اولاد کی تعلیم و تربیت کے دو مدرسے
ایک مدرسہ ماں کی گود ہے، جہاں اس کی تربیت ہوتی ہے، یہاں معلمہ مربیہ خود اس کی ماں ہوتی ہے اور یہی بچہ کا پہلا مدرسہ ہے، اس مدرسہ میں جیسی تربیت ہوگی اسی طرح کے اثرات بعد کی زندگی میں مرتب ہوتے چلے جاتے ہیں اور دوسرا مدرسہ درودیوار کا مروجہ مدرسہ ہے، جہاں اس کا مربی معلم اور استاذ ہوتا ہے۔
پہلے زمانے میں ماں باپ بچوں کے ہاتھ میں پیسہ دے کر صدقہ کرایا کرتے تھے، تاکہ ان کے دل سے مال کی محبت نکلے ،بخل کی عادت نہ ہو، اور غریبوں کی ہم دردی کا مزاج بنے، اس طرح بچپن ہی سے نمازوں کا شوق وذوق ان کے اندر پیدا کرتے تھے، خو د حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب بچہ سات برس کا ہوجائے تواسے نماز پڑھنے کو کہا جائے اور جب دس برس کا ہوجائے اور نماز نہ پڑھے تو اس کو تنبیہ کی جائے ۔
حدیث شریف میں ہے کہ ماؤں کو چاہیے کہ بچوں کی تربیت کی فکر حمل کے زمانے ہی سے کرتی رہیں، آج کتنے ماں باپ ایسے ہیں کہ ان کو اپنی اولاد سے شکایت ہے کہ اولاد کہنا نہیں مانتی، ماں باپ کے علاوہ سب کی بات سنتی ہے، یہ بھی تو دیکھو کہ آپ نے اسی طرح تربیت کی تھی، یا نہیں؟ پہلے زمانے میں لوگ سمجھتے تھے کہ اولاد بنے گی تو میری وجہ سے، بگڑے گی تو میری وجہ سے، اس زمانے میں لوگ سمجھتے ہیں کہ بنے گی تو خود بنے گی اور بگڑے گی تو خودبگڑے گی، جس کا نتیجہ لامحالہ یہی نکلے گا کہ اولاد تو بھگتے گی ہی، ماں باپ کو بھی بھگتنا پڑے گا، آج کل اولاد کی وجہ سے لوگ کتنے پریشان ہیں؟ اس کی وجہ صحیح تربیت نہ ہونا ہے، جب کہ اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، بہر حال آج کا سب سے بڑا المیہ اور فکر یہ ہے کہ اولاد کی صحیح تربیت کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے صالح معاشرہ وجود میں نہیں آرہا ہے اور جب صالح معاشرہ وجود میں نہیں آئے گا تو جرائم کی کثرت ہوگی۔
بچپن کی صحیح تربیت مستقبل میں کام یابی کی ضمانت
بچپن کی مثال ہمیشہ کمہار کی کچی مٹی سے دی جاتی ہے، بچوں کے کمہار اساتذہ اور والدین ہوتے ہیں، ان کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ یہ بچے بڑے ہوکر مستقبل میں ملک وملت کا نام روشن کریں، کوئی بھی والدین یہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے ناکام ہوں، یہ فرض ہے کہ بچوں کی صحیح تربیت کریں اوراس کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت نہیں، بلکہ صحیح اور منظم طریقہ سے ہم ایسی عادات کا بچوں کو خوگر بنائیں ،جس کے وہ عادی ہوجائیں، مثلاً معمولی غلطیوں کو بھی نظر انداز نہ کریں، بیجا لاڈ پیار کی وجہ سے بچپن کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگذر نہ کریں، کھیل کود کے لیے وقت مقرر کریں، بچپن ہی سے نماز کی عادت ڈلوائیں، صحابہ کرام کے سچے واقعات سنائیں، ادعیہ مسنونہ یاد کرائیں ،اگر مائیں اس طرح کا نظم وضبط کا خیال رکھتے ہوئے بچوں کو اچھی اچھی عادات اور اطوار کی عادی بنائیں گی تو جلد ہی اس کا اچھا اثر بچوں میں ملاحظہ فرمائیں گی، کیوں کہ مستقبل میں یہی عادتیں کام یابی کی ضمانت ہوتی ہیں۔
نئی نسل کو اسلامی ماحول اور دینی تربیت کی ضرورت
آج مسلمانوں کے بچے دینی تعلیم و تربیت کے اعتبار سے کافی پستی میں ہیں اور ان بچوں کے حق میں دین سیکھنے کا دروازہ بند ہوتا جارہا ہے، چوں کہ عصری تعلیم میں مذہبی عقائد کا ذکر نہیں ہے، مسلمانوں کے بزرگوں اور دینی پیشواؤں کا تذکرہ نہیں ہے اور اسکولی نصاب میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو مسلمانوں کے عقیدوں کے خلاف ہیں، اس میں دوسرے مذہب کے پیشواؤں کا تذکرہ اس انداز سے ملتا ہے کہ پڑھنے والے بچوں کے دلوں میں ان کی عظمت کا سکہ بیٹھ جائے اور بچوں کے سادہ ذہن پر دوسرے مذہب کے خیالات اور عقیدوں کی چھاپ لگ جائے ،انسانی فکر پرتعلیم کے ساتھ ساتھ ماحول کا بڑا گہرا اثر ہوتا ہے، بلکہ بعض اوقات ماحول کا اثر تعلیم سے بھی بڑھ جاتا ہے، کیوں کہ اسکولوں میں ہندو مذہب کی بنیاد پر تیار شدہ ڈرامے، ناچ گانے کی مشقیں ، کہیں کہیں رام لیلا اور دوسرے ہندو تہواروں کے منانے کے لیے خصوصی پروگرام، غرض کہ پورا ماحول بچے کے ذہن پر اثر ڈالتا ہے اور بتدریج اپنے سانچے میں ڈھال لیتا ہے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ بچوں کو اسکول میں داخل کرادینے کے بعد مطمئن ہوجاتے ہیں اور پھر سوائے فیس ادا کرنے یا امتحان پر بچوں کا نتیجہ معلوم کرلینے کے وہ بچوں کی دینی واخلاقی نگہ داشت کے بارے میں کوئی تعلق نہیں رکھتے۔
تادیب میں احتیاط
ماہرین کا کہنا ہے کہ مار پیٹ بچوں کی نشو ونما کے لیے نقصان دہ ہے، حد سے زیادہ زد وکوب بچوں کی شخصیت کو بری طرح متاثر کرتا ہے، اگر چہ والدین کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ بچوں کی اصلاح کے لیے انہیں ہلکی پھلکی سزا دیں، لیکن مارپیٹ اور جسمانی تشدد نہیں کرنا چاہیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں