اتوار، 4 اکتوبر، 2015

رپورتاز

رپورتاژ فرانسیسی کا لفظ ہے -انگریزی زبان میں اس کے لئے رپورٹ کا لفظ استعمال ہوتا ہے -اس صنف میں لکھنےوالا نہ صرف کسی اہم واقعہ یا حالات ، کسی سفر کا حال، میلے، ٹھیلے، حادثہ یا کسی جنگ کے محاذ کی رپورٹ بیان کرتا ہے بلکہ وہ ان واقعات کی جزئیات و تفصیلات میں اپنے نقطۂ نظر اور تخیل کی آمیزش بھی کرتا ہے یعنی کسی حادثے ، مقام اور واقعہ کودیکھ کر جو مصنف کے دل و دماغ پرگزرتی ہے اسے بعینہ رقم کردیتا ہے(صداقت اور خلوض کی ضرورت) - رپوتاژ کاتعلق ماضی اور مستقبل کے بجائے حال سے ہوتا ہے -مصنّف چشم دیدواقعات و مشاہدات کو اپنی داخلی کیفیات کےساتھ شامل کرکے پیش کرتا ہے -رپورتاژ کے مصنّف کی آنکھ کیمرے کی آنکھ کی مانند ہوتی ہے- لیکن کیمرے کی تصویر میں مصنّف کی تصویر جیسا جذبہ ، خلوص ، جوش و شوق اور سوز و ساز نہیں ہوتا- مفہوم یہ ہے کہ رپورتاژ ایک ایسے پودے کی مانند ہے ،جس کی جڑوں کو صرف اور صرف سچائی ،خلوص اور اندرونی جذبے کے پانی کی ضرورت ہوتی ہے -
*رپورتاژ :
مختصر یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک ایسی صنف ہے جس میں خارجیت اور داخلیت کا ایک حسین امتزاج ہوتا ہے وہ ایک دوسرے سے شیر و شکر ہوتی ہیں اور دونوں ہی اس صنف کے معیار کا تعین کرنےکی ذمّہ دار ہوتی ہیں -
رپورتاژ صرف چشم دید واقعات پرلکھاجاسکتا ہے -سنے سنانے واقعات پرلکھی گئی کوئی تخلیق ،افسانہ ،ناول یا ڈرامہ تو ہوسکتی ہے - رپورتاژ نہیں -
رپورتاژ دورجدید کی پیداوار ہے - رپورتاژ اور صحافت کاچولی دامن کاساتھ ہے - برّصغیر کی تقسیم کے وقت سکھوں نے مسلمانوں سے جوخون کی ہولی کھیلی - پاکستان داخل ہونے والی مسلمانوں کی گاڑیاں کی گاڑیاں تباہ کی گئیں - مسلمان عورتوں اوربچوں پرجو طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے تو اس جامع اور ہمہ گیر صنف نثر نے اپنے اندر ان ہنگامی اورخون آشام موضوعات کو سمیٹنا شروع کردیا - اس وقت جورپورتاژ لکھے گئے ان میں جمناداس کا " خدادیکھتا ہے " شاہداحمد دہلوی کا " دہلی کی بپتا " اور تاجور سامری کا "جب بندھن ٹوٹے " مشہور ہیں -
جدید دور میں رپورتاژ کو جن چیزوں نے ترقی و خوشحالی بخشی ،ان میں زمانے کے انتشار،معاشی وسیاسی کشمکش ، جنگ اور سیلاب کی تباہ کاریاں،سپرپاورز کےمابین بڑھتی ہوئی جدید اسلحے کی دوڑ اور سٹاروار جیسے پروگرام بہت اہمیت کے حامل ہیں-
رپورتاژ کاکینوس جنگ اورفسادات تک ہی محدود نہیں بلکہ ان کے علاوہ ادبی تقاریب ،تہذیبی جلسوں اورسیر و سیاحت پر بھی بڑے خوبصورت رپورتاژ لکھے گئے-ادبی اور تہذیبی جلسوں پر یادیں ( ظہیر سجاد )، صبح ہوتی ہے ( کرشن چندر)، خزاں کے پھول ( عادل رشید ) ، بمبئی سے بھوپال تک ( عصمت چغتائی ) مشہور ہیں - سیر و سیاحت پر جو رپورتژ سامنے آئے ان میں، اور زمین اور پانچ ستارے( خواجہ احمد عباس )، الف لیلی کے دیس میں ( ظفر پیامی ) ، پاکستان میں چند روز ( ظ انصاری ) اور برسبیل لندن ( محمود نظامی ) قابل ذکر ہیں -
اس کے علاوہ اردو میں رپورتاژ لکھنے والوں میں حمید نظامی ، عنایت اللہ ، حمید اختر ،اے حمید ،فخر ہمایون ، مستنصر حسین تارڑاور ممتاز مفتی و غیرہ مشہور ہیں -

بشکریہ ۔

‏ستمبر 10, 2014
  معلوماتی × 3   پسندیدہ × 2   زبردست × 2

محمداحمد
لائبریرین
رپورتاژ کے حوالے سے یہ پریزینٹشن دیکھیے۔ یہ نگہت یاسین کی تیار کردہ ہے اور لاجواب ہے۔


‏ستمبر 10, 2014
  معلوماتی × 3

محمداحمد
لائبریرین
یہی پریزینٹیشن انیمیشن کے ساتھ دیکھیے۔ اس لنک سے ڈاؤنلوڈ کیجے۔

‏ستمبر 10, 2014
  پسندیدہ × 1   معلوماتی × 1

نیرنگ خیال
لائبریرین
یہ پریزینٹیشن دیکھنے کے بعد حاضر ہوتا ہوں۔

‏ستمبر 10, 2014
  معلوماتی × 1

قیصرانی
لائبریرین
محمداحمد نے کہا: ↑
رپورتاژ دورجدید کی پیداوار ہے - رپورتاژ اور صحافت کاچولی دامن کاساتھ ہے - برّصغیر کی تقسیم کے وقت سکھوں نے مسلمانوں سے جوخون کی ہولی کھیلی - پاکستان داخل ہونے والی مسلمانوں کی گاڑیاں کی گاڑیاں تباہ کی گئیں - مسلمان عورتوں اوربچوں پرجو طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے تو اس جامع اور ہمہ گیر صنف نثر نے اپنے اندر ان ہنگامی اورخون آشام موضوعات کو سمیٹنا شروع کردیا - اس وقت جورپورتاژ لکھے گئے ان میں جمناداس کا " خدادیکھتا ہے " شاہداحمد دہلوی کا " دہلی کی بپتا " اور تاجور سامری کا "جب بندھن ٹوٹے " مشہور ہیں -
مزید نمائش کے لیے کلک کریں۔۔۔
کافی حیران کن، کہ آپ نے بیک جنبش قلم پاکستانیوں کی طرف سے ہندو اور سکھ مہاجرین پر ڈھائے جانے والے اسی نوعیت کے مظالم پر بالکل ہی خاموشی اختیار کر لی ہے؟

‏ستمبر 10, 2014
  متفق × 1

نیرنگ خیال
لائبریرین
قیصرانی نے کہا: ↑
کافی حیران کن، کہ آپ نے بیک جنبش قلم پاکستانیوں کی طرف سے ہندو اور سکھ مہاجرین پر ڈھائے جانے والے اسی نوعیت کے مظالم پر بالکل ہی خاموشی اختیار کر لی ہے؟
یہ بالکل ویسی ہی خاموشی ہے جیسی ان کے ادیب اختیار

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں