اور منصور کے ’ حلق بریدہ‘ سے بلند ہوتی رہی ہیں۔ انہوں نے سیاسی ، سماجی ، سفاکیت، آمریت، مطلق العنانیت کے خلاف اپنی شاعری کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے اور عالمی استعماری نظام کے خلاف آواز بھی بلند کی ہے۔ فرقہ واریت، فسطائیت کے خلاف بھی انہوں نے اپنی تخلیقی توانائی کا استعمال کیا ہے :
بھر رہا تھا زہر وہ معصوم ذہنوں میں مگر
ہم پہ نفرت گھولنے کا جرم عائد ہو گیا
٭
ہندو کوئی تو کوئی مسلمان بن گیا
انسانیت بھی مذہبی خانہ میں بٹ گئی
٭
بچوں پہ ایسا جادو چلا ہے نصاب کا
اکبر کا نام لینے لگے غزنوی کے ساتھ
٭
کہیں بھی قتل ہو کیسی عجیب سازش ہے
لہو میں ڈوبی ہوئی مری آستین لگے
ان کی تخلیق کا توانائی نظام انتہائی متحرک اور فعال ہے۔ ان کے یہاں بصیرت اور آگہی کی وہ بلند سطح ہے جو ماضی اور مستقبل پر نگاہ رکھتی ہے۔ ان کا آئینہ ادراک روشن ہے جس میں وہ ماضی کے کے ساتھ مستقبل کی آہٹوں کو بھی محسوس کرتے ہیں۔
فریاد آزر کی شاعری میں عصر حاضر کے مسائل کا اظہار ادراک ہے اور یہی عصری حسیت اور آگہی ان کی شاعری کو نقطہ انفرادیت عطا کرتی ہے۔ اس میں ایک آفاقی شعور بھی ہے، ژرف نگاہی اور باطنی روشنی(Inner Light)بھی جو آج کی تخلیق میں کم نظر آتی ہے۔ معاشرہ کی تمام متضاد اور متخالف لہروں کو انہوں نے اپنی شاعری میں سمولیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں ایسے نقوش مرتسم کر دئے ہیں جو سماج اورسیاست کی راہوں میں بھٹکنے والوں کو بھی صحیح سمت کا اشارہ دیں گے اور انہیں منزل مراد تک پہنچا دیں گے۔
فریاد آزر کا تہذیبی ، سماجی ، سیاسی، شعور پختہ ہے اور شعور کی مختلف سطحیں ان کے تخلیقی نظام سے مربوط اور منسلک ہیں۔ اسکا ئی اسکر یپر کلچر کے اس عہد میں چھوٹی چھوٹی زمینی حقیقتوں اور ارضی صداقتوں کو فنکارانہ انداز میں پیش کرنا اور قاری کے احساس و ضمیر کو مرتعش کرنا بہت بڑی بات ہے :
٭
دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید
٭
مجھے اب اور سیاروں پہ لے چل
میں گلو بل گانوں سے اکتا گیا ہوں
٭
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوبصورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
٭
اس قبیلے کے لہو میں ذائقہ اتنا لگا
جس کو بھی دیکھا اسی کے خون کا پیاسا لگا
٭
اب تو ہر شہر ہے اک شہرِ طلسمی کہ جہاں
جو بھی جاتا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے
٭
سب حقائق مجھ سے بھی پہلے کہیں موجود تھے
میں سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ مری ایجاد ہے
٭
تخلیق کی سطح پر ایقاظ اور بیداری کا جو فریضہ فریاد آزر نے انجام دے رہے ہیں، آج کی بے حسی کے دور میں بہت سے فنکار اپنی ذ مہ داری کے احساس تک سے محروم ہیں۔ انہیں ’احساسِ زیاں ‘ ہی نہیں تو پھر معاشرتی، سماجی، اقدار کے تحفظ کا خیال کہاں سے آئے گا۔ فریاد آزر تخلیق کے منصب سے باخبر ہیں اور اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ۔ اس لئے وہ اپنی تخلیق کے ذریعہ ہر سطح پر ابنِ آدم کو کائنات کے مسائل اور اس کی پیچیدگیوں سے آگاہ کر رہے ہیں۔ ان کی پوری شاعری مقصدیت سے معمور ہے وہ گل و بلبل کی داستاں ، یا فسانۂ شب ہائے دراز، پر یقین نہں رکھتے بلکہ آج کی سفاک جاں گسل حقیقتوں کو اپنی شاعری کا موضوع اور تخلیق کا مرکزی نقطہ قرار دیتے ہیں اور اسی محور پر ان کی شاعری حیات و کائنات کے مختلف مسائل اور موضوعات کا طواف کرتی رہتی ہے ۔ ’طوافِ کوچۂ جاناں ‘کے بجائے ’غم دوراں ‘ سے ہی آج کی شاعری معتبر اور منفرد قرار پاتی ہے۔
فریاد آزر کی شاعری میں یہی ” غم دوراں ، عذاب جاں، آشوب” عصر اپنی تمام تر تخلیقی منطق، معروضیت اور فنی، فکری ہنر مندی کے ساتھ موجود ہے۔
٭٭٭
This entry was posted in
پیر، 27 جولائی، 2015
تخلیقی اڑان کا بقیہ
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں