جمعرات، 27 اکتوبر، 2016

سیمانچل کاتخلیقی سائبان ابجد 16

  سیما نچل کا تخلیقی سائبان ابجد16

عبدالوھاب قاسمی 

                           
سہ ما ہی ابجد ارریہ کی تخلیقی شنا خت کا معتبر حوالہ ہے،جو پچھلے کئی بر سوں سے ارریہ کے ادبی افق پر طلوع ہو رہا ہے اور ارکین ابجد کی جا نکا ہی و دلسوزی اسے خوب سے خوب تر بنا نے میں مصروف ہے۔یہ رسا لہ کرئہ ارضی کے ایسے منطقہ سے نکل رہا ہے،جسے حاشیائی خطہ متصور کے جا تا ہے۔مر کز سے دور حاشیائی خطے کو اپنے وجود و تشخص کی بقا کے لئے کیا کچھ کر نا پڑ تاہے اس سے کم لوگ واقف ہو ں گے۔عصبیت،علا قا ئیت،بے توجہی،بے اعتنائی اور بھی بہت کچھ ……!
”ابجد“ کا تا زہ شمارہ پچھلے شما روں کی بہ نسبت انفرادیت کا حامل ہے۔اداریہ فکر انگیز اور بصیرت افروز ہے۔اردو اور ہندی کے حو الے سے ایک بڑی صدا قت کو اجا گر کیا گیا ہے۔اس شما رے میں پرویز شہر یار پر خصوصی گو شہ شا مل ہے۔جو بقول مدیر ”ابجد“نے ایک نیا سلسلہ گوشہ (تجر بے کے طور پر)کا آغاز کیا ہے“۔اس گوشے میں وقت کے ما یہ نا ز افسانہ نگار وں اور اہم نا قدوں کی تحریریں شا مل ہیں۔”شمو ئل احمد،مشرف عا لم ذوقی،ڈاکٹر سید احمد قا دری،ڈاکٹر افسر کا ظمی،نور العین سا حرہ،راشد جمال فا روقی،ڈاکٹر اختر آزاد،منظر کلیم،ڈاکٹر مشتاق احمد وا نی،ڈاکٹر ہما یوں اشرف،ڈاکٹر نعمان قیصر اور رضوان بن علا ء الدین نے پر ویز شہر یار کی تخلیقی توا نا ئیوں اور احساس و اظہار کی رفعتوں کی جستجو کی ہے۔ان کے افسا نوں سے مکا لمہ کر تے ہوئے ان لہروں تک رسائی کی کوشش کی ہے جن کا رشتہ انسانی وجود سے منسلک ہے۔اس با ب سے جو تا ثر قا ئم ہو تا ہے۔ان سے کئی سو الات کھڑے ہو تے ہیں۔ادا ریہ کے اس اقتباس سے کہ ”اس میں (ابجد)اردو کے نا مور شا عر،معتبر افسانہ نگار اور ممتاز ناقد پر ویز شہر یار کے فکرو فن اور شخصیت پر مختلف جہتوں سے روشنی ڈالنے کی کو شش کی گئی ہے“ان سوا لات کو مزید تقویت اس بات سے حا صل ہو تی ہے۔کہ کیا جو فنکارنامور شا عر بھی ہو اور ممتا ز ناقد بھی اس کے صرف افسا نوی کا ئنات کا احا طہ ان کو سمجھنے کے لئے کا فی ہے؟اس با ب میں ایک بھی ایسا مضمون نہیں ہے جو ان کے شعری اور تنقیدی رویے کو روشن کرے۔خالص شخصیت پر بھی کو ئی تخلیق اس گوشے کا حصہ نہیں۔جس سے ان کی زندگی کے اسرار قا ری پر منکشف ہو ں اور یہ عر فان ہو کہ ان کی شخصیت ان کی تخلیقیت پر کس درجہ اثر انداز ہے۔پھر ان کی افسانوی جہتوں پر جتنی تحریرں شا مل ہیں ہر ایک میں یکسانیت،حد درجہ تکرار،گہر ی مماثلت اور چند منتخب شدہ افسا نوں پر ارتکاز صاف نما یاں ہے۔ان کے افسا نوی کر دار،کہانی،پلاٹ،تکنیک،امیج،منظر نگا ری،ما حول،فضا،وحدت تا ثر،معروضیت،لب و لہجہ،اسلوب و ادا،لسانی سا خت اور جما لیاتی حس کے بجا ئے صرف مو ضوعات کو محور بنا یا گیا ہے۔کچھ تحریروں میں محض مبہم اشارے ہیں اور تجزیے کے نام پر زیادہ تر افسا نوں کے خلا صے مع اقتباسات پیش کر دیئے گئے ہیں۔مشرف عا لم ذوقی،ہما یوں اشرف،ڈاکٹر نعمان قیصر اور رضوان بن علا ء الدین کی تحریروں میں کچھ نئے جہات ضرور روشن ہیں۔تر تیب میں بھی تخلیقیت کے بجائے مر عو بیت حائل ہے۔مشرف عا لم ذوقی کی تحریر کو اولیت دینے میں کو ئی حرج نہیں تھا۔یہ تحریر جس طرح کے سوا لات اٹھا تی ہے بعد کی تحریریں اس کے تفصیلی جوابات کے زمرے میں آجا تیں۔شہر یار کے فکرو فن سے مکا لمہ یہاں ما یو س کن ہے اور نقد افسا نہ کی زبوں حا لی بھی نما یاں ہے۔
نقد و نظر کے تحت ”ندافا ضلی سے ایک ملا قات (ڈاکٹر قسیم اختر)جنوبی ایشیا میں اردو زبان و ادب (غلام نبی خیال)بچوں کاادب:ہم عصر صورت حال(ڈاکٹر آفاق عا لم صدیقی)اردو زبان کی پیدا ئش میں ہندوؤں کا حصہ (ڈاکٹر احمد کفیل)عا لمی ڈراما:تا ریخ و تنقید(ڈاکٹر الطاف حسین)نجیب محفوظ کی نا ول نگا ری(ابرار احمد اجراوی)اور ”فراق کی شا عری میں جما لیاتی اقدار (مسرت جان)سات مضا مین شا مل کئے گئے ہیں۔
ندا فا ضلی سے مکا لمہ کر تے ہو ئے قسیم اختر نے اپنی بصیرت اور عصری حسیت کا احساس دلا یا ہے۔اس مکا لمے میں ندا فا  ضلی کے تخلیقی رویے کا ادراک ہو تاہے۔ڈاکٹر قسیم اختر نے مکا لمے کے لئے جد ت سے کا م لیا ہے۔تا ریخ پیدا ئش،ابتدائی تعلیم و تر بیت،گھر یلو حا لات،ما حو ل اور استا دی شا گردی جیسے سوا لات کے بجا ئے انھوں نے پہلے ہی سوال میں قا ری کی دلچسپی بڑھا دی ہے۔اس مکا لمے میں بہت سے معنی خیز افکار بھی روشن ہو گئے ہیں جن سے اس کی اہمیت کا اندا زہ ہو تا ہے۔
””جنو بی ایشیا میں اردو زبان و ادب“تحقیقی اندا ز میں لکھا گیا ہے۔زیادہ تر اقتباسات پر ارتکا ز ہے۔اسی کے توسط سے تا ریخی کڑ یاں جو ڑ نے کی کو شش کی گئی ہے۔اگر تمام اقتباسات خارج کر دیئے جا ئیں تو چا ر صفحات پر محیط خیا ل صا حب کے خیا لات بمشکل ڈیڑھ صفحات میں سمٹ جا ئیں گے۔اس مضمون سے جنو بی ایشیا میں اردو زبان و ادب کی کو ئی وا ضح تصویر سامنے نہیں آپا ئی ہے۔ قا ری کسی نتیجے پر رسائی میں نا کام ہے۔ جب کہ غلام نبی صاحب کا یہ خیا ل ہے کہ ”جنو بی ایشیا میں اردو زبان و ادب پر آج تک کو ئی قا بل توجہ یا قا بل ذکر کر دار سامنے نہیں آپا ئے ہیں“اس مضمون کے توسط سے بہت حد تک اس کی تلا فی ممکن تھی۔کسی ایک پہلو کو مطمح نظر بنا یا جا سکتا تھا۔
”بچو ں کا ادب:ہم عصر صورت حال“ڈاکٹر آفاق عا لم صدیقی نے یہاں ادب اطفال کا خوبصورت تجزیہ کیا ہے۔ما ضی کے منظر نا موں پر نگاہ رکھی ہے اور حال کو بھی محور بنایا ہے۔ادب اطفا ل کی ضرورت و اہمیت اور افا دیت کا اظہار اس مضمون کا حصہ ہے۔ارتکا ز و انہماک اور تنقیدی شعور کی رو پو رے مضمون پر محیط ہے۔ کئی سوا لات قا ئم کئے ہیں۔منظر اور پس منظر میں جھا نکنے کی سعی کی ہے۔اد ب اطفا ل کی تنقیدی کا ئنات کا جائزہ بھی لیا ہے۔مو ضو عاتی سطح پر تبدیلی کے خواہشمند بھی ہیں اور عصری حسیت سے ہم آہنگی کا سچا مطا لبہ بھی کیا ہے۔
”اکیسویں صدی کے جو بڑے امکا نی وقوعے،مسائل اور فنٹاسی ہیں،جو ذہنانسانی کی بڑی جستیں اور اختراعات ہیں،جو سا ئنس اور ٹکنا لو جی کی
بڑی عطیات اور آزما ئشیں ہیں ان کے تخلیقی اور عملی بیان سے اردو ادب اطفال کا سر ما یہ خالی ہے
(سہ ما ہی ابجد۶۱ص۷۶)
اس اقتباس سے ان کے زاویہ نگاہ کو سمجھا جا سکتا ہے۔انھوں نے ادب اطفال میں اعضا کی پیوند کاری،کلو ننگ سسٹم کے توسط سے انسانوں کی تخلیقی کاوش،جنینی انجینئرنگ،مادہ منویہ کی تجا رت اور ٹیوب بے بی کلچر جیسے مو ضو عات پر کہا نی،ڈرامہ،ناول،نظمیں،کتاب یا علمی مضامین کی وکا لت کی ہے۔ا س کے مثبت و منفی زاویوں سے آگا ہی کو وہ ضروری خیال کر تے ہیں تاکہ آنے والی نسل ”کل سا ئنس اور ٹکنالو جی کی پیدا کر دہ دنیا کے جلتے صحرا اور بے رحم سماج میں انسان اور انسانیت کی سسکتی روح کی حفا ظت کر سکیں گی“۔
اس مضمون میں ایسے کئی سو الات اٹھا ئے گئے ہیں جن پر سنجیدگی کی ضرورت ہے۔انھوں نے محبوب راہی،اسد رضا،مناظر عاشق ہر گانوی اور اسیر دہلوی کی تصنیفات میں جہاں انیسویں صدی کو سا نس لیتے محسوس کیا ہے وہیں وکیل نجیب،با نو سر تاج اور حا فظ کر نا ٹکی کو تا زہ کار کہا ہے۔حالانکہ حافظ کر نا ٹکی کی نظموں میں سطحیت اور فنی لغزش جا بجا نمایاں ہے۔ایک ہی لے،ایک ہی اسلوب اور مو ضو عی یکسانیت سے وحشت ہو تی ہے۔اس مضمون میں ڈاکٹر ظفر کما لی اور التفات امجدی کو نظر انداز کر نا حیران کن ہے۔ان دونوں نے رباعی جیسی مشکل صنف میں ادب اطفال کو فنی اور مو ضوعاتی سطح پر ما لا مال کیا ہے۔جس کی داد بڑے بڑے نقادوں نے دی ہے۔”ٹا فیاں“التفات امجدی کی تصنیف ہے تو ”بچوں کا باغ“(منظوم)اور ”چہکا ریں“(ربا عیوں کا مجموعہ)ڈاکٹر ظفر کما لی کے تخلیقی استعا رے ہیں۔جن میں عصری حسیت کی بہت سی عبا رتیں روشن ہیں۔
”اردو زبان کی پیدا ئش میں ہندوؤں کا حصہ“لسا نی مخا صمت و منا فرت کی ابھرتی فضا میں مفا ہمت و مقاربت کی عمدہ کو شش ہے۔ڈاکٹر کفیل احمد نے تا ریخی حقائق کے سہارہ ہندوؤں کی خدمت اردو اور پیدا ئش اردو میں ان کے کر دار کو قا ری کے شعور کا حصہ بنا یا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ”ہندآریائی کی کھڑی بولی (بشمول مغربی ہندی کی دیگر بو لیاں)کی صورت میں پہلے سے ہی اردو کا ڈول ڈالا جا چکا تھا۔جس کے پیدا کر نے والے اور بو لنے والے ہندو ہی تھے“(ایضا ص ۳۷)
عا لمی ڈراما:تا ریخ و تنقید“اس مضمون میں یو نا نی ڈراما کی تا ریخ،منظر و پس منظر،المیہ و طر بیہ پہلو،اہم ڈراما نویس کے کا رنا موں،اس کے محرکات،مو ضوعات اور تنقیدکی مختصر جھلک دکھا ئی گئی ہے۔مضمون نگار نے صرف یو نا نی ڈراموں کو محور بنا کر عا لمی ڈراما کی تا ریخ و تنقید کا عنوان با ندھا ہے جو یقینا مضمون سے ہم آہنگ نہیں۔عنوان سے جو بھرم قا ئم ہو تا ہے وہ مضمون کے مطا لعے سے ٹوٹ جا تا ہے۔اگر یو نا نی ڈرا ما:تا ریخ و تنقید کا عنوان با ندھا جا تا تو مضمون قاری پر اچھا تا ثر چھو ڑ تا کہ اس کا ذہن عا لمی کے بجائے یونا نی فضا میں با ز گشت کر تا۔اگر مضمون کو یو نا نی ڈراما کی حد تک دیکھا جا ئے تو عمدہ بھی ہے اور مضمون نگار کے تخلیقی شعور اور یو نا نی ڈراموں پر گہری نظر کا عکاس بھی۔
”نجیب محفوظ کی نا ول نگا ری کے امتیازی پہلو:”القا ہر ۃ الجدیدہ“کے خصوصی حوالے سے“یہ مضمون نجیب محفوظ کے مذکورہ ناول کا تجزیاتی مطالعہ پیش کر تا ہے۔ابر ار احمد اجراوی نے یہاں تنقیدی شعور کی لہریں مو جزن کردی ہیں۔بڑے اعماق و امعان سے نا ول پر نظر رکھی ہے اور اسلوب کی سلا ست میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔انھوں نے نا ول کی تہوں میں اتر کر اس اضطراب کو پا لیا ہے جو نا ول نگار کے دروں میں کر وٹیں لے رہا تھا اور جو ناول کا محرک بھی تھا۔گر چہ مضمون کا محور ”القا ہرۃ الجدیدہ“ ہے تا ہم تمہیدی سطور نجیب محفوظ کے دیگر ناولوں سے بھی قا ری کو روشناس کر اتی ہے۔”القا ہرۃ الجدیدہ“پر مصر کے اخلا قی بحران اور معا شرتی انحطاط کی جو فضا لہرا تی ہے۔تجسس،تدبر،تفکر اور تفحص کی جو کیفیت ابھر تی ہے ابرار احمد نے اس کا خوبصورت احا طہ کیا ہے۔اس نا ول کی کہانی جس وا ردات کے گرد گھومتی ہے اور جس پس منظر کو اپنے بطون کا حصہ بنا تی ہے اس کا بیان بھی مضمون کا حصہ ہے۔اسلوب و ادا اور تکنیک کو بھی مطمح نظر بنا یا گیا ہے۔انھوں نے اس نا و ل کو عربی کا انتہا ئی مقبول اور کا میاب نا ول قرار دیا ہے۔
”فراق کی شا عری میں جما لیاتی اقدار اور شکیل الرحمن“مسرت جان نے اس مضمون کے سہارے شکیل الرحمن کی فر اق شناسی کو تجزیہ کا مر کز بنا یا ہے۔شکیل الرحمن نے فراق کی شاعری میں جما لیاتی اقدار کے جن نکات کو مترشح کیاہے مسرت جان نے اس پر عمدہ بحث کی ہے۔آہنگ،شب،رات،شام اور عورت فراق کی شا عری میں جہان معنی کا استعارہ ہے۔شکیل الرحمن نے اس تک رسائی حاصل کی ہے اور پھر اسے جما لیاتی تنا ظر میں پیش کیا ہے۔شکیل الرحمن کو فراق کے ہاں ہر اعتبار سے جما لیاتی اقدار کی پا سداری ملتی ہے۔جیسے خیالات سے مسرت جان نے اپنے مضمون کو اہمیت عطاکی ہے اور تنقیدی شعور کا ثبوت دیا ہے۔ہے۔”القا ہرۃ الجدیدہ“پر مصر کے اخلا قی بحران اور معا شرتی انحطاط کی جو فضا لہرا تی ہے۔تجسس،تدبر،تفکر اور تفحص کی جو کیفیت ابھر تی ہے ابرار احمد نے اس کا خوبصورت احا طہ کیا ہے۔اس نا ول کی کہانی جس وا ردات کے گرد گھومتی ہے اور جس پس منظر کو اپنے بطون کا حصہ بنا تی ہے اس کا بیان بھی مضمون کا حصہ ہے۔اسلوب و ادا اور تکنیک کو بھی مطمح نظر بنا یا گیا ہے۔انھوں نے اس نا و ل کو عربی کا انتہا ئی مقبول اور کا میاب نا ول قرار دیا ہے۔
”فراق کی شا عری میں جما لیاتی اقدار اور شکیل الرحمن“مسرت جان نے اس مضمون کے سہارے شکیل الرحمن کی فر اق شناسی کو تجزیہ کا مر کز بنا یا ہے۔شکیل الرحمن نے فراق کی شاعری میں جما لیاتی اقدار کے جن نکات کو مترشح کیاہے مسرت جان نے اس پر عمدہ بحث کی ہے۔آہنگ،شب،رات،شام اور عورت فراق کی شا عری میں جہان معنی کا استعارہ ہے۔شکیل الرحمن نے اس تک رسائی حاصل کی ہے اور پھر اسے جما لیاتی تنا ظر میں پیش کیا ہے۔شکیل الرحمن کو فراق کے ہاں ہر اعتبار سے جما لیاتی اقدار کی پا سداری ملتی ہے۔جیسے خیالات سے مسرت جان نے اپنے مضمون کو اہمیت عطاکی ہے اور تنقیدی شعور کا ثبوت دیا ہے۔
احساس: کے باب میں محمد حامد سراج،طاہرہ اقبال،نعیم بیگ،نسیم سید،وحید قمر،امین صدرالدین بھا یا نی،سیمیں کرن،ما ہ جبیں صدیقی اور سمیرا احمد کی شمو لیت ہے۔یہ باب توانا اور معتبر ہے۔اس لئے نہیں کہ یہ تمام افسا نہ نگار غیر ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں بل کہ مو ضو ع،اسلوب،تکنیک اور عصری حسیت میں یہ افسانے ایک الگ ہی کیفیات سے معمور ہیں۔چمکیلی چیخ (حامد سراج)قیمتی تا بوت(نسیم سید)لکڑی کی دیوار(نعیم بیگ)اور ٹیکسی ڈرائیور(امین صد رالدین بھایانی)کا فی عمدہ اور متا ثر کن افسانے ہیں جو دیر تک قلب و ذہن میں زندہ رہیں گے۔اس باب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں اردو فکشن کی دنیا کو بلا تمیز سر حدوں کے جو ڑنے کی عمدہ کو شش ملتی ہے۔پاکستا نی افسانہ نگاروں کی اکثریت ہے لیکن ہندوستان کو بالکلیہ نظر انداز کر نا ……!
آہنگ میں ستیہ پال آنند،عادل رضا منصوری،اسلم بدر،ڈاکٹر مینا نقوی،حمیرا راحت،ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب،حنیف ترین،عبدالا حد سا ز عا لم خور شید،علیم صبا نویدی،جمال اویسی،ابراہیم اشک،رفیق راز،سید انصر،محمد عا صم،اسلم حسن،عا لمگیر سا حل،یشب تمنااور تبسم انور کی شعری تخلیقات شا مل ہیں۔نثری نظموں میں ہر ایک اپنے کلا ئمکس کو بحسن خوبی پہنچتی ہے۔تحیر،تجسس اور طلسم ہر ایک میں مو جود ہے۔اسلم بدر نے فا ختہ اور عقاب کے سہارے امن و تحفظ کا جو تصور ابھا راہے وہ ایک تلخ حقیقت کا اظہا ر ہے۔
خطوط میں محمد حامد سراج،مصطفی کریم،جمال اویسی،عبدالاحد ساز،رئیس الدین رئیس،مر غوب اثر فا طمی،ڈاکٹر ریاض تو حیدی،فا روق اعظم قا سمی،رتیکا شر ما اورمسرور حیدری نے ابجد کے حوا لے سے اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے۔زیادہ تر خطوط توصیفی ہے۔کچھ میں گذشتہ شماروں کی خامیوں کو بھی اجا گر کیا گیا ہے۔ان خطوط سے اندا زہ ہو تا ہے کہ ابجد قا ری پر اپنے اثرات مر تب کر نے میں کا میاب ہے۔
فکری انجماد کو تو ڑنا اور ذہنوں کو نئے تحرکات سے آشنا کر نا۔کسی بھی مصلحت اور تصنع کے بجائے ادب کے مسائل و متعلقات پر مکا لمے قا ئم کر نا ادبی رسائل کی اہم ذمہ داری ہو تی ہے۔مشمولات پر مدیر کی گہر ی تنقیدی نظر سے ہی کسی رسا لے کو اعتبار حاصل ہو تا ہے۔ابجد کا  یہ شمارہ ظاہری حسن تو رکھتا ہے مگر با طنی آہنگ زیادہ اطمنان بخش نہیں ہے۔معیار کو مزید بلند کر نے کی ضرورت ہے۔
رضی احمد تنہا اور ڈاکٹر قسیم اختر بجا طور پر لا ئق ستا ئش ہیں کہ وہ ارریہ کی ادبی حسیت کو بر قرار رکھنے کے لئے ابجدکی اشا عت پر خون جگر صرف کر رہے ہیں۔
اقرا پبلک اسکو ل حق نگر سیوان بہار

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں