دارالعلوم دیوبند نے کیا دیا ؟؟
شیخ المشائخ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی قدس سرہ اور دیگر اولیائے کرام کی دعائوں کانتیجہ تھا اور قطب الارشاد امام ربانی مولانارشید احمد گنگوہی کی سرپرستی کاپھل تھا جوحضرت نانوتوی قدس سرہ کے بعد عمل میں آئی ، نیز حضرت مولانا شاہ رفیع الدین صاحب جیسے ولی کامل مہتمم اور حضرت مولانامحمد یعقوب صاحب نانوتوی جیسے متقی اولیں شیخ الحدیث اورشیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی جیسے بزرگوں کی برکتوں کاثمرہ ہے۔
یوں تو دارالعلوم دیوبند نے ہزاروں عالم پیدا کئے لیکن اگر وہ صرف ایک ہی یگانہ روز گار امام العصر علامہ محمد انورشاہ کشمیریؒ جیسا عظیم الشان عالم پیداکرکے مستقبل کے لیے بند ہو جاتا تو پھر بھی لاکھوں ستاروں سے زیادہ منورشمس علامہ انورکافی تھا، لیکن آگے دیکھئے کہ دارالعلوم نے مفتی اعظم ہند مولانامفتی عزیزالرحمن عثمانی جیسے فقیہ النفس ، حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی جیسے مجدد اعظم، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی جیسے مفسرومتکلم ، مولاناحبیب الرحمن عثمانی جیسے ادیب ومفکر، مولانا سید حسین احمد مدنی جیسے عالم ومحدث ، مفتی کفایت اللہ صاحب جیسے ثانی شامی ، مولاناسید میاں اصغر حسین دیوبندی جیسے ولی کامل، مولانا عبیدا للہ سندھی جیسے دیدہ ورمبصر، مولانا اعزاز علی صاحب جیسے ادیب ، مولانامرتضی حسن جیسے مناظر ، مولاناظفراحمد عثمانی جیسے فقیہ ومحدث مولانا محمدابراہیم بلیاوی جیسے فلسفی ، مولانارسول خاں ہزاروی جیسے منطقی ، مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانامفتی محمد شفیع جیسے فقیہ ومفسر، مولانامحمد ادریس کاندھلوی جیسے محدث ومفسر، مولاناسیدبدرعالم میرٹھی مہاجر مدنی جیسے محدث عالم ، مولانا مناظر احسن گیلانی جیسے مورخ ، مولاناخیر محمد جالندھری جیسے عارف ، مولانامفتی محمد حسن امرتسری جیسے مخدوم وعارف ، اور علامہ شمس الحق افغانی اور مولانا قاری محمد طیب قاسمی جیسے فاضل ومتکلم پیداکیے ۔
کوئی بتائے کہ آسمان دارالعلوم دیوبند کے علاوہ کوئی اور ایسا آسمان ہے جس پران جیسے آفتاب وماہتاب چمکتے ہوں اورسرزمین دارالعلوم سے بڑھ کر اورکوئی سرزمین ایسی ہے جہاں ایسے سدابہار پھول کھلے ہوں ، بلاشبہ آج دنیائے اسلام میں ان ہی حضرات کی دھوم ہے اوران ہی کا چرچاہے ان میں ہرشخص ایک انجمن کی حیثیت رکھتاہے۔
دارالعلوم نے مسلمانوں کوکیادیا ؟ اوراس کی شہرت کو چارچاند کیسے لگے ؟ اس کاجواب صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کو علم ،عمل ، اخلاص ، ادب اور سیاست سے مالامال کیا اور ہرہرپہلو اور ہر ہر کروٹ پر ان کے لیے رہنمائی کا سامان فراہم کیا، اب اہل انصاف خود فیصلہ فرمائیں کہ جس دار العلوم نے ہر ہر قدم پر مسلمانوں کی رہنمائی کی اور ان کو علم وعمل ، اخلاص اور ادب و سیاست سے آراستہ کیا، اس سے بڑھ کردارالعلوم دیوبند کا اورکیا شاہکار ہو سکتا ہے، حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ شریعت کے تین جز ہیں : علم، عمل اور اخلاص جب تک یہ تین جز موجود نہ ہوں ، شریعت کا وجود نہیں ہوتا اور جب ان تینوں کے وجود سے شریعت وجود میں آگئی توخدائے پاک وبلند کی رضا حاصل ہوگئی جو تمام دنیوی ودینی بختیوں سے بھی زیادہ اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی سب سے زیادہ نعمت ہے ۔
دارالعلوم نے بقول حضرت مجدد الف ثانی علم، عمل اوراخلاص سے مزین علماء پیدا کیے جودنیا ومافیہا سے بڑھ کرہے اور اسی لیے اکبرالہ آبادی مرحوم نے دیوبند کو دل روشن کہہ کر پکارا ہے۔
دارالعلوم نے علم کیوں کردیا ؟ اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ اس گہوارہ علم سے بہترین اہل وہنر پیدا ہوئے اور علم کے زیورسے آراستہ ہوکر دنیائے اسلام کے کونے کونے میں پہنچے اورجہاں جہاں پہنچے، انہوں نے اپنے علم کے چراغ سے اور ہزاروں چراغ روشن کئے اور لاکھوں ارباب علم پیدا کئے اور ی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں