اتوار، 20 ستمبر، 2015

امن اور ادب

آج کل امن کے فروغ ميں ادب کا کردار تمام ادبی حلقوں ميں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے. آخر کيوں؟ اس لئے کہ انسان کی موجوده بے رونق زندگی اور وسيع قبرستانوں کی وسيع آبادی روشن ضميروں ميں ايک بے چينی اور ناآرامی تو پيدا کرتی ہے. روشن ضمير ادب ہميشہ انسان کے روشن مستقبل کا ضامن رہا ہے. تاريک ضميری ميں جنگ اور امن کا کوئی فرق باقی نہيں رہتا.

حقيقت يہ ہے کہ ادب کا جو کردار جنگوں ميں رہا ہے اس سے زياده کردار امن کے قيام ميں ادا کرسکتا ہے. جنگ اور امن لازم و ملزوم سہی ليکن حقيقت ميں ادب زندگی کو پرامن بنيادوں پر ڈالنے کی ايک بہترين پاليسی ہے. ادب کے بعض جنگی و جنونی نظريات سے قطعِ نظر انسانی زندگی سے پيوند اور عقلی اپروچ رکهنے والی تخليقات انسان کی تہذيبی تشکيل ميں بنيادی کردار ادا کرتی ہيں. اگر پوچها جائے کہ کس چيز کی بدولت انسان آج ترقی، ارتقاء اور تہذيب کے اس مقام پر کهڑا ہے؟  مختصر جواب يہ ہوسکتا ہے کہ تخليق کی بدولت!!! تخليق کا يہ لفظ اگر ادبی تناظر ميں ديکها جائے تو يہ حقيقت مزيد واضح ہوجائے گی کہ ادبی تخليق انسانی زندگی کو جدلياتی اور نامياتی ارتقاء کے تحت تہذيب کی طرف لے جاتی ہے. تہذيب شائستگی ہے. شائستگی امن ميں ممکن ہے. جنگ اپنی تمام تر ضرورت، ہئيت اور ماہيت کے باوجود انتشار اور اضطراب کی علامت ہوتی ہے. جنگ کبهی بهی بے مقصد چيز نہيں ہوتی اور نہ ہميشہ ايک منفی چيز ہوتی ہے. البتہ جنگ کے مقاصد، اہداف، عوامل اور وجوہات سمجهنا ايک اہم بات ہے. جنگ آخر کس لئے، کس کے لئے؟ نيکی اور بدی، خير اور شر اور سوشلزم اور بربريت کے درميان نہ ختم ہونے والی جنگ ميں ادب کی جانبداری ہی ادبی تاريخ کو جنم ديتی ہے. بالفاظِ ديگر تاريخ جس طبقاتی کشمکش کا نام ہے اس ميں ادب کی طبقاتی اپروچ ہی ادبی نظريات کی بنياد ہے. ادبيات کی تاريخ کا مطالعہ طبقاتی بنياد کو مدِنظر رکهنے کے بغير ايک بے معنی عمل بن جاتا ہے. يہی کسوٹی جنگوں کے پرکهنے کيلئے بهی ہے اور امن کے پرکهنے کيلئے بهی!!! اسان الفاظ ميں جن معاشروں ميں جنگيں چل رہی ہيں کيا ان کے سامنے انسانيت اور انسانی تہذيب کے فروغ کا کوئی ہدف بهی ہے اور يا يہ ساری حرکتيں انسانيت، انسانی اقدار، آدميت، وقار اور تہذيب کو تباه کرنے کيلئے ہيں؟ بنيادی طور پر جب جنگ انسانی زندگی ميں امن اور تہذيب کی بحالی کيلئے ہو تو وسيع بنيادوں پر اس کی حمايت کا جواز بنتا ہے. بصورتِ ديگر جنگ ہميشہ انسان دشمن قوتوں کا ايک بہترين مشغلہ اور کامياب پاليسی رہی ہے.

انسانوں کو نسلی، لسانی، مذہبی اور مسلکی بنيادوں پر جنگوں ميں مبتلا رکهنے اور “تقسيم کرو اور حکومت کرو” کی حکمتِ عملی کو استعمال ميں لانے کے بعد اب سامراج نمائنده دانشوروں کے نزديک دنيا ميں سرمايہ داری کی حکمرانی کے علاوه کوئی اور حقيقت باقی نہيں رہی. تاريخ اور نظريات کا خاتمہ اور تہذيبوں کے درميان تصادم کی غلط فہمی انسانی امن پر شبِ خون مارنے کی ايک بين الاقوامی سٹرٹيجی تهی. چونکہ بلاکوں کا تصور ختم ہوچکا تها اور يہ يقين پختہ کرنے کی کوشش ہوچلی تهی کہ اب ملٹی نيشنل کمپنياں ہی سب کچه ہيں، عالمگيريت ہے اور سامراج ہے. سامراج پرورده دانشوروں کی نظر ميں اس کے مقابلے کی کوئی قوت باقی نہيں رہی. مگر يہ حقيقت نظر انداز ہوگئی کہ سوويت يونين کے انہدام کے ساته ايک حکومت اور حکمتِ عملی تو ناکام ہوگئی ليکن يہ ناکامی کميونيزم کی نہيں تهی اور نہ کميونيزم سوويت يونين ميں محصور تها. سامراج کے نزديک مقابلے کی قوت کے ختم ہونے کی خام خيالی ميں قوموں کی جغرافيائی موقعيت کی جو مسلسل خلاف ورزی ہوئی، جو جنگی و جنونی ذہنيت تيار کی گئی اور طالبان و القاعده کے نام سے جو جنگجو، انتهاء پسند، جمہوری اقدار سے عاری جارحانہ عناصر تيار کئے گئے ان کی وجہ سے آج ساری انسانيت الميوں سے دوچار ہے. نہ زندوں کی کوئی حرمت اور نہ قبروں اور لاشوں کی. بوڑهوں، بچوں اور خواتين کی تذليل بهی ايک معمول ايک روايت. تاريخ، قومی اقدار، زبان، کلچر، تعليمی ادارے اور علمی ضابطے کے تقدس کی پامالی تو اب ايک عام سی بات لگتی ہے. جمہوريت، انساندوستی، اخوت اور محبت جيسی اعلی’ اور ارفع اقدار بڑی بے رحمی کے ساته مسخ کی جارہی ہيں اور اس کی جگہ دہشت گردی، تعصب، عناد، امريت، انتهاء پسندی، خودکش حملوں اور خودکشيوں کے رجحانات کو پروموٹ کيا جارہا ہے.

سائنسی اور سياسی بنيادوں پر حالات کا شعور رکهنے والے جانتے ہيں کہ ايک جمہوری اور سيکولر معاشره ہی امن کا ضامن ہوسکتا ہے. جب ہر فرد کو اپنے بنيادی حقوق حاصل ہو، معاشرے ميں احترامِ باہمی کا جذبہ ہو، تخت اور معبد ايک نہ ہو اور بحث و مکالمے کے کلچر کی حکمرانی ہو تو اس صورت ميں تمام مسائل کا حل ممکن ہوگا. اب اس حقيقت سے روگردانی ممکن نہيں کہ “غربت اور امن کی دوستی نہيں ہوسکتی”.  دنيا ميں جہاں بهی جنگيں پائی جاتی ہيں ا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں