جمعہ، 24 جولائی، 2015

نظم

آؤ بتاؤں تم کو
سناٹوں کے اس شہر کا بھید
یہاں کبھی سماعت نہیں
تو کبھی آواز نہیں ھے
دل سوز سے بھرا ھے
مگر ساز نہیں ھے
حرف ذہن کے صحرا میں
ھر طرف بھٹکتے پھرتے ھیں
اک پیکر میں ڈھل جایئں
وہ نقطہ آغاز نہیں ھے
تو اے جانِ جہاں !!!
کبھی میری پکار تم تک نہ پہنچے
تو کبھی یہ مت سمجھنا
کہ پکارا نہیں ھے
کہ لب پتھر بھی ھون
لفظ ملیں نہ ملیں
مگر دل کی پکار
آنکھوں کے رستے
تم تک پہنچے گی ضرور
فقط پلٹ کہ دیکھنا شرط ھے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں