پیر، 4 جنوری، 2016

متفرق رباعیاں

متفرق رباعیات
تھا جوش و خروش اتّفاقی ساقی
اب زندہ دِلی کہاں ہے باقی ساقی
میخانے نے رنگ روپ بدلا ایسا
میکش میکش رہا، نہ ساقی ساقی
(ابوالکلام آزاد)

تحقیق کو بے سود سمجھنے والو
انسان کو بے سود سمجھنے والو
تقدیر و توکل سے عمل بہتر ہے
اے وہم کو معبود سمجھنے والو
(احسان دانش)

میخانہ بدوش ہیں گھٹائیں ساقی
پیمانہ فروش ہیں فضائیں ساقی
اک جام پلا کے مست کر دے مجھ کو
غارت گرِ ہوش ہیں ہوائیں ساقی
(اختر شیرانی)

تیزی نہیں منجملۂ اوصافِ کمال
کچھ عیب نہیں اگر چلو دھیمی چال
خرگوش سے لے گیا ہے کچھوا بازی
ہاں راہِ طلب میں شرط ہے استقلال
(اسمٰعیل میرٹھی)

قائل ہم بھی ہیں دوزخ و جنت کے
معنی کے ہیں معتقد نہیں صورت کے
دوزخ، تاریکیاں تری دوری کی
جنت، انوار ہیں تری قربت کے
(تلوک چند محروم)

دنیا میں رسول اور بھی لاکھ سہی
زیبا ہے مگر حضور کو تاجِ شہی
ہے خاتمہٴ حسنِ عناصر ان پر
ہیں مصرعہٴ آخر اس رباعی کے وہی
(حامد حسین قادری)

دل میں ہوسِ درہم و دینار نہ رکھ
خم پشت ہے عصیاں کا بہت بار نہ رکھ
پیری میں سر اِس غرض سے ہلتا ہے صفی
یعنی دنیا سے اب سروکار نہ رکھ
(صفی لکھنوی)

کیا افسرِ جمشید ہے کیا دولت کَے
بیکار ہے زر فشانیِ حاتم طَے
میں بادہ گسار ہوں مجھے کافی ہے
یا ساغر ماہتاب یا ساغر مَے
(عابد لاہوری)

ہر چند کہ موت کا طلب گار ہوں میں
رنج و الم و غم سے گرانبار ہوں میں
پر زندگی اپنی کہہ چکا ہوں تجھ کو
کس منہ سے کہوں زیست سے بیزار ہوں میں
(عبدالعلیم آسی غازی پوری)

نیرنگیِ قدرت کے تماشے دیکھے
کیا کیا تری صنعت کے تماشے دیکھے
اک شکل کی لاکھوں میں نہیں دو شکلیں
کثرت میں بھی وحدت کے تماشے دیکھے
(عرش ملیح آبادی)

سرمایہٴ غفلت ہے تماشائے جہاں
بینا ہے وہ جو نہ وا کرے آنکھ یہاں
ہر پردہٴ دید ہے حجابِ غفلت
عارف ہی کو کھلتا ہے یہ رازِ پنہاں
(عزیز بریلوی)

کچھ عشق میں تو مزہ نہ پایا ہم نے
اس دل ہی کو مفت میں گنوایا ہم نے
اور جس کے لیے گنوایا دل کو جرأت
اس کو اپنا کبھی نہ پایا ہم نے
(قلندر بخش جرأت)

ہے جسم مرا اور نہ جاں ہے باقی
تربت میں نہ کوئی استخواں ہے باقی
کرتا ہے خدا تو امتحاں تا دمِ زیست
پر بت کا ہنوز امتحاں ہے باقی
(ناسخ)

ساقی مجھے پھر فکرِ جہاں نے گھیرا
میخانہ سلامت رہے دائم تیرا
تجھ سا کوئی ساقی ہے نہ مجھ سا میخوار
بھر دے بھر دے پیالہ بھر دے میرا
(ناصر کاظمی)

غافل جو شباب میں نہیں دانا ہے
اپنا جو اُسے کہے وہ دیوانہ ہے
رہتی ہی نہیں سبزہٴ عارض کی بہار
یہ رنگ ہے عارضی وہ بیگانہ ہے
(ناظر حسین خاں)

بندوں کو ضرور اپنے صلہ دیتا ہے
دیتا ہے، طلَب سے بھی سوا دیتا ہے
تُو مانگنے والوں کی طرح مانگ کے دیکھ
ہر مانگنے والے کو خدا دیتا ہے
(نثار اکبر آبادی)

مفہومِ عزا جاننے والے کم ہیں
احسان کو گرداننے والے کم ہیں
شبّیر ترے ماننے والے ہیں بہت
لیکن ترے پہچاننے والے کم ہیں
(نجم آفندی)

ملتا ہوں تو سر پہلے جھکا لیتا ہوں
پھر فرشِ دل و چشم بچھا لیتا ہوں
کچھ ایسی ہے افتادِ طبیعت اپنی
دشمن کو بھی میں دوست بنا لیتا ہوں
(نجم ندوی)

تجھ مُکھ کا ہے یہ پھول چَمَن کی زینت
تجھ شمع کا شعلہ ہے اَگَن کی زینت
فردوس میں نرگس نے اشارے سوں کہا
"یہ نور ہے عالم کے نَیَن کی زینت"
(ولی دکنی)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں