مفتی خلیل احمد راضی قاسمی اوسیکوی
یہ ایک معلوم ومعروف حقیقت ہے کہ شہادتِ توحید ورسالت اور اقامتِ صلوۃ کے بعد زکوٰۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے، قرآن مجید میں ستر سے زیادہ مقامات پر اقامتِ صلوۃ اور اداء زکوۃ کا ذکر اس طرح ساتھ ساتھ کیاگیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں ان دونوں کا مقام اور درجہ قریب قریب ایک ہی ہے، اسی لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بعض علاقوں کے ایسے لوگوں نے جو بظاہر اسلام قبول کرچکے تھے اور توحید ورسالت کا اقرار کرتے اور نمازیں پڑھتے تھے زکوٰۃ سے انکار کیا،
تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کا اسی بنیاد پر فیصلہ کیا تھا کہ یہ نماز اور زکوۃ کے حکم میں تفریق کرتے ہیں جو اللہ ورسول کے دین سے انحراف اور اتداد ہے، صحیح بخاری اور مسلم کی مشہور روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کو جواب دیتے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا: ’’واللہ لاقاتلن من فرق بین الصلوۃ والزکوۃ‘‘ خدا کی قسم نماز اور زکوۃ کے درمیان جو لوگ تفریق کریں گے میں ضرور ان کے خلاف جہاد کروں گا‘‘ پھر تمام صحابہ کرامؓ نے ان کے اس نقطۂ نظر کو قبول فرمایا اور اس پر سب کا اجماع ہوگیا۔
زکوۃ کے تین پہلو ہیں
زکوۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو ہیں:۔ (۱) ایک یہ کہ مومن بندہ جس طرح نماز کے قیام اور رکوع وسجود کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی بندگی اور تذلل ونیازمندی کا مظاہرہ جسم وجان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضا ورحمت اور اس کا قرب اس کو حاصل ہو، اسی طرح زکوۃ ادا کرکے وہ اس کی بارگاہ میں اپنی مالی نذر اسی غرض سے پیش کرتا ہے اور اس بات کا عملی ثبوت دیتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسے اپنا نہیں بلکہ خدا کا سمجھتا اور یقین کرتا ہے، اور اس کی رضا و قرب حاصل کرنے کے لیے اس کو قربان کرتا اور نذرانہ پیش کرتا ہے، زکوۃ کا شمار ’’عبادات‘‘ میں اسی پہلو سے ہے، دین وشریعت کی خاص اصطلاح میں ’’عبادات‘‘ بندے کے انہ اعمال کو کہا جاتا ہے جن کا خاص مقصد وموضوع اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی عبدیت اور بندگی کے تعلق کو ظاہر کرنا اور اس کے ذریعہ اس کا رحم وکرم اور اس کا قرب ڈھونڈھنا ہو۔ (۲) دوسرا پہلو زکوٰۃ میں یہ ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ کے ضرورت مند اور پریشان حال بندوں کی خدمت واعانت ہوتی ہے، اس پہلو سے زکوۃ اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے۔ (۳) تیسرا پہلو اس میں افادیت کا یہ ہے کہ حبِّ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور نہایت مہلک روحانی بیماری ہے، زکوٰۃ اس کا علاج اور اس کے گندے اور زہریلے اثرات سے نفس کی تطہیر اور تزکیہ کا ذریعہ ہے، اسی بناء پر قران مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے: ترجمہ: ’’اے نبی! آپ مسلمانوں کے اموال میں سے صدقہ (زکوۃ) وصول کیجئے جس کے ذریعہ ان کے قلوب کی تطہیر اور ان کے نفوس کا تزکیہ ہو‘‘ (سورہ توبہ ۱۳) دوسری جگہ فرمایا گیا ہے:۔ ’’اور اس آتشِ دوزخ سے وہ نہایت متقی بندہ دور رکھا جائے گا جو اپنا مال راہِ خدا میں اس لیے دیتا ہو کہ اس کی روح اور اس کے دل کو پاکیزگی حاصل ہو‘‘ (سورۃ اللیل) اور زکوٰۃ کا نام غالباً اسی پہلو سے زکوٰۃ رکھا گیا ہے کیونکہ زکوٰۃ کے اصل معنی ہی پاکیزگی کے ہیں۔
زکوۃ کا حکم پہلی شریعتوں میں
زکوٰۃ کی اس غیر معمولی اہمیت اور افادیت کی وجہ سے اس کا حکم اگلے پیغمبروں کی شریعتوں میں بھی نماز کے ساتھ ہی ساتھ برابر رہا ہے، سورۂ انبیاء میں حضرت ابراہیم اور ان کے صاحبزادے حضرت اسحق اور پھر ان کے صاحبزادے حضرت یعقوب علیہم السلام کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے:۔ ’’اور ہم نے ان کو حکم بھیجا نیکیوں کے کرنے کا (خاص کر) نماز قائم کرنے اور زکوۃ دینے کا اور وہ ہمارے عبادت گزار بندے تھے‘‘ (سورۃ انبیاء۵) اور سورۂ مریم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا ہے:۔ ’’ اور وہ اپنے گھروالوں کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیتے تھے‘‘ اور اسرائیلی سلسلے کے آخری پیغمبر حضرت عیسیٰ ابن مریمؑ کے متعلق ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے فرمایا:۔ ’’میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور نبی بنایا ہے اور جہاں کہیں میں ہوں مجھے اس نے بابرکت بنایا ہے اور جب تک میں زندہ رہوں مجھے نماز اور زکوۃ کی وصیت فرمائی ہے‘‘ (سورۃ مریم۲) سورۂ بقرہ میں جہاں بنی اسرائیل کے ایمانی میثاق اور ان بنیادی احکام کا ذکر کیا گیا ہے جن کی ادائیگی کا ان سے عہد لیا گیا تھا ان میں ایک حکم یہ بھی بیان کیا گیا ہے:۔ ’’اور نماز قائم کرتے رہنا اور زکوۃ ادا کیا کرنا‘‘ (سورۃ بقرہ۱۰) اسی طرح جہاں سورہ مائدہ میں بنی اسرائیل کے اس عہد ومیثاق کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں بھی فرمایا گیا ہے:۔ ’’اوراللہ نے فرمایا میں (اپنی مدد کے ساتھ) تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نماز قائم کرتے رہے اور زکوۃ دیتے رہے اور میرے رسولوں پر ایمان لاتے رہے‘‘ (سورہ مائدہ۳) قرآن مجید کی ان آیات سے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں