے گا(جس کا نتیجہ )یہ ہو گا کہ وہ عام لو گوں کی نگاہوں میں ذلیل و حقیر ہو جا ئے گا گر چہ خود اپنے خیال میں بڑا ہو گا۔ لیکن دوسروں کی نظروں میں وہ کتوں اور خنزیروں سے بھی زیادہ ذلیل اور بے وقعت ہو جا ئے گا۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشادفر مایا کہ:
’’ایک شخص(امم سابقہ)میں سے لباسِ فاخرہ پہنے جی ہی جی میں خوش ہوتا سر میں کنگھی کیے (بال سنوارے)متکبرانہ چال سے چلا جارہا تھا کہ اللہ تعالی نے اچانک اسے زمین میں دھنسا دیا اور اب وہ قیامت تک دھنستا ہی رہے گا’’(بخاری:۲۰۸۸۔مسلم:۵۴۵۲)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالی نے فر مایا کہ عزت میرا پہناوا، کبریائی میری چادرہے ان دونوں کے بارے میں جو بھی مجھ سے جھگڑے گا میں اسے عذاب میں مبتلا کر دوں گا‘‘(مسلم:۲۶۲۰)
ان آیات و احادیث پر غو ر کر نے سے معلوم ہو تا ہے کہ انسان کے لیے احساسِ تفاخر کا کو ئی جواز نہیں۔ اس کے بر عکس جب ہم اس نکتے پر غور کر تے ہیں کہ جس نے بھی عاجزی و انکساری اور محبت و رواداری کو اپنا یااللہ نے اسے کامران کیا۔
آج ہمارے سماج میں لباس ،مکان،طعام، شادی بیاہ،سواری اوردیگر امور میں تفاخر وتقابل کا جو نظریہ سر اٹھا رہا ہے وہ یقیناًاپنے اندرافسوس کا پہلو رکھتا ہے۔مگر آج علمی میدان میں بھی ہم نے اس نظریے کو اپنا ناشروع کر دیا ۔ جو جس قدر جہالت میں آگے ہے وہ اسی قدر اپنی علمی گہرائی کے زعم میں مبتلا ہے۔ فتوے خود صادر کر تا ہے۔ مسائل کا استخراج کر تا ہے اور اس پر یہ تصور کہ’’ہم چوں دیگر ے نیست‘‘۔۔۔!!اور پھر و ہ دوسروں کو حقارت آمیز نظروں سے دیکھتا ہے اور اس کی ذلت و رسوائی کے سامان کرتا ہے۔ حالانکہ علمی اعتبار سے بھی ہمیں کسی پر کو ئی افتخار نہیں۔ صحیح علمی گہرائی انسان کو متواضع بناتی ہے۔جس کے راز پر آگاہی کا ئنات پر غور کر نے سے ہو تی ہے۔اللہ تعالی نے جس قدر با ریکیاں اور حکمت کی تہہ داریاں اس کائنات میں رکھی ہیں کہ انسان اس کے پا نے سے عاجز ہے۔ بہت کچھ جان کر بھی اسے اس بات کا احساس ہو تا ہے کہ اس نے اس کائنات کے اسرار کا عشر عشیر بھی نہیں جا ن سکا ہے۔یہیں سے اس میں عاجزی اور انکساری کی صفت پیدا ہو تی ہے ۔ ہاں اگر وہ مد مقابل سے زیادہ جان کار ہے تو اس کی ذمے داری اس تک اپنے علم کی تر سیل کی ہے جس میں خلو ص ہو ، دکھلاوا یا تضحیک نہ ہو ۔

پیر، 19 مارچ، 2018

*تلبینہ جسمانی و طبی فوائد کا مخزن*

*تلبینہ جسمانی و طبی فوائد کا مخزن*



“ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف ایمانی رہبر تھے بلکہ جسمانی علاج و معالجہ کے بھی سب سے اہم روح رواں تھے۔یہی وجہ ہے کہ سول اللہ ﷺ کے اہل خانہ میں سے جب کوئی بیمار ہوتا تھا تو حکم ہوتا کہ اس کیلئے تلبینہ تیار کیا جائے۔ پھر فرماتے تھے کہ تلبینہ بیمار کے دل سے غم کو دور کرتا اور اس کی کمزوری کو ایسے اتار دیتا ہے جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنے چہرے کو پانی سے دھو کراس سے غلاظت اور گندگی ختم کرلیتا 
ہے۔''(ابن ماجہ)
*رسول اللہﷺ نے حضرت جبرئیلؑ سے فرمایا کہ: جبرئیلؑ میں تھک جاتا ہوں۔ حضرت جبرئیلؑ نے جواب میں عرض کیا: اے الله کے ۔
رسولﷺ آپ تلبینہ استعمال کریں*
آج کی جدید سائینسی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ جو میں دودھ کے مقابلے میں 10 گنا ذیادہ کیلشیئم ہوتا ہے اور پالک سے ذیادہ فولاد موجود ہوتا ہے، اس میں تمام ضروری وٹامنز بھی پائے جاتے ہیں
پریشانی اور تھکن کیلئے بھی تلبینہ کا ارشاد ملتا ہے۔
*نبی ﷺ  فرماتے کہ یہ مریض کے دل کے جملہ عوارض کا علاج اوردل سے غم کو اُتار دیتا ہے۔)*
جب کوئی نبی ﷺ سے بھوک کی کمی کی شکایت کرتا تو آپ اسے تلبینہ کھانے کا حکم دیتے اورفرماتے کہ اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ تمہارے پیٹوں سے غلاظت کو اس طرح اتار دیتا ہے جس طرح کہ تم میں سے کوئی اپنے چہرے کو پانی سے دھو کر صاف کرلیتا ہے
۔نبی پاک ﷺ کومریض کیلئے تلبینہ سے بہتر کوئی چیز پسند نہ تھی۔ اس میں جَو کے فوائد کے ساتھ ساتھ شہد کی افادیت بھی شامل ہوجاتی تھی۔ مگر وہ اسے نیم گرم کھانے' بار بار کھانے اور خالی پیٹ کھانے کو زیادہ پسند کرتے تھے۔ (بھرے پیٹ بھی یعنی ہر وقت ہر عمر کا فرد اس کو استعمال کرسکتا ہے۔ صحت مند بھی ' مریض بھی)

نوٹ: *تلبینہ ناصرف مریضوں کیلئے بلکہ صحت مندوں کیلئے بہت بہترین چیز ہے۔ بچوں بڑوں بوڑھوں اور گھر بھر کے افراد کیلئے غذا' ٹانک بھی' دوا بھی شفاء بھی اور عطا بھی۔۔۔۔خاص طور پر دل کے مریض ٹینشن' ذہنی امراض' دماغی امراض' معدے' جگر ' پٹھے اعصاب عورتوں بچوں اور مردوں کے تمام امراض کیلئے انوکھا ٹانک ہے۔*
" جو " -------- جسے انگریزی میں " بارلے " کہتے ہیں - اس کو دودھ کے اندر ڈال دیں ۔ پنتالیس منٹ تک دودھ میں گلنے دیں اور اسکی کھیر سی بنائیں ۔ اس کھیر کے اندر آپ چاھیں تو شھد ڈال دیں یا کھجور ڈال دیں ۔اسے تلبینہ ( Talbeena) کہیں گے ---
*ترکیب:*
۔دودھ کو ایک جوش دے کر جو شامل کر لیں۔
۔ ہلکی آنچ پر ۴۵ منٹ تک پکائیں اور چمچہ چلاتے رہیں۔
۔ جو گل کر دودھ میں مل جائے تو کھجور مسل کر شامل کرلیں۔
۔ میٹھا کم لگے تو تھوڑا شہد ملا لیں۔
۔کھیر کی طرح بن جائے گی۔
۔ چولہے سے اتار کر ٹھنڈا کر لیں۔
۔ اوپر سے بادام ، پستے کاٹ کر چھڑک دیں۔
(کھجور کی جگہ شہد بھی ملا سکتے ہیں)
*طبی فوائد:*
طبی اعتبار سے اس کے متعدد فوائد بیان کئے جاتے ہیں-یہ غذا:
1۔غم ، (Depression)
2۔ مایوسی،
3۔ کمردرد،
4۔  خون میں ہیموگلوبن کی شدید کمی،
4۔ پڑهنے والے بچوں میں حافظہ کی کمزوری،
5۔ بهوک کی کمی،
6۔ وزن کی کمی،
7۔ کولیسٹرول کی زیادتی،
8۔ ذیابیطس کے مریضوں میں بلڈ شوگر لیول کے اضافہ،
9۔ امراض دل،انتڑیوں،
10۔ معدہ کے ورم،
11۔ السرکینسر،
12۔ قوت مدافعت کی کمی،
13۔ جسمانی کمزوری،
14۔ ذہنی امراض،
15۔ دماغی امراض،
16۔ جگر،
17۔ پٹھے کے اعصاب،
18۔ نڈھالی
19.وسوسے (Obsessions)
20. تشویش (Anxiety)

کے علاوہ دیگر بے شمار امراض میں مفید ہےاور یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ جو میں دودھ سے زیادہ کیلشیم اور پالک سے زیادہ فولاد پایا جاتا ہےاس وجہ سے تلبینہ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے”۔

ہفتہ، 7 اکتوبر، 2017

بچوں کاادب نظم و نثر کے حوالے سے ایک مطالعہ

بچوں کاادب نظم و نثر کے حوالے سے ایک مطالعہ


سلطانہ بخش



بچوں کے ادب سے کیا مراد ہے؟ کیا وہ نظم و نثر بچوں کا ادب ہے جو بچے لکھنے کی کوشش کرتے ہیں یا وہ تخلیقات جو منجھے ہوئے ادیب بطورخاص بچوں کی ذہنی نشوونما یا ان کی دلچسپی کے لیے تحریر کرتے ہیں؟ ڈاکٹر محمود الرحمن اپنی کتاب ’’اردو میں بچوں کا ادب‘‘ میں انگریزی کے ایک نقاد ہنری سٹیل کومنیگر کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’جو چیز بھی بچوں کے مزاج و مذاق سے ہم آہنگ ہو وہ ان کاادب قرارپاتی ہے چاہے یہ چیز بڑوں اوربزرگوں کی ملکیت ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ ڈاکٹر محمود الرحمن نے بچوں کے ادب کے بارے میں بڑی بنیادی بات کہی ہے کہ بچوں کا ادب وہ ہے جوبچوں کے مزاج سے مطابقت رکھتا ہو اوربچے اس کے مطالعے سے مسرت محسوس کریں چنانچہ چیچوں چیچوں چاچا، گھڑی پہ چوہا ناچا، ایسی نظمیں ہمارے لیے بے معنی ہونے کے باوجود بچوں کے لیے بامعنی ہیں کہ وہ ان کے مطالعے سے لطف اندوز ہوتے ہیں اورسب سے اہم بات یہ کہ بچے انہیں اپناتے ہیں۔ اس ضمن میں میرزا ادیب کی یہ رائے بھی اہم ہے: ’’بچوں کو وہی تحریر، قطع نظر اس امر کے کہ وہ نظم ہے یا نثر، پسند آتی ہے جو ان کی اپنی دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ 

بچوں کی اپنی دنیا سے مراد ہے بچوں کا مخصوص ماحول، ان کے فطری رجحانات، ان کے اعمال ، ان کی ذہنی مطابقت ، ان کے غوروفکر کی سطح۔ اس لیے ان کے ادب میں وہی کچھ ہونا چاہیے جوان کے گردو پیش ہوتا ہے، جسے وہ روزانہ دیکھتے ہیں اورجسے وہ خوب سمجھتے ہیں اورجوان کے تخیل کو متحرک کرتا ہے‘‘۔ بچوں کے ادب کا موضوع کیا ہوناچاہیے اس بارے میں ماہرین اطفال نے جوکچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابتدائی عمر میں بچے پرندوں اورجانوروں کی کہانیاں شوق سے سنتے ہیں۔ جب وہ سکول جانے کی عمر کو پہنچتے ہیں اورپڑھائی اورکھیل کود سے تھک جاتے ہیں تو جنوں اورپریوں کی خیالی دنیا ان کے تخیل کو مہمیز کرتی ہے اور چونکہ خیروشر کے تصادم میں خیر ہمیشہ شر پر حاوی رہتاہے اس لیے اس سے ان کے ذہن و دل پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ثانوی جماعتوں میں پہنچ کر وہ پریوں کی خیالی دنیا کو فریب محض سمجھ کر حقیقت پسند بن جاتے ہیں۔ اس عمر میں بہادروں اورجوانمردوں کی کہانیاں سننا اورپڑھنا پسند کرتے ہیں اوریوں غیرشعور طورپر خودمیںحقائق سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت پیداکرتے ہیں۔ بچوں کے ادب کی ابتداء:اردومیں بچوں کے ادب کے منتشر اجزا تواردو کی قدیم داستانوں میں بھی مل جاتے ہیں مگر یہ وہ تخلیقات ہیں جو خاص طورپربچوں کے لیے نہیں لکھی گئیں بلکہ ہنری سٹیل کے مطابق یہ بڑوں کا وہ سرمایہ ہے جسے بچوں نے اپنا لیا ہے۔ ڈاکٹر محمودالرحمن کے مطابق نظیراکبر آبادی نے سب سے پہلے بچوں کے ادب کی طرف توجہ کی۔ ’’جب ہم کلیات میں اعلیٰ پائے کی نظموں کے ساتھ ریچھ کابچہ، گلہری کا بچہ، بلبلوں کی لڑائی، ہنس، طفلی نامہ، پتنگ بازی، کبوتر بازی اور ہلدیوجی کا کامیلہ دیکھتے ہیں تو ہمیں یقین کرنا پڑتا ہے کہ اتنی سادہ اور عام فہم نظمیں چھوٹے بچوں کے لیے ہی کہی گئی ہوں گی‘‘۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں:’’نظیر اکبر آبادی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے بچوں کے ادب کونصیحت ولغت کی سنجیدہ بزم سے نکال کر نونہالوں کی محفل میں پہنچا دیا جہاں ان کے اپنے جذبات وا حساسات نمایاںتھے۔ تاہم یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ اردو میں بچوں کے ادب کاباقاعدہ آغاز1857ء کے انقلاب ہی کامرہون منت ہے۔ 1857ء کے انقلاب نے جہاں ہماری سیاسی، سماجی اورمعاشی زندگی پر دوررس اثرات مرتب کیے وہاں اردو ادب کی جملہ اصناف کو بھی متاثر کیا۔ پروفیسر حامد قادری اردو ادب پرانگریزی کے اثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’انگریزی زبان کااردو پر بے حد اثر پڑا۔ اردو زبان میں بچوں کے قاعدے انگریزی اصول پر لکھے گئے‘‘۔ اول جن اہل قلم نے بچوں کے ادب کو قابل اعتنا سمجھا ان میں محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالی اور مولوی اسماعیل میر سرفہرست ہیں۔ آزاد اورحالی انجمن پنجاب کے زیراہتمام نظمیہ مشاعروں کے بانی بھی ہیںاور اردو میں سب سے پہلے بچوں کی درسی کتب بھی آزاد ہی کی نظم کا اعجاز ہے اس لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ انجمن پنجاب کاایک زاویہ اردو میں بچوں کا جدید ادب بھی تھا۔ الطاف حسین حالی کا نام اگرچہ آزاد کے بعد آتا ہے مگر ان کی اہمیت کسی طرح بھی آزاد سے کم نہیں جبکہ اسماعیل میرٹھی متذکرہ دونوں اہل قلم سے متاثر ہونے کے باوجودبچوں کے ادب میں دونوں سے بلند تر مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لیے جو ادب تخلیق کیا وہ کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے ہر دو چار پر بھاری ہے۔ اسماعیل نے اپنی نظموں میں بچوں کی نفسیات اور مزاج شناسی کا جو ثبوت دیا۔ اس نے انہیں بچوں کااہم ترین ادیب بنادیا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ ان کے ہاں ہرسن وسال کے بچوں کی دلچسپی کاسامان موجود ہے اورشاید یہی ان کی کامیابی ہے۔ آزاد، حالی اوراسماعیل نے اگر اپنی شاعری سے بچوں کے ادب میںاضافہ کیا تو نذیراحمد نے قصہ و کہانی کے ذریعے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔بیسویں صدی میں طباعت کی سہولتوںنے جب ادب کی دیگر اصناف کو شاہراہ ترقی پر گامزن کیا تو بچوں کا ادب بھی پھلا پھولا۔ منشی محبوب عالم نے بچوں کا اخبار پھول، جاری کیا جس کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ پھول کے بعد پیام تعلیم، غنچہ، نونہال، تعلیم وتربیت، ہدایت، کھلونا، بچوں کی دنیا اور بہت سے دیگر رسائل نے بھی بچوںکے ادب کے فروغ میں نمایاں کردارادا کیا۔ ریڈیو کے بچوں کے پروگرام اورقومی اخبارات کے بچوں کے صفحات نے بھی بچوں کے ادب کے فروغ میں خاصا کام کیا۔ بیسویں صدی میں