نعت کے اسالیب
قبولیت رسول مقبول حضرت محمد مصطفی کی شخصیت کا اعجاز نہیں تو اور کیا ہے۔
اب آئیے آداب نعت کی طرف، جس پر جناب ناوک نے اپنے اس مضمون میں تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے اور خاص طور سے شعراء کو شرک و بدعت سے اجتناب کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کلام اللہ کی کچھ موٹی موٹی باتیں بیان کی ہیں، جنہیں نعت گوئی کے وقت پیش نظر رکھنی چاہئیں۔ اس سلسلہ میں مجھے نوجوان محقق ڈاکٹر شمس بدایونی کی ایک مختصر سی کتاب یاد آ رہی ہے جو 1988 میں ’’اُردو نعت کا شرعی محاسبہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی اور انہوں نے اسی وقت اپنے خط کے ساتھ تبصرے کے لئے مجھے بطور خاص بھیجی تھی، اس کتاب میں پہلی بار اُردو نعت کے حوالہ سے غیر مشروع اور مشروع موضوعات کی وضاحت کتاب و سنت کی روشنی میں کی گئی ہے۔ جناب ناوک حمزہ پوری نے اپنے مضمون کا اختتام ایک شعر پر کیا ہے، جس کے متعلق وہ لکھتے ہیں ’’یہ شعر بظاہر تو بے ضرر سا لگتا ہے بلکہ میں نے اکثر احباب کو اس شعر پر سر دھنتے دیکھا ہے لیکن غور کیجئے تو اللہ اور اس کے رسول دونوں کی شان میں گستاخی ہے، تخیل کی وادیوں میں شاعر اس طرح بھٹکا ہے کہ اللہ اور رسول دونوں کو اُردو کی روایتی غزلیہ شاعری کا عاشق و معشوق سمجھ بیٹھا ہے‘‘:
ایک دن عرش پہ محبوب کو بلوا ہی لیا
ہجر وہ غم کہ خدا سے بھی اُٹھایا نہ گیا
مجھے معلوم نہیں یہ شعر کس کا ہے ویسے اُردو نعت میں ایسے اشعار بھرے پڑے ہیں مثلاً بیخود دہلوی کے یہ دو شعر دیکھئے:
خدا بھی حسینوں کو رکھتا ہے دوست
محمد سا محبوب اس کا ہے دوست
نبی پر ہوا حسن کا اختتام
کہ معشوق خالق تھے خیرالانام
آنحضور کی محبوبیت ایک مسلمہ امر ہے اور جزو ایمان ہے اور اسی لئے نعتوں میں اس کا ذکر مستحسن ہے لیکن اکثر و بیشتر اُردو نعت میں معشوقیت کے روایتی تصور کو پیش کیا گیا ہے جو بالکل غلط ہے۔ چنانچہ حضور کی محبوبیت کو دنیاوی جذبات عشق و محبت پر قیاس کر کے انہیں نعتوں میں نظم کرنا کسی طرح درست نہیں۔ اسی طرح اور بھی بہت سے مضامین ہیں مثلاً آنحضور کا مختار کل ہونا، قاب قوسین یعنی دو کمانوں کے فاصلہ کا تصور ، آنحضور کا علم غیب، عرش اعظم کا تصور، میم کا پردہ وغیرہ وغیرہ ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ڈاکٹر شمس بدایونی نے مفید گفتگو کی ہے۔ بہر حال یہ معاملات نازک ہیں اور ان کے بارے میں نعت گو شعراء کو محتاط رویہ اختیار چاہئے۔
واقعہ یہ ہے کہ نعت گوئی اک بڑا مشکل اور نازک فن ہے اس موضوع کا حق ادا کرنا آسان نہیں ، ذرا سی لغزش انہیں کہاں سے کہاں پہنچا سکتی ہے، چنانچہ فارسی کا یہ مشہور شعر اسی احساس کا نتیجہ ہے:
ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب
ہنوز نام تو گفتن ، کمال بے ادبی ست
ایمان و عقیدہ اور عشق و محبت کی ہم آہنگی اور خلوص و وابستگی کے بغیر کوئی شاعر نعت کا ایک شعر نہیں کہہ سکتا۔ عرفی جیسا خود پسند شاعر بھی جب اس میدان میں آتا ہے تو کانپ اُٹھتا ہے، اس کے نزدیک نعت کہنا تلوار کی دھار پر چلنا ہے:
عرفی مشتاب ایں رہ نعت است نہ صحرا ست
آہستہ کہ رہ بردم تیغ است قدم را
اب سوال یہ ہے کہ اس عمومی احساس کے باوجود کہ نعت گوئی کا فن گویا پل صراط کا سفر ہے جس میں قدم قدم پر لغزش پا کا خطرہ ہے، خدا اور رسول کے مابین فرق و امتیاز کی جو فصیل ہے وہ عام طور پر ملحوظ نہیں رکھی گئی ہے آخر اس افراط و تفریط کا سبب کیا ہے؟ میرے خیال میں اس کابنیادی سبب رسالت محمدی سے محبت و عقیدت کا وہ روایتی ، رسمی اور محدود تصور ہے جو امت مسلمہ میں آج بھی رائج ہے۔ جس کے نتیجہ میں عام طور پر نعت کا موضوع شمائل و سراپا نگاری، یاد مدینہ میں شب و روز کی بیقراری ، اذن حضوری کا انتظار ، دوری و مجبوری میں سرشاری کی کیفیت ۔ کسی کو کائنات کا ہر ذرہ خوشبو ئے مدینہ سے معطر محسوس ہوتا ہے، کسی کا دل خواب میں روضۂ اطہر کی زیارت سے منور ہے، کوئی مدینہ پہنچ کر وطن واپسی کے بجائے اسی شہر میں پیوند خاک ہونا چاہتا ہے، یہ اور اس نوع کے جذبات و کیفیات نے موضوع نعت کو بلا شبہ رنگا رنگی اور دلکشی و دل آویزی عطا کی ہے، مگر شعراء کا یہ شعری رویہ انکو قدیم نعتیہ روایات سے جوڑے ہوئے ہے اور اسی انداز فکر سے نعتوں میں مبالغہ ، غلو اور اغراق کے عناصر در آئے ہیں۔ در اصل فراوانیِ جذبات اور وفور شوق انہیں کہیں سے کہیں لے جاتاہے۔
دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سر سید اور ان کے رفقاء حالی و شبلی نے اُردو ادب میں دور جدید کا آغاز کیا، جب اُنہوں نے شعر و ادب کو نئے اسالیب ، نئی ہئیتوں اور نئے موضوعات سے ہمکنار کیا اور شعر کا رشتہ ’’فردیت‘‘ کے بجائے ’’اجتماعیت‘‘ اور ’’داخلیت‘‘ کے بجائے ’’خارجیت‘‘ سے جوڑا تو تمام اصناف سخن کے ساتھ نعت کے موضوع کو بھی وسیع کینوس ملا۔ اب حالی اور ان کے رفقاء کی نعت حضور اکرم سے صرف عقیدت ومحبت کے اظہار تک محدود نہیں رہی بلکہ اسے وسیلۂ اصلاحِ سیرت و کردار بھی بنا یا گیا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں