۵۷ء کی جنگ آزادی اور علمائے دیوبند کا کردار
ہندوستان میں انگریز کی آمد و قبضہ
انکار خدا بھی کر بیٹھو انکار محمد بھی لیکن
جانباز تماشہ دیکھیں گے محشر میں نافرمانوں کا
قلم اور زبان سے نکلے ہوئے الفاظ، تاریخ کو جنم دیتے ہیں، قومیں جب حقوق کی میز پر آمنے سامنے بیٹھتیں ہیں تو وہاں ووٹ نہیں، لاشیں شمار کی جاتی ہیں۔ جس قوم کی لاشیں اپنے حقوق کے حصول میں زیادہ ہوں گی وہی ہر اول دستہ کہلائے گی۔ ہندوستان میں فرنگی سامراج کے خلاف جد و جہد آزادی میں پہل کی تو مسلمانوں نے۔ انگریز کے خلاف عسکری جنگ لڑی تو مسلمانوں نے۔ تو پوں کے دہانوں کے ساتھ باندھ کر اڑائے گئے تو مسلمان۔ پھانسی کے تختے پر انقلاب زندہ باد کہا تو مسلمانوں نے۔ جزائر انڈیمان کو آباد کیا تو انگریز کے باغی مسلمانوں نے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کا قیام
گزرے زمانے کا یہ محاورہ کہ زن ،زمین اور زر بناء فساد ہیں، سرمایہ دار کسی رنگ و روپ کا ہو، ہمیشہ اپنے نفع کی سوچتا ہے، قصہ در اصل یوں شروع ہوا کہ ہالینڈ کے سوداگروں نے ایک پونڈ گرم مصالحہ کی قیمت میں پانچ شلنگ کا اضافہ کرد یا۔تو لندن کے دو درجن تاجر سیخ پا ہو گئے، انہوں نے ایک تجارتی کمپنی بنانے کا فیصلہ کیا، اس کمپنی کا نام ایسٹ انڈیا ٹریڈنگ کمپنی رکھا گیا (برطانیہ) کی ملکہ الزبتھ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو شاہی پروانہ عطا کیا، اس کے بعد کمپنی کے ارکان نے بحری سفر کے ذریعے مختلف مقامات پر اپنے کو کارو باری انداز اور طریق سے منظم کرنا شروع کیا،چنانچہ سب سے پہلی بار کپتان ولیم باکنس ایک جہاز کے ذریعے سورت کی بندرگاہ میں داخل ہوا اور ہندوستان میں آ پہنچا۔ ۱۴۱۵ یا ۱۴۰۹ھ میں سر تھامسن راؤ جہانگیر کے دربار میں حاضر ہوا اور ایک درخواست کے ذریعے شہنشاہ سے کاروباری رعائتیں حاصل کر لیں اور ساتھ ہی اس کو (علاقہ) سورت میں ایک کوٹھی بنانے کی اجازت بھی مل گئی۔ یہ ہے وہ گھڑی جب تجارت کے بہانے انگریز کے ناپاک قدم ہندوستان میں آئے۔ یہ قدم پھر ایسے جمے کہ تین سو سال تک اس ملک کی تمام بہاریں غیر ملکی لوٹتے رہے اور جب یہ رخصت ہوئے تو سارا ہندوستان خزاں کی ایسی زد میں تھا کہ پھر اس پر کبھی بہار نہ آئی۔ غیر ملکی سوداگروں نے آہستہ آہستہ اپنے پاؤں ہندوستان میں پھیلانے شروع کئے۔ آج یہاں، کل وہاں، پرسوں ذرا آگے۔ پہلے سورت میں کوٹھی بنائی پھر بڑھوچ، پھر آگرہ پھر دریائے ہگلی پار کر کے کلکتہ کو اپنا مرکز قرار دے لیا۔‘‘ آگ لینے آئی گھر کی مالک بن بیٹھی‘‘ مغل سلطنت کے زوال میں رعایا کو مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا، بلکہ یہ گھر اپنے ہی چراغوں سے جل کر راکھ ہو گیا۔ مسلمان بادشاہ جنہیں قریباً ہزار سال ہندوستان میں استحکام حاصل رہا، جب سرنگوں ہوا تو اس کی فرد جرم پر غیروں کے دستخط نہیں تھے، بلکہ اپنا ہی خون تھا جو محلات کی اندرونی رقابتوں اور سازشوں سے اسے بہا کر لے گیا۔ جو قوم مغل شہنشاہوں کے آستانوں پر تجارت کی بھیک مانگنے آتی تھی، جب وہ آستانے اجڑ گئے، جب بھیک دینے والے ہاتھ خود محتاج ہو گئے اور لال قلع کے باشی شاہ جہاں کی مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر بھیک مانگنے لگ پڑے تو پھر غیر ملکی تاجروں نے اپنے بھنڈار کھول دیئے، جیسے جیسے ان کے قدم بڑھتے گئے، ہندوستان کی آزادی سمٹ کر ان کے قدموں میں ڈھیر ہوتی گئی ۔
اورنگ زیب عالم گیر کی وفات
اورنگ زیب عالم گیر کی وفات کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم ہوئیں، اسی ابتری کے دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے پاؤں پھیلانے شروع کر دیئے، ان کے ساتھ دوسری کاروباری قومیں بھی حصولِ اقتدار میں ہاتھ پاؤں مارنے لگیں۔ یہاں تک کہ ملک کے مختلف حصوں میں صوبہ خود مختاری کے اعلانات ہونے لگے، اس افرا تفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کمپنی نے نوابوں اور راجاؤں سے گٹھ جوڑ شروع کر دیئے۔عالم گیر نے مرشد قلی خان کو بنگال کا نواب ناظم مقرر کیا ہوا تھا، مگر عالم گیر کی محنت کے بعد یہی صوبہ دار، عملی طور پر فرمانروا بن بیٹھا، ابھی پوری طرح سنبھلا نہ تھا کہ بہار کے حاکم، علی وردی خان نے بنگال کو فتح کر لیا، یہ اس علاقے کے لئے بہترین حاکم ثابت ہوا۔ ۱۷۵۶ء میں علی وردی خان کا انتقال ہو گیا، اس کی عنانِ اقتدار اس کے نواسے سراج الدولہ نے سنبھال لی، مرنے سے قبل سراج الدولہ کو وصیت کی کہ مغربی اقوام کی اس قوت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا جو انہیں ہندوستان میں حاصل ہو چکی ہے۔ سراج الدولہ اپنے خاندان میں اَن گنت صلاحیتوں کا مالک تھا، لیکن تخت سنبھالتے ہی اسے پہلے اپنے خاندان سے نمٹنا پڑا، اپنی چچی بیگم گھسیٹی اور چچازاد بھائی شوکت سے جنگ آزما ہوا، اندرون خانہ مارِ آستین (دوست نما دشمن) بنے ہوئے تھے، ان کو ٹھکانے لگایا تو اصل دشمن کا پتہ چلا کہ اندر خانے یہ ساری گیم تو انگریز کھیل رہا ہے، اس دوران انگریزوں نے کلکتہ میں تعمیر کردہ اپنا قلعہ فورٹ ولیم کو مزید مضبوط کرنا شروع کرد یا، نواب نے انگریزوں سے قلعہ کی واپسی کا مطالبہ کیا تو انہوں نے انکار کرد یا، اس پر سراج الدولہ نے غصہ میں آ کر انگریزوں پر حملہ کر کے کلکتہ ان سے چھین لیا۔
سراج الدولہ کی شہادت، انگریز کا پہلا باغی مسلمان
لیکن اس کامیابی کی عمر، دیر پا ثابت نہ ہوئی جیسے ہی مدراس میں یہ خبر پہنچی کہ کلکتہ انگریزوں سے چھن گیا ہے، اس کے ساتھ ہی انگریز افواج کے سپہ سالار کلائیو نے مدراس سے کلکتہ پہنچ کر خفیہ طور پر نواب کی فوج کے سپہ سالار میر جعفر سے ایک خفیہ معاہدہ طے کیا۔
جنگ پلاسی
مذکورہ بالا سازشی معاہدے کے بعد ۲۳/ جون ۱۷۵۷ء کو نواب سراج الدولہ اور انگریز کے درمیان پلاسی کے میدان میں جنگ ہوئی، اس موقع پر میر جعفر نے غداری کی کہ اپنی فوجوں کو عین وقت پر میدان میں جانے سے روک دیا، ۲۹/ جون ۱۷۵۷ء کو انہیں کے اہل کاروں کی سازش اور سپہ سالار میر جعفر کی غداری سے انگریزوں کے اس بہت بڑے دشمن کو شہید کرد یا گیا، اس کامیابی نے بنگال کو مکمل طور پر انگریزوں کے ہاتھ میں دے دیا، اس جنگ کی کامیابی نے کمپنی کے خاص تجارتی دور کا خاتمہ کیا اور ایک وسیع خطۂ ملک ہاتھ آ جانے سے تجارت کے ساتھ حکومت کا دور شروع ہوا، انگریزوں کے مقابلے میں یہ مسلمانوں کی پہلی شکست تھی، اس شکست سے ہندوستان کا ایک بڑا محاذ ختم ہو گیا۔
رو ہلکھنڈ کا نواب حافظ رحمت خان
روہلکھنڈ کا علاقہ اودھ کے شمال مغرب میں ایک خوشحال اور سرسبز علاقہ تھا، یہاں روہلوں کی مختصر ایک مخصوص ریاست تھی، حافظ رحمت خان اس قبیلے کا سردار تھا، وہ پانچ ہزار علماء کرام کو ملکی خزانے سے وظیفے اور تنخواہیں دیتا تھا، طلباء کے اخراجات کی خود کفالت کرتا تھا، اس نے دیہات اور قصبات میں مسجدیں بنوائیں اور ان میں باقاعدہ خطیب اور خادم مقرر کئے۔ اورنگ زیب عالم گیر کی وفات کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جو چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم ہوئیں، روہلکھنڈ کی ریاست انہیں میں شمار ہوتی تھی، نواب وزیر خان والیِ اودھ سے مل کر انگریز نے حافظ رحمت خان سے جنگ کی۔ اس لڑائی میں تیس ہزار کے قریب روہیلے مارے گئے، ان کے علاوہ حافظ رحمت خان اور ان کے تینوں بیٹے بھی اس میدان میں کام آئے۔ اس شہر یعنی بریلی پر انگریز کا تسلط ہو گیا۔
غداری کا انجام
اسلام کی اجتماعی زندگی میں شہید اور غدار، دو لفظ اس قدر وزن رکھتے ہیں کہ ان کا انکار مسلمانوں کے لئے خصوصیت سے ناواجب قرار دیا گیا ہے، لیکن رواں دور میں یہ الفاظ کم و بیش اپنا وقار کھو چکے ہیں۔ ایک بدمعاش دوسرے بدقماش کو قتل کر دے تو مقتول کے ہمنوا اسے شہید کا درجہ دے دیتے ہیں، کسی کی بہو، بیٹی کے اغوأ میں کوئی مارا جائے تو اس کے وارث بھی مرنے والے کو شہید کہہ کر پکارنے لگتے ہیں، اگر دو جواری باہم رقابت میں لڑکر مارے جائیں تو ان کے ماننے والے انہیں بھی شہید فی سبیل اللہ کہتے ہیں۔ اسی طرح لفظ غدار بھی مذاق بن کر رہ گیا ہے اور ہلکے پن کا یہ عالم ہے کہ محض رائے سے اختلاف کی بناء پر غدار کا خطاب دے دیا جاتاہے۔ غدار کسی بھی لباس میں ہو جب اپنے انجام کو پہنچتا ہے تو قوموں کے مستقبل میں عبرت کا نشان چھوڑ جاتاہے ۔ چنانچہ میر جعفر نے سراج الدولہ اور وطن عزیز سے جو غداری کی، اس کے انگریز آقاؤں نے اسے بہت جلد اس کی سزادے دی کہ اسے نا اہل قرار دے ک
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں