ہفتہ، 9 جنوری، 2016

مولانا ابوالکلام آزاد کی شاعری

Oct 3, 2011
مولانا ابوالکلام آزاد کے چند اشعار اور ایک نایاب تصویر
امام الہند مولانا ابوالکلام محی الدین احمد آزاد کا عہد ہندوستان کی سیاسی تاریخ کا نازک ترین عہد تھا اور اسی عہد کی "نازک مزاجیوں" کی وجہ سے مولانا کی مذہبی و علمی و ادبی حیثیت پس پردہ چلی گئی حالانکہ مولانا کو سولہ سترہ برس کی عمر ہی میں مولانا کہا جانا شروع ہو گیا تھا۔ خیر یہ مولانا کی سیاست پر بحث کرنے کا محل نہیں ہے کہ مقصود نظر مولانا کے چند اشعار پیش کرنا ہیں۔

مولانا لڑکپن میں اشعار کہا کرتے تھے اور آزاد تخلص کرتے تھے، شاید بعد میں اشعار کہنا ترک فرما دیے تھے یا انکی مصروفیات اس قدر بڑھ گئی تھیں کہ شاعری کیلیے وقت نہیں ملا لیکن تخلص انکے نام کا جزوِ لاینفک ضرور بن گیا۔ مولانا کی خودنوشت سوانح "آزاد کی کہانی، آزاد کی زبانی" میں انکے چند اشعار شامل ہیں وہی لکھ رہا ہوں، اگر دوستوں کے علم میں مولانا آزاد کے مزید اشعار ہو تو لکھ کر شکریہ کا موقع دیں۔

سب سے پہلے مولانا کی ایک رباعی جو مذکورہ کتاب کے مرتب مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نے دیباچے میں لکھی ہے اور کیا خوبصورت رباعی ہے۔

تھا جوش و خروش اتّفاقی ساقی
اب زندہ دِلی کہاں ہے باقی ساقی
میخانے نے رنگ و روپ بدلا ایسا
میکش میکش رہا، نہ ساقی ساقی

اور ایک غزل کے تین اشعار جو اسی کتاب کے متن میں مولانا نے خود تحریر فرمائے ہیں۔

نشتر بہ دل ہے آہ کسی سخت جان کی
نکلی صدا تو فصد کھلے گی زبان کی

گنبد ہے گرد بار تو ہے شامیانہ گرد
شرمندہ مری قبر نہیں سائبان کی

آزاد بے خودی کے نشیب و فراز دیکھ
پوچھی زمین کی تو کہی آسمان کی

ایک مزید شعر اسی کتاب میں سے

سب لوگ جدھر ہیں وہ ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں

اور اب مولانا کی ایّامِ جوانی کی  ایک تصویر۔ یہ تصویر انکی کتاب "تذکرہ " کی اشاعتِ اوّل 1919ء میں شامل ہوئی تھی، مولانا اس تصویر کی اشاعت کیلیے راضی نہیں تھے لیکن کتاب کے مرتب فضل الدین احمد مرزا نے مولانا کی اجازت کے بغیر اس تصویر کو مندرجہ ذیل نوٹ کے ساتھ شائع کر دیا تھا۔

"بہرحال مولانا کے اس حکم کی میں تعمیل نہ کر سکا اور کتاب کے ساتھ اُن کا سب سے آخری فوٹو شائع کر رہا ہوں، یہ فوٹو رانچی میں لیا گیا ہے اور مولانا کی بریّت کے لیے اتنا کہہ دینا کافی ہوگا کہ کم سے کم اس کے کھنچوانے میں خود مولانا کے ارادے کو کچھ دخل نہ تھا، وہ بالکل مجبور تھے۔"

اس داخلی شہادت سے اس تصویر میں مولانا کی عمر کا بھی تعین ہو جاتا ہے۔ مولانا 1916ء میں رانچی گئے تھے اور یہ کتاب 1919ء میں شائع ہوئی جبکہ مولانا وہیں تھے سو اس تصویر میں مولانا کی عمر لگ بھگ اٹھائیس سے تیس سال ہے۔

تصویر ملاحظہ کیجیے۔ مولانا آزاد کی کتب اس ویب سائٹ پر پڑھی جا سکتی ہیں۔ اور اسی ویب سائت سے  یہ تصویر حاصل کی ہے۔

مولانا آزاد ایّامِ جوانی میں
Maulana Abul Kalam Azad

مولانا ابوالکلام آزاد - تصویر شائع شدہ "تذکرہ" اشاعتِ اوّل 1919ء
Maulana Abul Kalam Azad

سرورق "تذکرہ" اشاعتِ اوّل - 1919ء
محمد وارث at 11:10:00 AM
Share

9 comments:

شکیبNovember 20, 2012 at 2:04 AM
محترمی و ممدوحی جناب وارث بھائی

بعد تسلیم و تکریم آپکی اجازت سے مولانا کا ایک اور شعر پیش خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ اسکا سراغ مجھے یوٹیوب کی اس ویڈیو سے ملا جسے مولانا کا مسلمانان ہند کے نام آخری خطاب کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ تاہم مزید تصدیق نہ ہونے کی وجہ کر یک گونہ امکان غلطی کا بھی ملحوظ خیال رہے۔ ہمارے عہد کے راویان با اخلاص کی بے احتیاط قصہ سازیوں کا حال محتاج بیان نہیں۔ بایں ہمہ شعر اس طرح ہے

کوئی نالاں، کوئی گریاں، کوئی بسمل ہوگیا
اس کے اٹھتے ہی دگرگوں رنگ محفل ہوگیا

نیاز آگیں
شکیب

Reply
Replies

محمد وارثNovember 20, 2012 at 10:27 AM
بہت شکریہ جنابِ شکیب اس نوازش کیلیے۔ اور بلاگ پر خوش آمدید، امید ہے تشریف لاتے رہیں گے۔

والسلام مع الاکرام

Reply

Muneeb AhmedJanuary 20, 2013 at 8:51 PM
ایک مزید شعر جو آپ نے مولانا کی کتاب سے لکھا، مولانا سے منسوب ہو رہا ہے لیکن وہ حضرت داغ دہلوی کی غزل کا مطلع ہے۔

سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں

اسی کا مقطع ہے۔
میں داغ ہوں مرتا ہوں ادھر دیکھیئے مجھ کو
منہ پھیر کے یہ آپ کدھر دیکھ رہے ہیں

میرا مقصود مولانا کی عالمانہ و شاعرانہ قابلیت پر سوال ہر گز نہیں۔

جی اس شعر کے متعلق پہلے بھی ایک دوست کی وساطت سے میرے علم میں آیا تھا کہ یہ شعر مولانا کا نہیں ہے، نہ جانے کیسے یہ شعر عبدالرزاق ملیح آبادی کی مرتبہ کتاب آزاد کی کہانی آزاد کی زبانی میں درج ہو گیا ہے۔

والسلام
ا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں