ہفتہ، 7 اکتوبر، 2017

بچوں کاادب نظم و نثر کے حوالے سے ایک مطالعہ

بچوں کاادب نظم و نثر کے حوالے سے ایک مطالعہ


سلطانہ بخش



بچوں کے ادب سے کیا مراد ہے؟ کیا وہ نظم و نثر بچوں کا ادب ہے جو بچے لکھنے کی کوشش کرتے ہیں یا وہ تخلیقات جو منجھے ہوئے ادیب بطورخاص بچوں کی ذہنی نشوونما یا ان کی دلچسپی کے لیے تحریر کرتے ہیں؟ ڈاکٹر محمود الرحمن اپنی کتاب ’’اردو میں بچوں کا ادب‘‘ میں انگریزی کے ایک نقاد ہنری سٹیل کومنیگر کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’جو چیز بھی بچوں کے مزاج و مذاق سے ہم آہنگ ہو وہ ان کاادب قرارپاتی ہے چاہے یہ چیز بڑوں اوربزرگوں کی ملکیت ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ ڈاکٹر محمود الرحمن نے بچوں کے ادب کے بارے میں بڑی بنیادی بات کہی ہے کہ بچوں کا ادب وہ ہے جوبچوں کے مزاج سے مطابقت رکھتا ہو اوربچے اس کے مطالعے سے مسرت محسوس کریں چنانچہ چیچوں چیچوں چاچا، گھڑی پہ چوہا ناچا، ایسی نظمیں ہمارے لیے بے معنی ہونے کے باوجود بچوں کے لیے بامعنی ہیں کہ وہ ان کے مطالعے سے لطف اندوز ہوتے ہیں اورسب سے اہم بات یہ کہ بچے انہیں اپناتے ہیں۔ اس ضمن میں میرزا ادیب کی یہ رائے بھی اہم ہے: ’’بچوں کو وہی تحریر، قطع نظر اس امر کے کہ وہ نظم ہے یا نثر، پسند آتی ہے جو ان کی اپنی دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ 

بچوں کی اپنی دنیا سے مراد ہے بچوں کا مخصوص ماحول، ان کے فطری رجحانات، ان کے اعمال ، ان کی ذہنی مطابقت ، ان کے غوروفکر کی سطح۔ اس لیے ان کے ادب میں وہی کچھ ہونا چاہیے جوان کے گردو پیش ہوتا ہے، جسے وہ روزانہ دیکھتے ہیں اورجسے وہ خوب سمجھتے ہیں اورجوان کے تخیل کو متحرک کرتا ہے‘‘۔ بچوں کے ادب کا موضوع کیا ہوناچاہیے اس بارے میں ماہرین اطفال نے جوکچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابتدائی عمر میں بچے پرندوں اورجانوروں کی کہانیاں شوق سے سنتے ہیں۔ جب وہ سکول جانے کی عمر کو پہنچتے ہیں اورپڑھائی اورکھیل کود سے تھک جاتے ہیں تو جنوں اورپریوں کی خیالی دنیا ان کے تخیل کو مہمیز کرتی ہے اور چونکہ خیروشر کے تصادم میں خیر ہمیشہ شر پر حاوی رہتاہے اس لیے اس سے ان کے ذہن و دل پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ثانوی جماعتوں میں پہنچ کر وہ پریوں کی خیالی دنیا کو فریب محض سمجھ کر حقیقت پسند بن جاتے ہیں۔ اس عمر میں بہادروں اورجوانمردوں کی کہانیاں سننا اورپڑھنا پسند کرتے ہیں اوریوں غیرشعور طورپر خودمیںحقائق سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت پیداکرتے ہیں۔ بچوں کے ادب کی ابتداء:اردومیں بچوں کے ادب کے منتشر اجزا تواردو کی قدیم داستانوں میں بھی مل جاتے ہیں مگر یہ وہ تخلیقات ہیں جو خاص طورپربچوں کے لیے نہیں لکھی گئیں بلکہ ہنری سٹیل کے مطابق یہ بڑوں کا وہ سرمایہ ہے جسے بچوں نے اپنا لیا ہے۔ ڈاکٹر محمودالرحمن کے مطابق نظیراکبر آبادی نے سب سے پہلے بچوں کے ادب کی طرف توجہ کی۔ ’’جب ہم کلیات میں اعلیٰ پائے کی نظموں کے ساتھ ریچھ کابچہ، گلہری کا بچہ، بلبلوں کی لڑائی، ہنس، طفلی نامہ، پتنگ بازی، کبوتر بازی اور ہلدیوجی کا کامیلہ دیکھتے ہیں تو ہمیں یقین کرنا پڑتا ہے کہ اتنی سادہ اور عام فہم نظمیں چھوٹے بچوں کے لیے ہی کہی گئی ہوں گی‘‘۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں:’’نظیر اکبر آبادی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے بچوں کے ادب کونصیحت ولغت کی سنجیدہ بزم سے نکال کر نونہالوں کی محفل میں پہنچا دیا جہاں ان کے اپنے جذبات وا حساسات نمایاںتھے۔ تاہم یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ اردو میں بچوں کے ادب کاباقاعدہ آغاز1857ء کے انقلاب ہی کامرہون منت ہے۔ 1857ء کے انقلاب نے جہاں ہماری سیاسی، سماجی اورمعاشی زندگی پر دوررس اثرات مرتب کیے وہاں اردو ادب کی جملہ اصناف کو بھی متاثر کیا۔ پروفیسر حامد قادری اردو ادب پرانگریزی کے اثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’انگریزی زبان کااردو پر بے حد اثر پڑا۔ اردو زبان میں بچوں کے قاعدے انگریزی اصول پر لکھے گئے‘‘۔ اول جن اہل قلم نے بچوں کے ادب کو قابل اعتنا سمجھا ان میں محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالی اور مولوی اسماعیل میر سرفہرست ہیں۔ آزاد اورحالی انجمن پنجاب کے زیراہتمام نظمیہ مشاعروں کے بانی بھی ہیںاور اردو میں سب سے پہلے بچوں کی درسی کتب بھی آزاد ہی کی نظم کا اعجاز ہے اس لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ انجمن پنجاب کاایک زاویہ اردو میں بچوں کا جدید ادب بھی تھا۔ الطاف حسین حالی کا نام اگرچہ آزاد کے بعد آتا ہے مگر ان کی اہمیت کسی طرح بھی آزاد سے کم نہیں جبکہ اسماعیل میرٹھی متذکرہ دونوں اہل قلم سے متاثر ہونے کے باوجودبچوں کے ادب میں دونوں سے بلند تر مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لیے جو ادب تخلیق کیا وہ کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے ہر دو چار پر بھاری ہے۔ اسماعیل نے اپنی نظموں میں بچوں کی نفسیات اور مزاج شناسی کا جو ثبوت دیا۔ اس نے انہیں بچوں کااہم ترین ادیب بنادیا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ ان کے ہاں ہرسن وسال کے بچوں کی دلچسپی کاسامان موجود ہے اورشاید یہی ان کی کامیابی ہے۔ آزاد، حالی اوراسماعیل نے اگر اپنی شاعری سے بچوں کے ادب میںاضافہ کیا تو نذیراحمد نے قصہ و کہانی کے ذریعے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔بیسویں صدی میں طباعت کی سہولتوںنے جب ادب کی دیگر اصناف کو شاہراہ ترقی پر گامزن کیا تو بچوں کا ادب بھی پھلا پھولا۔ منشی محبوب عالم نے بچوں کا اخبار پھول، جاری کیا جس کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ پھول کے بعد پیام تعلیم، غنچہ، نونہال، تعلیم وتربیت، ہدایت، کھلونا، بچوں کی دنیا اور بہت سے دیگر رسائل نے بھی بچوںکے ادب کے فروغ میں نمایاں کردارادا کیا۔ ریڈیو کے بچوں کے پروگرام اورقومی اخبارات کے بچوں کے صفحات نے بھی بچوں کے ادب کے فروغ میں خاصا کام کیا۔ بیسویں صدی میں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں