ہفتہ، 3 اکتوبر، 2015

حقانی القاسمی کی البیلی تحریر

احساس کی نئی اشارتوں اور اظہار کی نئی عبارتوں سے شاعری  کا  سماگم نہ ہو تو قاری کے ذہن کا حصہ بنے بغیر وہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ اسی شاعری کو زندگی نصیب ہوتی ہے جس میں تخیل کی نئی منطق اور خلوت لفظ کے منطقے روشن ہوں۔

ظفر گورکھپوری کی شاعری میں زندگی کے جملہ عناصر موجود ہیں کہ انہوں نے اس منبع کو تلاش کر لیا ہے جہاں دوامیت کی لہریں موجزن ہیں۔ ان میں آنسو کو آفتاب بنانے کی توانائی موجود ہے اسی لئے موضوعات اور اسالیب کے ازدحام میں بھی اپنی راہ  اوروں سے الگ رکھتے ہیں۔ انہوں نے خلوت لفظ پر احساس کی بنیاد رکھ کر انبوہ میں اپنی انفرادیت قائم کر لی ہے۔ ان کے لفظوں میں ہی ان کے جہان معنی مضمر ہیں۔ جلوہ گاہ حسن معنی کے رمز کو سمجھا ہے۔ اور آئینہ ربط معانی پر ارتکاز بھی ہے۔ یہی ارتکازیت ان کی انفرادیت کی دلیل ہے۔ موضوعی سطح پر بہت سے شاعروں کی شراکت تو ممکن ہے کہ ایک ہی موسم، ماحول، فضا میں رہنے والے ایک ہی طرح سوچ سکتے ہیں۔ مگر انداز بیان اور اسلوب اظہار میں اشتراکات کے امکانات کم ہوتے ہیں۔

آج کی شاعری کے مسائل کیا ہیں ، وہی صنعتی تمدن کا المیہ، صارفیت، بازاری معیشت، انسان کی گمشدگی، بے چہرگی، قدروں کا زوال، انتشار، انارکی، تہذیبوں کا تصادم،۔۔۔۔ یہ وہ موضوعات ہیں جن پر تخلیقات کی تعداد کم نہیں ہے۔ ظفر گورکھپوری کی شاعری کے موضوعات بھی کم و بیش یہی ہیں اور ان میں اتنی عمومیت آ گئی ہے کہ اختصاص کا کوئی پہلو تلاش کرنا کارے دارد ہے۔ مگر ظفر گورکھپوری نے اپنے شعری بیانیہ کے تحرک اور توانائی سے اس عموم میں بھی خصوص کی راہ نکال لی ہے اور یہی ان کا کمال ہنر ہے۔ زمینوں کی دنیا کی بے زمینی کا احساس اپنے آپ میں نیا پن لئے ہوئے ہے۔

دعا، مسکان، آنسو کچھ نہیں ہے، کچھ دنوں سے

زمینوں کی یہ دنیا بے زمیں ہے، کچھ دنوں سے

زمینوں کے سارے انسلاکات اور تلازمات ان کے شعروں میں بانداز دگر سامنے آئے ہیں۔ زمین اپنی کیفیت اور کمیت، وسعت اور تنگی، مرگ اور زندگی، طغیان و بحران، حرکت و جمود، بلندی پستی، سرمستی و افسردگی، غم و نشاط، منفی مثبت، تیقن اور تشکیک، تصادم اور توافق۔۔ ان تمام تضادات کے ساتھ ان کی شاعری میں موجود ہے۔

کل نہ ہو گا کوئی بچوں کو بتانے والا

یہ جو دیوار ہے، دیوار سے پہلے کیا تھا

گھر ہوا ویراں ، اندھیرا کھڑکیوں تک آ گیا

کیسے دن آئے کہ جنگل بستیوں تک آ گیا

مٹی جن کیفیتوں کے کرب یا طرب سے گزرتی رہی ہے، ان کیفیتوں کا مکمل اظہار ان کی شاعری ہے۔ صرف کرب ہی ان کا موضوع نہیں ہے بلکہ اس میں ھرب بھی شامل ہے۔ مٹی کا نوحہ ہے تو نغمہ بھی ہے کے مٹی مسلسل تبدیلیوں کے عمل سے گزرتی ہے اور اسی میں اس کی تجدید و تازگی مضمر ہے۔ ایک ہی کیفیت یا محور پر مٹی منحصر نہیں رہ سکتی کہ یہ خلاف فطرت ہے۔ ان کا کرب صرف اتنا ہے کہ انسانوں نے مٹی کے جوہر یا زمین کی زندگی کو سلب کر لیا اور مٹی اپنے عنصری جوہر سے محروم ہو گئی۔

ہجوم، سانسوں کا زہر، سیلاب شور ہر سو

کچھ اس طرح تھا کہ شہر قسطوں میں مر رہا تھا

نواح جاں سے چولھے تک وہ ہر منظر پہ بیٹھی ہے

جسے قدموں میں ہونا تھا وہ دنیا سر پہ بیٹھی ہے

یہ شہر آواز کا جنگل، گزرنا جب یہاں سے

مسافر اپنے حصے کی سماعت ساتھ رکھنا

یہاں پتھر کی عمارات اگ آئیں کیسے

اس جگہ کھیل کا میدان ہوا کرتا تھا

یہ کوئی اور ہی دنیا ہے، وہ دنیا تو نہیں

سانس لینا جہاں آسان ہوا کرتا تھا

یہ زمینی مظاہر یا ارضی مناظر کی تبدیلی کا بیان محض نہیں بلکہ زمین کی طبیعاتی اور ما بعد الطبیعاتی تقلیب کا منظر نامہ ہے۔ ظفر گورکھپوری کا سارا مسئلہ شعری زمینی طبعیات اور مابعد الطبعیات سے جڑا ہوا ہے۔ زمین کی میٹا فزکس تبدیل ہوتی ہے تو طبعی ماہیت میں بھی بدلاؤ آتا ہے۔ گاؤں اور شہر کی صورت میں زمین کی طبعی تقسیم، دراصل مابعد الطبیعاتی تبدیلی کا مظہر ہیں۔ شہر اور گاؤں دو الگ جغرافیائی اکائیاں نہیں بلکہ فکری ثنویت اور تفریق کی علامت ہیں۔ یہ انسانی وجود کی تقسیم کے علامتی مظاہر اور دو متضاد قدروں کی علامت ہیں۔ یہ انسان کی داخلی اور خارجی جہتوں اور کیفیتوں کا اشاریہ ہیں۔ یہ تضادات نئے مادی دور کی دین ہیں۔ ماضی اس طرح کی تقسیم سے ماور ا تھا۔ جغرافیائی وحدت کا تصور زندہ تھا۔ مگر انسانی تہذیبی ارتقا کے ساتھ ساتھ وحدت کا تصور ریزہ ریزہ ہوتا گیا اور تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہو گیا۔ زمین کے ساتھ انسانی شخصیت بھی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی گئی۔ ظفر گورکھپوری نے اپنی شاعری میں اسی منقسم شخصیت کے وجودی، روحانی کرب کو پیش کیا ہے۔ ظفر کی شاعری زمین اور انسان کے اس بنیادی رشتے کی جستجو سے عبارت ہے جو ایک کلیت کی ڈور سے بندھی ہوئی تھی مگر اب یہی کل، اجزائے پریشاں میں تبدیل ہو کر اپنے خواص کھو چکا ہے۔ اسی وجہ سے ایک طبعی اور وجودی کشمکش شروع ہو گئی۔ پرانی دنیا کے متوازی ایک نئی دنیا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں