Hayyan Khan
میں ۔۔۔ انسان ۔۔۔ حیوان ۔۔۔ یا شیطان ؟
کیا میں انسان ہوں..؟ کیا میں انسانیت کے رشتوں کی قدر و قیمت سے اگاہ ہوں…؟رحمن و رحیم نے انسان کو اشرف المخلوقات کا پرنور تاج پہنایا..مگر کیوں…؟کیا کلمہ طیبیہ کی ورد زبانی اور دن میں پانچ مرتبہ مسجد کی دھلیز پر سجدہ جاریہ کرنے سے خدائی فرامین کی سپاس گزاری اور تابعداری کا زادہ راہ مل جاتا ہے..کیا اسلام کے حق میں سخن وری کے طومار باندہ کر میں اسوہ حسنہ کا سچا پیروکار بننے کا دعوی کرسکتا ہوں……….کیا میں انسان شیطان و حیوان کا فرق ملحوظ خاطر رکھنے کا ملکہ رکھتا ہوں…..؟ کیا میرے سینے میں دل ھے..اگر ھے تو پھر وہ ترپتا کیوں نھیں…لزرتا کیوں نھیں……؟ کیا میری انکھیں بصیرت و بصارت کی نعمتوں سے لبریز ھیں……؟ اگر ھیں تو پھر یہ چشم کشائی کی دولت سے سرفراز کیوں نھیں…..؟ اگر میرا دماغی توازن درست ہے تو پھر اس میں افکار کی جوت کیوں نھیں پھوٹتی….؟ میں اپنی باضمیری اور راست گوئی کے احساس تفاخر میں مبتلا رھتا ہوں…کیا میں یہ دعوی کرسکتا ہوں کہ میرا ضمیر زندہ ہے…کیا میری سوچیں صاف و شفاف احتساب کرنے کی صلاحیت رکھتی ھیں….؟
صاحبو…. یہ وہ آتش بداماں سوالات ھیں جو اکثر اوقات میر ے سینے میں کلابلاتے رھتے ھیں… لیکن بدقسمتی تو یہ ھے کہ دنیاوی حرص و ہوس نے میرے دل و دماغ پر اکاس بیل کی طرح اپنی جڑیں پیوست کر رکھی ھیں…میں نے کبھی محولا بالا سوالات کے جواب ڈھونڈنے کی زحمت ہی نھیں کی..لیکن اگر صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ کر ائے تو اسے بھولا نھیں کہتے……
آؤ….صاحبو حقائق کے آئینے میں اس فکر و فلسفے کو جانچنے پرکھنے کی کوشش کرتے ھیں.سقراط نے کہا تھا کہ اگر انسان بننے کی تمنا رکھتے ہوتو اپنے آپکو پہچانو..کنفیوشس نے کہا تھا دانا وہ ہے جو اپنے گریبان میں جھانکے..سچ تو یہ ہے کہ جب میں نے ارگرد پہلے ہوئے سماجی تہزیبی..معاشرتی مزہبی حلات ووقعات کی روشنی میں جب اپنے دامن پر طائرانہ نظر ڈالی تو میں ششدر رہ گیا کہ جن اوصاف کو بنیاد بنا کر میں اپنے آپکو شرف انسانیت کا سب سے بڑا پیروکار سمجھتا ہوں وہ تو مجھے ابلیسیت و حیوانیت کا ہم پیالہ و ہم نوالا بناتے ھیں.میں شتر مرغ کا بھائی ہوں……شتر مرغ وہ بلا ہے جو نہ تو اونٹ کہلایا جاسکتا ہے اور نہ ہی مرغ….میرا دل پتھر بن چکا ہے….بے حسی و بے حمیتی نے میرے رگ و ریشے میں اندھیرے بھر دئیے ھیں.خون سفید ہوگیا..جسم میں دوڑنے والی یقین محکم کی بجلیاں تاریکیوں کی نزر ہوگئیں..حرارت ایمانی کشید ہوگئی.میں دنیاوی الائشوں کی دوڑ دھوپ میں خودغرضی…دجل و فریب…کزب بیانی…طوطا چشمی کا پیکر بن گیا..میں اپنی دنیا میں مست رھتا ہوں..میرے ارد گرد استحصال کے تازیانے برستے ھیں…خون کے دریا بہہ رہے ھیں۔
بھائی بھائی کا گلا کاٹ رھا ھے..گورے و صلیبی سورما آسمانوں سے آتش و آہن کی ژالہ باری کرتے ھیں..معصوم لوگ تکہ بوٹی بن رہے ھیں..انسانی جسم کامقدس گوشت چیلوں کی خوراک بن رھا ہے..قریہ قریہ شہر شہر بھیڑیے خود کش بمباروں کے روپ میں انسانیت کے بخئیے ادھیڑتے ھیں..ہر طرف ظلمت کدے آباد ھیں..چاروں طرف دھاڑ و فریاد ہے ..کوئی روٹی کے لئے بلک رھا ہے ..تو کوئی دوائی کے لئے سسک رھا ہے…..کوئی بے روزگاری کا روگ تھامے سارا دن دفاتر کی خاک خاک چھان چھان کر ادھ موا ہوگیا ہے تو کوئی عدلیہ کے دروازوں پر انصاف انصاف کی صدا ہانک کر کومے میں جاچکا ہے.ہے کوئی تھانوں کی سلگتی جہنم میں قانون کے رکھوالوں کی بربریت سے بچاو بچاو کی ہاہاکار مچائے ہوئے ھے.قانون کے متوالے ڈاکو اور سیاست کے پروانے لٹیرے اور جغادری اور مداری بن چکے.انسانیت مر رہی ہے لیکن سرکار کے سلطان العارفین سے لیکر حکومتی مندروں کے پنڈتوں تک اور بادشاہت کے سلطان الفقرا سے لیکر خاکیوں کے سرخیلوں تک اپنی رنگینیوں کا میلہ جمائے ہوئے ھیں.
ہم سے تو ہینری ڈوزیان لاکھ درجے بہتر تھا .. جس نے دوصدیاں قبل سالفرینو کے مقام پر اٹلی اور فرانس کے درمیان لڑی جانے والے جنگ کے زخمیوں کی امداد و استعانت کے لئے اہل علاقہ کو یوں پکارا تھا…….جلدی کرو…باہر نکلو ….خون بہہ رھا ہے..انسانیت مرر ہی ہے ..اسے بچا لو…تم نہ آئے تو یہ مرجائے گی.(یاد رہے یہ وہی تھا جس نے اسی سانحہ جانکاہ کے بعد ریڈ کریسنٹ نامی تنظیم قائم کی تھی جو آج بھی میدان جنگ میں انسانیت کو بچانے کا جتن کر تی ہے…؟میں نہ تو کسی دوسرے انسان پر ڈھائی جانے والی قیامت صغری پر انسو بہاتا ہوں اور نہ ہی کسی دوسرے غم ذدہ کا دکھ بانٹنے کی تکلیف کرتا ہوں. میری جبلت میں بے رحمانہ حیوانی شرست شامل ہوگئی. میں قاتل کے روپ میں خون کے دریا بہاتاہوں.میں خود کش بمبار بن کر معصوم و یگانہ روزگار ہستیوں کو موت کی وادیوں میں دھکیلتا ہوں. ہزاروں نازک انداموں و نوخیز بچوں کو یتیمی کا لبادہ پہنا کر بھی میرے ماتھے پر احساس ندامت کی پرچھائی نمودار نھیں ہوتی. میں ن
نمودار نھیں ہوتی. میں نے ایک طرف خود کش بھیڑیے کے روپ میں فخر پاکستان و دختر مشرق کو خون کا کفن پہنا دیا تو دوسری طرف میں نے ایجنسیوں کے ماہرین کی روح میں داخل ہوکر اس کیس کو کھوہ کھاتے لگا دیا.. میں روزانہ قبرستانوں کا رزق بننے والے لوگوں کے جنازے اٹھتے دیکھتا ہوں لیکن مجھے اپنی موت یاد نھیں.میں اپنے بچوں کو پجارو گاڑیوں میں سکول چھوڑنے جاتا ہوں.انھیں منرل واٹر پلاتا ہوں. انکی اعلی تعلیم و تربیت کے لئے میں دفاتر میں رشوت بٹورتا ہوں.کاروبار میں زخیرہ اندوزی..ہیرا پھیری..ملاوٹ اور مہنگائی کے گر ازماتا ہوں. تاکہ میری وراثت کے گدی نشین اعلی سرکاری عہدوں پر جلوہ گر ہوں. لیکن میرے سامنے روزانہ ہزاروں پھول سے بھی نازک نظر بچے گند کے ڈھیر سے روٹی کا نوالہ ڈھونڈتے رھتے ھیں.لیکن میرے دل میں رحم کی کونپل نھیں پھوٹتی. حالانکہ میرا بریف کیس کڑوروں سے لبا لب بھرا ہوتا ہے. ہر سال بسنت میں قاتل ڈور درجنوں ہم وطنوں کی شہہ رگ کاٹتی ہے.مائیں بسنت کے قہر کا نشانہ بننے والے بدنصیبوں کی لاشوں پر بین ڈال رہی ہوتی ھیں. لیکن میں قانون کے پاسبانوں اور تھانیداروں کے روپ میں اپنی سرپرستی میں خونی کھیل کے کامیاب انعقاد کا فریضہ پوری دیانتداری سے انجام بھی دیتا ہوں اور دیہاڑی بھی کھری کرتا ہوں..
تہزیب و ثقافت کی آڑ میں پورا ملک فحاشی و عریانی کاگڑھ بنا ہوا ہے.نوجوان نسل کیبل نیٹ ورک کی مہربانیوں سے ہندوانہ و انگریزانہ تعلیمات کی پرچارک بنی ہوئی ہے.لیکن میں بادشاہ سلامت کے روپ میں اسے روشن خیالی اور جدید و نایاب ..و ناگزیر ضرورت سمجھ کر اس کے تابڑ توڑ پھیلاو کے لئے نت نئے آرڈیننس جاری بھی کرتا ہوں اور پیروکاری و نقالی بھی کرتا ہوں..میں قدم قدم پر اسلامی فرا مین و قوانین کو مسخ کرتا ہوں.رحمن و رحیم کانام لیتا ہوں..لیکن تابعداری نھیں کرتا. حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام آنے پر انکھوں سے عقیدت کے انسو تو بہاتا ہوں لیکن اسوہ حسنہ کو فراموش کر چکا ہوں..میں روزانہ ایسی دلسوز فلمیں دیکھتا ہوں جنکے مناظر میں وحدانیت خدا…بندگی رسول اور احترام انسانیت کی تزلیل و تکزیب ہوتی ہے.. لیکن میں خاموش تماشائی بن کر اپنی راہ لیتا ہوں.مغربی میڈیا یا دشمنان دین اسلامی شعائر کو تکزیب کے پھانسی گھاٹ پر چڑھاتے ہیں تو میری ایمانی غیرت یک دم جاگ اٹھتی ہے اور میں ساتھیوں کے ہمراہ لٹھ لیکر سڑکوں پر آجاتا ہوں اور اپنے بھائیوں کی دوکانوں اور سرکاری املاک اور اپنے ہی گلشن کو راکھ کا ڈھیر بنا دیتا ہوں.تاکہ دنیا والوں پر میری جہادی قوت اشکار ہو.لیکن اس وقت مجھے سانپ سونگھ جاتا ہے جب میری انکھوں کے سامنے قرانی فکر و فلسفے کے برعکس اقدامات اٹھائے جاتے ھیں.
کیا قران فرقان کی اس آئینی شق کے تناظر میں یہود و ہنود کو اپنا دوست بنانا.وائٹ ہاوس کے خوانخوار سرداروں کی چاکری کرنا..دہشت گردی کے نام پر صلیبیوں کے مفادات کی دربانی کرنا..اپنے ہم جولی مسلمانوں پر جنگ مسلط کرنا..امریکیوں کی دست نگری کرنا توھین رسالت نھیں..کون کہتا ہے کہ پتھر کا زمانہ لد چکا…ہمارے ہاں یہ پوری آن بان سے محوخرام ہے….رومن دور کے دیوتا انسانوں کو بھوکے شیروں کی شکم سیری کا نشانہ بناتے تھے.اب صدیوں کے بعد صرف انداز بدل گئے لیکن مشن و کام یکساں ہے..ماضی کے مجاہدین پر ہم نے انتہاپسندی کا لیبل لگا کر ان کے خلاف معرکہ ارائی ہورہی ہے.ہمارے بنائے ہوئے جہادی مجاہدین کو ہم خود گرفتار کر کے گوانتاناموبے کے ٹارچر سیلوں میں بھیج رہے ھیں.ہمارا پیارا دیس طوائف الملوکی و جنگل کاشاخسانہ بن گیا ہے.ہماری اسلامی مملکت کا شمار دنیا کے ٹاپ ٹین ممالک میں ہوتا ہے.جمہوریت کا پودا کنجوس کے گھر آئے ہوئے مہمان کے کملائے ہوئے چہرے کی طرح کملا چکا ہے.قانون..نشان ظلمت..قانون ساز ادارے…قانون شکنی کی یونیورسٹیاں. اور مچھلی بازار کے تھڑے .مدرسے نام نہاد جہاد اور خود ساختہ اسلام کے گڑھ…سیاست…تجارت ..سیاست دان……بنارسی ٹھگ.سامری جادوگر..آئین گھر کی باندی..عدالتیں…..ناانصافی کے مندر…..تعلیم….انگریزوں کی زہنی مرعوبیت کا درس…مساجد کی اکثریت…فرقہ واریت کے کالج..سرکاری دفاتر..اقرباپروری کے تھیٹر..الیکشن…..کزب بیانی…دھوکہ دہی..و سبز باغ دکھانے اور جھوٹ بولنے کے مقابلوں کے میدان…
بھگت کبیر نے کہا تھا کہ دل جب پتھر بن جائیں تو تب اس میں رحم کے چشمے نھیں پھوٹا کرتے..ابراہیم لنکن نے کہا تھا کہ جبریت کی گھٹن اور غربت کی فضاوں میں تندرست نظر آنے والے زہنی عزیت کے مریض بن جاتے ھیں..میرے ارد گرد ایک ایسا تاریک جنگل پھیلا ہوا ہے جہاں اشرف المخلوقات کی شکل کے درندے کمزور انسانوں کا خون چوستے ھیں.. میں اس جنگل کے بادشاہ کی شکل میں اپنی شاہانہ کچھاروں میں سارا دن موج مستی کرتا ہوں..میں سونے کے دیسی گھی میں پکائے گئے انواع قسم کے کھانوں سے لطف اندوز ہوتا ہوں.. لیکن کمزور
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں