ہفتہ، 15 اگست، 2015

رباعی...

اُردو ادب میں شعری اصناف اور ہیئتوں کا زبردست تنوع پایا جاتاہے ۔ اُردو شاعری کے تشکیلی دور ہی سے موضوعات ، لفظیات اور محاوروں کے ساتھ ساتھ اُن خاندانوں کی اصناف اور ہیئتوں کو بھی تخلیقی اظہار کے لئے اُردو شعراءنے استعمال میں لایا ہے ۔ جن خاندانوں سے اُردو زبان کا بالواسطہ یا بلاوسطہ رشتہ ہے ۔ رباعی بھی ہمارے ادب میں ہیتی تنوع کے باوصف تشکیلی دور ہی سے تخلیقی اظہار کاوسیلہ بنی ہے او راس صنف نے بہت سے شعراءکی شہرت میں اضافہ بھی کیا ۔
رباعی قدیم عجمی صنف ِ سخن ہے اور فارسی کے آغاز کے ساتھ ہی وجود میں آئی ہے ،فٹزجیرالڈ(Edward Fitz Gerald) حکیم عمر خیام کی رباعیوں کے ترجمے سے لفظ رباعی دنیا کی ہر زبان میں پہنچ گیا ۔ یہ صنف مختصر ترین اصناف میں شمار کی جاسکتی ہے ۔ اس میں اختصار کے ساتھ جامعیت کی جو صفت نظر آتی ہے وہ دیگر اصنافِ شعر میں مفقود ہے ۔
رباعی اصطلاحِ شعر میں اُن چار مصرعوں کو کہتے ہیں جو رباعی کے مقررہ چوبیس اوزان میں لکھے گئے ہوں ۔سید سلیمان ندوی کے حسب ذیل حوالے سے اس کی مزید وضاحت ہوتی ہے :
”فارسی کے اصناف سخن میں رباعی چار مصرعوں کی مختصر نظم ہوتی ہے مگر اس کو زہ میں سمندربند ہوجاتاہے۔ بڑے سے فلسفیانہ خیال ، دقیق سے دقیق اخلاقی نکتہ اور پیچیدہ سے پیچیدہ صوفیانہ مسئلہ جو صفحوں اور دفتروں میں سماتا اُن دوسطروں میں پورا کا پورا ادا ہوجاتاہے ۔ “۔ (خیام، سید سلیمان ندوی ، ص 220)
رباعی فارسی الاصل یا ایران الاصل صنف سخن ہے ۔ اس میں مقررہ اوزان ، وحدت ِ فکر اور تسلسل بیان کی از حد ضروری ہے ۔ یہ بات اکثر تذکروں میں عمومیت کے ساتھ دہرائی جاتی ہے کہ ” یعقوب بن لیث صفّار کا ایک کم سن اور خوبرو بچہ ایک دن اخروٹوں سے کھیل رہا تھا ۔ ایک اخروٹ لڑھکتے لڑھکتے ایک گڈھے میں جاگرا۔ بچے کی زبان سے بے ساختہ یہ مصرعہ نکلا
غلطاں غلطاں ہمی ردو تالب ِ گو
یعقوب بھی موجود تھا ۔ اسے بچے کی زبان سے یہ موزون کلام بہت پسندآیا ۔ چونکہ اُس وقت اس بحر میں اشعار نہیں کہئے جاتے تھے ۔شعراءکو بلا کر کہاکہ یہ کیا بحر ہے انہوں نے کہا ہزج ہے پھر تین مصرے او ر لگا کر رباعی کردیا اور دو بیتی نام رکھا۔ مدت تک یہی نام رہا پھر دوبیتی کے بجائے رباعی کہنے لگے ۔موجودہ تحقیق کی روشنی میں رباعی کے شخصی ایجاد ہونے کی تردید کی جاتی ہے ۔ محققین کی اس فہرست میں پروفیسر پرویز ناتل خانلری کا نام سرفہرست آتاہے ۔
رباعی دراصل شخصی ایجاد نہیں ہے بلکہ یہ لوک گیت کی نہایت ہی قدیم صنف ہے جو ترقی کرکے اعلیٰ شاعری کی صنف بن گئی ۔ اصل میں قدیم ایران میں ترانہ ایک صنف کی حیثیت سے رائج تھی اس کے نشانات ایرانی شاعری میں نورِ اسلام سے قبل بھی ملتے ہیں اس سے اس کے شخصی ایجاد کا قصہ بالکل فرضی معلوم ہوتاہے ۔
رباعی جس طرح ایرانی الاصل ہے اسی طرح اس کے اوزان بھی ایرانی زاہیں اور اہل فن نے بحر ہزج (مفاعلین ، چار بار ) سے اختراع کئے ہیں ۔ یہ دراصل ایرانی میں مروّجہ لوک گیت کی مختلف لحنیں ہیں المعجم فی معائر اشعار العجم کے موقف محمد بن قیس رازی کی رائے بھی یہی ہے :
”اہل دانش ملحونات ایں وزن راترانہ نام کردند“
فارسی ادب میں متعدد خالص رباعی گو موجود ہیں اور ہر ایک اپنے لب ولہجہ ، موضوعات اور منفرداسلوب کی بناءپر الگ پہچان رکھتاہے ۔ ابوسعید ابوالخیر تصوف وحکمت کے مضامین بیان کرنے میں خیام دلکشی اور رنگین بیانی کی وجہ سے ، مدسرمستی وسرشاری اور سحابی استرآبادی خودپر سی اور نرگسی تصور کی وجہ سے اپنا جواب نہیں رکھتے ہیں ان شعراءکی شہرت اور مقبولیت کا دارومدار تمام تر صنفِ رباعی پرہے کیونکہ ان شعراءنے اپنے تخلیقی تجربوں کے اظہار کے لئے خالصتاً اسی صنفِ سخن کو استعمال میں لایا ہے ۔
اُردو ادب میں دیگر مروّجہ اصناف سخن کی طرح ، رباعی کے ابتدائی آثار بھی دکنی شعراءکے یہاں نظر آتے ہیں ۔ اُردو شاعری میں محمد قلی قطب شاہ پہلا شاعر ہے جس کے یہاں زمیں سے رشتے او رمقامی روایات سے قلبی تعلق کی جوت ملتی ہے اس کے تصورِ شعر کے ڈانڈے براہ راست سنسکرت کے اُس اعلیٰ تصورِ شعرسے ملتے ہیں جس کے سر چشمے شرنگاررس سے پھوٹتے ہیں ۔ قلبی قطب شاہ کے کلیات میں 38رباعیاں موجود ہیں اِن رباعیوں میں ان کی غزلوں کی طرح موضوعاتی تنوع، غنایت کے علاوہ مقامی تصورِ عشق بھی پایا جاتاہے اُن کی رباعیوں میں عجیب طرح کی سرشاری وسرمستی موجودہے ۔
ہے پھول کا ہنگام قدسوں باراں حاضر
پھولاں کے نمن سارے ہیں یاراں حاضر
اِس وقت میں کیوں توبہ کیا جائے منجے
توبہ شکسناں ہورنگاراں حاضر
       (مومن)
قطب شاہی دور کے اہم شاعر ملا وجہی کے یہاں بھی رباعیاں ملتی ہیں وہ زیادہ تر واقعاتی موضوعات پر منحصر ہیں، ان میں وہ تنوع اور لطف سخن نہیں ہے جو قلی قطب شاہ کی رباعیوں میں پایاجاتاہے ۔ غواصی ، نصرتی ، شاہی وغیرہ کے یہاں بھی رباعی کے نمونے ضرورملتے ہیں مگر بہت

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں