پیر، 3 اگست، 2015

دجال کے ایجینٹ

جدید ٹیکنالوجی میں بے پناہ ترقی کی وجہ سے جدیدیت کا جو سیلاب اسلامی ملکوں میں در آیا ہے … وہ مسلمانوں کی اکثریت کو خس و خاشاک کی طرح اپنے ساتھ بہا لے جارہا ہے … جدیدیت کے سیلاب بلاء کو ایک طرف جدید ترین مشینوں کا سہارا ہے تو دوسری طرف میڈیا کی پشت پناہی ‘ علامہ اقبال نے سچ فرمایا تھا کہ

دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش

تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو اُبھارا

اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسہ

ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

معروف محقق ڈاکٹر گوہر مشتاق لکھتے ہیں کہ … آہ! آج ایک آنکھ والے دجال کے ایجنٹ میڈیا نے مسلمانوں کی آنکھوں کو بے حیاء مناظر دکھا دکھا کر اور ان کے کانوں کو اخلاق باختہ گانے سنا سنا کر ان کی اخلاقی حس کو بے حس کر کے رکھ دیا ہے … ان کی معاشرتی زندگی کے ہر گوشے میں برائی اتنا رواج پکڑ چکی ہے کہ آج برائی کو برائی سمجھا ہی نہیں جارہا … اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے جس کی نبی اکرم ﷺ نے ایک حدیث مبارکہ میں پیشن گوئی فرمائی تھی کہ ایک دور ایسا آئے گا کہ جب تم لوگ برائی کا حکم دو گے اور نیکی سے روکو گے… (روایت عن ابی امامۃ الباھلی) جدید دجالی نظام کی جڑوں کی آبیاری مغرب کے ایسے مفکرین اور سائنسدانوں نے کی … جو خدا کی ذات سے بیزار اور مذہب سے شدید نفرت کرتے تھے … ’’ڈارون‘‘ کی فکر جو کہ مغربی عمرانی علوم کی بنیاد بنی کے مطابق انسان کا ارتقاء بندر سے ہوا اور انسانوں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں۔

’’کارل مارکس‘‘ اور ’’ایڈم سمتھ‘‘ نے انسانیت کو یہ درس دیا کہ انسان کے تمام اعضاء رئیسہ میں سے ان کا مطمع نظر صرف اور صرف اس کا معدہ ہونا چاہیے … ’’فرائڈ‘‘ نے انسانیت کو جنس پرستی کا پیغام دیا … مغرب کے یہ وہ مفکرین ہیں کہ آج پاکستانی میڈیا پر چھائے ہوئے امریکی پٹاری کے چوٹی کے دانش فروش جن سے مرعوب زدگی کی حد تک متاثر ہیں … ان متعصب اور اسلام سے خوفزدہ تجزیہ نگاروں اور دانش فروشوں کے بس میں نہیں کہ وہ مندرجہ بالا یا دیگر مغربی مفکرین کے ناموں کی تختیاں اپنے گلوں میں ڈال کر پاکستان کے گلی کوچوں میں رقص کرتے پھریں؟ لیکن جدید دجالی نظام کے ان مغربی مفکرین کا انجام کیا ہوا؟ڈاکٹر گوہر مشتاق لکھتے ہیں کہ ’’دجالی نظام کی جڑوں کو مضبوط کرنے والے اکثر مفکرین کا انجام بہت برا ہوا… کارل مارکس انتہائی مایوسی اور کسمپرسی کی حالت میں مرا ‘ ’’فرائڈ‘‘ کی ہر چیز کی جنسی تعبیر سے تنگ آکر اس کے سب سے قابل اعتماد شاگرد او ر مستقبل کے متوقع جانشین کارل نیگ نے اپنے استاد کے نظریات سے نہ صرف یہ کہ توبہ کی … بلکہ ہمیشہ کیلئے اس سے کنارہ کشی بھی اختیار کرلی۔

’’فرائڈ‘‘خود تمام عمر کوکین کا نشہ کرتا رہا … او ر مرنے سے کچھ دیر پہلے اپنے ڈاکٹروں کو ہدایت کی کہ تکلیف کی شدت کی وجہ سے مارفین کے ٹیکے لگا کر ختم کر دیا جائے … یوں فرائڈ نے خودکشی کرلی ‘ مشہور فرانسیسی فلسفی آگسٹ کامتے(August Comte) جو کہ جدید سوشیالوجی کا بانی کہلاتا ہے … زندگی کے آخری سالوں میں ذہنی توازن کھو بیٹھا ‘ جرمن فلسفی شوپن ہار (Sehopenhauer) بھی زندگی کا بیشتر حصہ پاگل رہا۔

مایہ ناز جرمن فلسفی نطشے(Nietzsche) جس نے اپنی کتابThusspoke Zarathustra میں ببانگ دہل لکھ دیا تھا کہ (معاذ اللہ) "God is Dead" یعنی خدا مر گیا ہے(استغفر اللہ) اور پوری دنیا کے دجالی نظام میں یہ بات بہت زیادہ سراہی گئی … او ر یہ خوفناک جملہ لکھنے پر … اسے خراج تحسین پیش کیا گیا … امریکہ کے معروف جریدے نیوز ویک نے 18 اپریل1966 ء کے شمارے میں یہ خبر اپنے فرنٹ کور پر شائع کی … وہی ’’نطشے‘‘ اپنی زندگی کے آخری دس سال پاگل رہ کر موت کی دہلیز پر جاپہنچا۔

دراصل ان عظیم ذہنوں نے اپنے پروردگار کو بھلا دیا تھا … اس لئے پروردگار نے بھی انہیں اپنے آپ سے غافل کر دیا … کیونکہ خدا فراموشی کا نتیجہ خود فراموشی ہوتا ہے ‘ جیسا کہ قرآن میں ارشاد خداوندی ہے کہ ’’ترجمہ: ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائو ‘ جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا ‘ تو اللہ نے انہیں خود اپنے آپ سے غافل کر دیا … یہی لوگ فاسق ہیں‘‘ (سورۃ الحشر آیت19 )

مسلمان کا گھر سب سے بڑا قلعہ ہے ‘ مسلم کنبہ سب سے بڑی ڈھال ہے ‘ ایک آنکھ والے دجال کے ایجنٹوں کا سب سے بڑا ٹارگٹ مسلمانوں کا خاندانی نظام ہی ہے ‘ یہ ایجنٹ گھر گھر ٹی وی ‘ انٹرنیٹ ‘ کیبل وغیرہ کے روپ میں گھس کر اس کے افراد کے ذہنوں میں انتشار اور کنفیوژن پھیلا رہے ہیں۔

دوسری طرف سوسائٹی میں مخلوط تعلیم ‘ ویلنٹائن ڈے ‘ بسنت ‘ کیٹ واکس ‘ میراتھن ریس ‘ ہم جنس پرستی اور عورتوں کے حقوق کے نام پر معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو ڈھانے کی کوششیں عروج پر پہنچ چکی ہیں … رقص و سرود ‘ ڈسکو ڈانس ‘ گانے بجانے کو … ثقافت قرار دیکر اسلامی معاشرے پر شیطانی طاقتیں باقاعدہ حملہ آور ہوچکی ہیں۔

خدا کے باغی ان مغربی مفکرین کے ذہنی غلام معروف ٹی وی چ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں