بدھ، 9 ستمبر، 2015

انجم کمال

9, 2015
مقابل اداریہ
حدیثِ عرب وعجم۔۔۔۔۔ڈاکٹر انجم کا کمالِ فکر و فہم
سرحدِ ادراک
پروفیسربشیر احمد نحوی
ریاست اور بیرونِ ریاست علمی، فکری اور دینی سطح پر نکتہ شناسانِ علم و آگہی اور داعیانِ فکرِ اسلامی وقتاً فوقتاً سنجیدہ نوعیت کے تحریری کار نامے منظر عام پر لارہے ہیں جو راہ جویانِ علم اور تشنگانِ دین و دانش کے لئے کوثر و نسیم کے آبِ رحمت سے کچھ کم نہیں ہیں۔راقم السطور ہر ماہ کوئی نئی اور معیاری کتاب خرید کر پڑھنے کا بچپن سے عادی رہا ہے۔ چنانچہ علماء و اُدبا کی طرف سے علم دوستی کے جذبے کے موافق تحفتہً بھی کتابیں موصول ہوتی رہتی ہیں۔ حال ہی میں بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کے صدر شعبہ عربی ڈاکٹر شمس کمال انجم ؔکی ایک کتاب ’’ حدیث عرب وعجم ‘‘ کے مضامین و موضوعات دیکھ کر دل باغ باغ ہوا اور موصوف کے ذوقِ مطالعہ کا بھر پور احساس ہوا ۔ شمس کمال بڑے خوش نصیب ہیں کہ عربی زبان سیکھنے کے سلسلے میں انہیں کئی سال مدینہ منورہ میں قیام کا موقعہ ملا ہے اور ان گلیوں اور بازاروں سے گذرنے کا شرف حاصل ہوا ہے، جہاں آقائے دو جہاں ؐ کا ورودِ مسعود ہوا۔ مدینہ وہی شہر ہے جس کی مٹی کو علامہ اقبالؒ کو دو جہانوں سے قیمتی، آنکھوں کا سرمہ، اور جسے’’ مسکنِ یاراَست و شہرِ شاہِ منؐ ‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ شمس انجمؔ کا غیر مطبوعہ نعتیہ مجموعہ ’’ بلغ العلیٰ بکمالہ‘‘ کا ایک نسخہ میرے سامنے ہے، جس کو پڑھ کر موصوف کے حبّ ِ رسولؐ کی عکاسی ہوتی ہے  ؎

؎وہ فخر جہاںؐ  گذرے ہیں جس راہ گذر سے

ہر ذرّہ منوّر ہوا قدموں کے اثر سے

جو شہر بنا مرکز انوارِ رسالتؐ

ہر آنکھ اسی شہر کے دیدار کو ترسے

                        (انجمؔ)

"حدیثِ عرب و عجم‘‘ علمی، ادبی اور دینی موضوعات پر ڈاکٹر، شمس کمال انجمؔ کے فکر و فہم کا ایک نہایت ہی خوبصورت گلدستہ ہے جسے کمال صاحب نے بڑی سلیقہ مندی سے آراستہ کیا ہے۔چار ابواب پر مشتمل اس مجموعۂ مضامین میں کل ستائیس موضوعات میں شامل ہیں اور ہر موضوع اپنے اندر فکری تنوع بھی رکھتا ہے، علم و آگہی کے سر چشموں سے مصنف کی دلچسپی کا مظہرہ بھی ہے اور اپنے اندر معلومات کا ایک دفتر سموے ہوئے ہے۔ ان موضوعات پر اس سے پہلے بھی کئی ادباء نے اظہارِ خیال کیا ہے، لیکن شمس کمال صاحب نے موضوعات میں ایک جدت اور شگفتگی پیدا کی ہے۔ عربی زبان کی ابتدا اور ارتقا ء پر درجنو ںکتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور قرآن پاک کے معانی اور لسانی محاسن پر عالمی شہرت یافتہ علماء نے اظہار رائے کیا ہے، چنانچہ شمس کمال انجم قرآن مجید کی انفرادیت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"قرآن کریم وہ معجز نما کتاب ہے جس کی فصاحت و بلاغت اور زبان و بیاں عربوں کا سرمایہ ٔ افتخار ہے، جس نے عربوں کو نہ صرف ایک دستور حیات عطا کیا، بلکہ اپنے مفہوم اور معانی و مطالب کی تاثیر اور گہرائی سے ان کے دلوں میں گھرکر لیا۔ پوری عرب قوم مل کر اس کی کسی آیت کی نظیر و مثیل نہ لاسکی۔ یہ وہ کتاب ہے جس کا اسلوبِ بیان نہ تو مقفیٰ و مسبحع نظم کی مانند ہے اور نہ ہی ایسی مسبحع نثر جس کے ہر جملے کا آخری لفظ اس کے پہلے والے جملے کے آخری لفظ کے ہم وزن اور ہم آواز ہوتا ہے۔ نہ ہی ایسی بے تکلف نثر جس سے عبارت سیدھی سادی اور بغیر قافیہ بندی کے لکھی جاتی ہے، جس کا طرز تخاطب، طریقِ استدلال اتنا موثر ، سحر طراز اور معجز نما ہے کہ جو بھی سنتا ہے اس کے آگے سپر ڈال دیتا ہے‘‘۔

عرب دنیا میں علامہ اقبال ؒ کی فکر و نظر پر مولانا علی میاںؒ، مولانا محسن عثمانی ندوی اور پروفیسر محمد منور نے بہت ہی عمدہ نوعیت کے مضامین قلمبند کئے ہیں لیکن شمس انجمؔ نے کتاب کے باب اول میں ’’شاعر مشرق کے خوشہ چیں عجم ہی نہیں عرب بھی دامن گرفتہ‘‘ کے عنوان سے تفصیلی بحث کرکے عربی زبان کے اہم ادبیوں اور عالموں کے ان آراء و تاثرات کا تجریہ کیا ہے جو اقبا ل کے حوالے سے عرب دنیا کے ادیبوں نے ظاہر کئے ہیں ۔ مشہور مصری عالم سید قطب شہیدکی تفیسر’’ فی ظلالِ القرآن ‘‘میں اقبال کے فکر کی طرف اشارہ بھی ملتا ہے۔ انجم صاحب اپنے اس اہم معلوماتی مضمون میں رقمطراز ہیں:

"مشہور مصری ادیب علی طنطاوی نے علامہ کے حوالے سے متعدد مضامین لکھے۔ جامعہ کے شیخ الجامہ المراغی نے اقبالؒ کے فکر و فن پر قلم اٹھایا۔ مصری مغنیہ ام کلثوم نے علامہ کے شکوہ کو اپنی مخصوص آواز میں گایا ہے۔ بعض ناقدین نے مصر کے سب سے بڑے شاعر اور امیر اشعراء احمد شوقی اور حافظ ابراہم جیسے شعراء کوبھی علامہ کے مقابلے میں رکھا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ علامہ کے فکر کی پاکیزگی، ان کے فن کی عظمت اور ان کا شعری مرتبہ و مقام عربوں کے لئے اظہر من الشمس ہے۔ عالمِ عرب میں اقبال شناس کا جو دور عبدالوہاب عزام سے شروع ہوا تھا تاہنوذ وہ سلسلہ قائم ودائم ہے اور علامہ کے فکر وفن پر اتنا کچھ لکھا، پڑھا ا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں