جمعہ، 23 ستمبر، 2016

اردونزاد علما کی عربی خدمات

  ہندوستان

ہندوستان میں عربی زبان کی درس وتدریس کا سلسلہ مسلمانوں کی آمد کے وقت سے جاری ہے۔  اور یہاں کے علما نے بھی اس میں نمایاں خدمات انجام دیں ہیں۔  قاضی محمد اعلیٰ تھانوی (بارہویں صدی ہجری) نے علوم و فنون کی اصطلاحات میں کتاب ’’کثاف اصطلاحات الفنون‘‘ اور علامہ سید مرتضیٰ بلگرامی معروف بزبیدی (م ۱۲۰۵ھ) نے مجد الدین فیروز آبادی کی لغت ’’القاموس المحیط‘‘ کی عرب شرح ’’تاج العروس‘‘ کے نام سے دس جلدوں میں لکھی۔  مولانا سید عبدالجلیل بلگرامی اور میر غلام علی آزاد بلگرامی نے بلاغ و بدائع اور فن عروض میں اضافے کیے اور عربی شاعری میں ہندوستانی موزونیتِ طبع کے جوہر دکھائے جسٹس کرامت حسین اور مولانا سلیمان اشرف بہاری نے فقہ اللسان اور المبین کے ذریعہ عربی زبان کے فلسفہ لغت اور نحو پر معرکہ آراء کام کیا۔  عربی درس گاہوں میں دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ کے حلقہ سے عربی زبان و ادب کے گوہر نایاب پیدا ہوئے۔  اس کے سابق ناظم مولانا عبدالحسنی مرحوم مے الثقافتہ الہندیہ کے علاوہ ہندوستانی علما و فضلا کے تذکر رہ میں ایک مبسط کتاب عربی میں ’’نزہۃ الخواطر‘‘ کے نام سے لکھی، جس کی آٹھ جلدیں اب تک شائع ہو چکی ہیں۔  ندوہ کے فارغین میں کئی ادیب محقق اور شاعر پیدا ہوئے جن میں مولانا مسعود عالم ندوی، مولانا محمد ناظم ندوی اور شاعر عبدالرحمن کا شغری ندوی سرفہرست ہیں۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی اپنی علمی، ادبی اور دینی عربی کتابوں کی وجہ سے عالم اسلام اور عرب میں جانی پہچانی شخصیت بن چکے ہیں۔  مولانا کو عربی خطابت میں حیرت ناک ملکۂ ہے۔  عربی صحافت میں بھی ندوہ نے پہل کی تھی اور اس وقت بھی یہاں سے عربی کا ایک ماہوار رسالہ ’’البعث الاسلامی‘‘ کے نام سے اور ایک پندرہ روزہ ’’الرائد ‘‘ کے نام سے نکل رہا ہے۔  دارالعلوم دیوبند سے بھی عربی کا ایک رسالہ ’’الداعی‘‘ کے نام سے نکلتا ہے۔

(بحوالہ عربی ادب انسائیکلو پیڈیا)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں