ہفتہ، 9 جنوری، 2016

مقدمہ شعروشاعری......الطاف حسین حالی

مقدمہ شعروشاعری......الطاف حسین

آدمی تھا باوجودیکہ حسن میمندی وزیر سلطان محمود کو اس کے فائدہ یا ضرر پہنچانے میں بہت بڑا دخل تھا مگر وہ اس کو بلکہ خود سلطان کو کچھ خاطر میں نہ لاتا تھا۔ جب میمدی کی مخالفت کا حال اس کو معلوم ہوا تو اس نے یہ شعر لکھے تھے
من بندہ کز مبادی فطرت بنودہ ام
مائل بہ مال ہر گز طامع بہ جاہ نیز
سوئے درِ وزیر چرا ملتفت شوم
چوں فارغم ز بارگاہ پادشاہ نیز

اس کی آزادی اور راست گوئی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سلطان کے مزاج کو اس سے متغیر کر دیا گیا۔ کبھی اس کے کلام سے اس کی دہریت پر اور کبھی اعتزال و تشیع پر استدلال کیا گیا اور ساٹھ ہزار بیت کی مثنوی جس کا صلہ فی بیت ایک مثقال طلا قرار پایا تھا۔ اس کے حصے میں سوائے محروم و ناکامی کے اس کو کچھ نہ ملا۔ مگر فی الحقیقت جیسی کہ اس نے اپنے کلام کی داد پائی ہے۔ شاید ہی کسی شاعر کو ایسی داد ملی ہو۔ اس کے شاہنامہ نے تمام دنیا کے دلوں کو مسخر کر لیا اور بڑے بڑے مسلم الثبوت استاد اس کی فصاحت کا لوہا مان گئے اور اس کا سبب اور کچھ نہ تھا۔ سوا اس کے کہ سوسائٹی یا دربار کا دباؤ اس کی آزاد طبیعت پر غالب نہیں آیا۔

صدر اسلام کی شاعری کا کیا حال تھا:
صدر اسلام کی شاعری میں جب تک کہ غلامانہ تملق اور خوشامد نے اس میں راہ نہیں پائی تمام سچے جوش اور ولولے موجود تھے۔ جو لوگ مدح اور جوذم کے مستحق ہوتے تھے ان کی مذمت کی جاتی تھی۔ جب کوئی منصف اور نیک خلیفہ یا وزیر مرجاتا تھا اس کے دردناک مرثیے لکھے جاتے تھے اور ظالموں کی مذمت ان کی زندگی میں کی جاتی تھی۔ خلفاء و سلاطین کی مہمات اور فتوحوت میں جو بڑے بڑے واقعات پیش آتے تھے ، ان کا قصائد میں ذکر کیا جاتا تھا۔

صفحہ 22
احباب کی صحبتیں جو انقلابِ روزگار سے برہم ہو جاتی تھیں ان پر دردناک اشعار لکھے جاتے تھے پارسا بیویاں شوہروں کے اور شوہر بیویوں کے فراق میں درد انگیز شعر انشاء کرتے تھے۔ چراگاہوں، چشموں اور وادیوں کی گزشتہ صحبتوں اور جمگھٹوں کی ہوبہو تصویر کھینچتےتھے۔ اپنی اونٹنیوں کی جفاکشی اور تیزرفتاری ،گھوڑوں کی رفاقت اور وفاداری کا بیان کرتے تھے۔ بڑھاپے کی مصیبتیں،جوانی کی عیش اور بچپن کی بے فکریوں کا ذکر کرتے تھے اپنے بچوں کی جدائی اور ان کے دیکھنے کی آرزو حالتِ غربت میں لکھتے تھے۔ اپنی سرگزشت ،واقعی تکلیفیں اور خوشیاں بیان کرتے تھے۔ اپنے خاندان اور قبیلہ کی شجاعت اور سخاوت وغیرہ پر فخر کرتے تھے، سفر کی محنتیں اور مشقتیں کو خود ان پر گزرتی تھیں بیان کرتے تھے عالمِ سفر کے مقامات اور مواضع شہر اور قریے، ندیاں اور چشمے سب نام بنام اور جو بری یا بھلی کیفیتیں وہاں پیش آتی تھیں ان کو موثر طریقہ سے ادا کرتے تھے، بیوی بچوں یا دوستوں سے وداع ہونے کی حالت دکھاتے تھے اسی طرح تمام نیچرل جذبات جو ایک جوشیلے شاعر کے دل میں پیدا ہو سکتے ہیں سب ان کے کلام میں پائے جاتے ہیں لیکن رفتہ رفتہ دربار کے تملق اور خوشامد نے وہ سرجیون سوتی سب بند کر دیں اور شعرا کے لیے عام طور پر صرف دو میدان باقی رہ گئے جن مین وہ اپنے قلم کی جولانیاں دکھا سکتے تھے ایک مدحیہ مضامین جن سے ممدوحین کا خوش کرنا مقصود ہوتا تھا ۔ دوسرےعشقیہ مضامین جن سے نفسانی جذبات کو اشتعالک ہوتی تھی۔ پھر جب ایک مدت کے بعد دونوں مضمونوں میں چچوڑی ہوئی ہڈی کی طرح کچھ مزہ باقی نہ رہا اور سلاطین و اُمراء کی مجلسیں گرم کرنے کے لیے اور ایندھن کی ضرورت ہوئی تو مطالبات و مضحکات واہاجی دہزلیات کا دفتر کھلا۔ بہت سے شاعروں نے سب چھوڑ چھاڑ یہی کوچہ اختیار کر لیا اور رفتہ رفتہ یہ رنگ تمام سوسائٹی پر چڑھ گیا۔ اگرچہ ابتداء سے اخیر تک ہر طبقہ اور ہر عہد کے شعراء میں کم و بیش ایسے واجب التعظیم لوگ بھی پائے جاتے ہیں جن کی شاعری پر مسلمان فخر کر سکتے ہیں لیکن شارع عام پر زیادہ تر وہی لوگ نظر آتے
ص 23

ہیں جو پچھلوں کے لیے شاعری کا میدان تنگ کر گئے یا ان کے لیے برے نمونے چھوڑ گئے ہیں۔

متوسط اور اخیر زمانی میں اسلامی شاعر کا کیا حال ہو گیا:

پچھلوں نے جب آنکھیں کھول کر بزرگوں کے ترکہ مدحیہ قصائد اور عشقیہ غزلوں اور مثنویوں اور اہاجی اور ہزلیات کے سوا اور سامان بہت کم دیکھا تو انہوں نے شاعری کو انہیں چند مضمونوں میں منحصر سمجھا۔ لیکن ان مضمونوں میں بھی جب چڑیاں کھیت چگ گئیں اب کیا دھرا تھا۔ تعریف اگر سچی ہو اور عشق اصلی تو شاعر کے لیے میٹریل کی کچھ کمی نہیں جس طرح کائنات میں دو چیزیں یکساں نہیں پائی جاتین، اسی طرح ایک انسان کے محاسن دوسرے کے محاسن کے سے اور ایک کی واردات دوسرے کی واردات سے نہیں ملتی۔ لیکن جب تعریف سراسر جھوٹی اور عشق محض تقلیدی ہو تو شعرا کو ہمیشہ وہی باتیں اگلے لکھ گئے ہیں دہرانی پڑتی ہیں۔

شاعری کی تقلید:
اب پچھلوں نے جو اگلوں کی تقلید شروع کی تو نہ صرف مضامین میں بلکہ خیالات میں، الفاظ میں، تراکیب میں، اسالیب میں، تشہیبات میں، استعارات میں، بحر میں، قافیہ میں، ردیف میں، غرضیکہ ہر ایک بات اور ہر چیز میں ان کے قدم بقدم چلنا اختیار کیا۔ پھر جب ایک ہی لکیر پیٹتے پیٹتے زندگی اجیرن ہو گئی تو نہایت بھونڈے اختراع ہونے لگے۔ جن پر یہ مثل صادق آتی ہے کہ " خشکہ یا گندہ بروزہ اگرچہ گندہ لیکن ایجاد بندہ۔"

‏ستمبر 15, 2007
  پسندیدہ × 1

فرحت کیانی
لائبریرین
ص24

بُری شاعری سے سوسائٹی کو کیا کیا نقصان پہنچتے ہیں:

اگرچہ شاعری کو انتداء سوسائٹی کا مذاق فاسد بگاڑتا ہے مگر شاعری جب بگڑ جاتی ہے تو اس کی زہریلی ہوا سوسائٹی کو بھی نہایت سخت نقصان پہنچاتی ہے۔ جب جھوٹی شاعری کا رواج تمام قوم میں ہو جاتا ہے تو جھوٹ اور مبالغہ سے سب کے کان مانوس ہو جاتے ہیں جس شعر میں زیادہ جھوٹ یا نہایت مبالغہ ہوتا ہے ۔ اس کی شاعری کو زیادہ داد ملتی ہے وہ مبالغہ میں اور غلو کرتا ہے تاکہ اور زیادہ داد ملے۔ ادھر اس کی طبیعت راستی سے دور ہو جاتی ہے اور ادھر جھوٹی اور بے سروپا باتیں وزن و قافیہ کے دلکش پیرایہ میں سنتے سنتے سوسائٹی کے مذاق میں زہر گھلتا جاتا ہے۔ حقائق و واقعات سے لوگوں کو روزبروز مناسبت کم ہوتی جاتی ہے ۔ عجیب و غریب باتوں، سو نیچرل کہانیوں اور محال خیالات سے دلوں کو انشراح ہونے لگتا ہے۔ تاریخ کے سیدھے سادے وقائع سننے سے جی گھبرانے لگتے ہیں ۔ جھوٹے قصے اور افسانے حقائق واقعیہ سے زیادہ دلچسپ معلوم ہوتے ہیں ۔ تاریخ، جغرافیہ، ریاضی اور سائنس سے طبیعتیں بیگانہ ہو جاتی ہیں اور چپکے ہی چپکے مگر نہایت استحکام کے ساتھ اخلاق ذمیمہ سوسائٹی میں جڑ پکڑتے جاتے ہیں اور جھوٹ کے ساتھ ہزل و سُخریت بھی شاعری کے قوام میں داخل ہو جاتی ہے تو قومی اخلاق کو بالکل گھن لگ جاتا ہے۔

بُری شاعری سے لٹریچر اور زبان کو کیا صدمہ پہنچتا ہے:

سب سے بڑا نقصان جو شاعری کے بگڑ جانے یا اس کے محدود ہوجانے سے ملک کو پہنچتا ہے وہ اس کے لٹریچر اور زبان کی تباہی و بربادی ہے جب جھوٹ اور مبالغہ عام شعراء کا شعار ہو جاتا ہے تو اس کا اثر مصنفوں کی تحریر اور فصحا کی تقریر و خواص ، اہلِ ملک کے روزمرہ اور بول چال تک پہنچتا ہے کیونکہ ہر زبان کا نمایاں اور برگزیدہ حصہ وہی الفاظ و محاورات اور تر کیبیں سمجھی جاتی ہیں جو

‏ستمبر 17, 2007
  پسندیدہ × 1

فرحت کیانی
لائبریرین
ص 25

شعراء کے استعمال میں آ جاتے ہیں ۔ پس جو شخص ملکی زبان کی تحریر یا تقریر یا روزمرہ میں امتیاز حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو بالضرور شعراء کی زبان کا اتباع کرنا پڑتا ہے اور اس طرح مبالغہ لٹریچر اور زبان کی رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے۔ شعراء کی ہزل گوئی سے زبان میں کثرت سے نامہذب اور فحش الفاظ داخل ہو جاتے ہیں کیونکہ لغات میں وہی الفاظ مستند اور ٹکسالی سمجھے جاتے ہیں ۔ جن کی توثیق و تصدیق شعراء کے کلام سے کی گئی ہو۔ پس جو شخص ملکی زبان کی ڈکشنری لکھنے بیٹھتا ہے اس کو سب سے پہلے شعراء کے دیوان ٹٹولنے پڑتے ہیں پھر جب شاعری چند مضامین میں محدود ہو جاتی ہے اور اس کا مدار قوم کی تقلید پر آ رہتا ہے تو زبان بجائے اس کے کہ اس کا دائرہ زیادہ وسیع ہو اپنی قدیم وسعت بھی کھو بیٹھتی ہے۔ زبان کا اقل قلیل حصہ جس کے ذریعہ شاعر اپنے چند معمولی مضامین ادا کرتا ہے زیادہ تر وہی مانوس اور فصیح گنا جاتا ہے اور باقی الفاظ و محاورات غریب اور وحشی خیال کیے جاتے ہیں، پس سوا اس کے کہ کچھ ان میں سے اہلِ زبان کی بول چال میں کام آئیں یا لغت کی کتابوں میں بند پڑے رہیں اور کچھ ایک مدت کے بعد متروک الاستعمال ہو جائیں اور کسی مصرف نہیں آتے ۔ مصنفوں کو تحریر میں اور نہ فصحا کو تقریر میں ان سے کچھ مدد پہنچتی ہے۔ قدما کی تقلید کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جن لفظوں میں بضرورتِ شعر انہوں نے تصرف کیا ہے ان کے سوا کسی لفظ میں کوئی تصرف نہیں کر سکتا ۔ جو

فورم
>
...
>
اردو نثر
>
شاعری پر تنقیدی مضامین
>
مقدمہ شعر و شاعری از الطاف حسین حالی - صفحہ 46 سے 104
123اگلا >

شمشاد
لائبریرین
مقدمہ شعر و شاعری از الطاف حسین حالی - صفحہ 46 سے 104

انشا پردازی کا مدار زیادہ تر الفاظ پر ہے نہ معانی پر :

ابن خلدون اسی الفاظ کی بحث کے متعلق کہتے ہیں کہ " انشا پردازی کا ہنر نظم میں ہو یا نثر میں، محض الفاظ میں ہے معانی میں ہرگز نہیں۔ معانی صرف الفاظ کے تابع ہیں اور اصل الفاظ ہیں۔ معانی ہر شخص کے ذہن میں موجود ہیں۔ پس ان کے لیے کسی ہنر کے اکتساب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ضرورت ہے تو صرف اس بات کی کہ ان معانی کو کس طرح الفاظ میں ادا کیا جائے ۔ وہ کہتے ہیں کہ الفاظ کو ایسا سمجھو جیسے پیالہ۔ اور معانی کو ایسا سمجھو جیسے پانی۔ پانی کو چاہو سونے کے پیالہ میں بھر لو اور چاہو چاند کے پیالہ میں اور چاہو کانچ یا بلور یا سیپ کے پیالہ میں اور چاہو مٹی کے پیالہ میں۔ پانی کی ذات میں کچھ فرق نہیں آتا۔ مگر سونے یا چاندی وغیرہ کے پیالہ میں اس کی قدر بڑھ جاتی ہے اور مٹی کے پیالہ میں کم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح معانی کی قدر ایک فصیح اور ماہر کے بیان میں زیادہ ہو جاتی ہے اور غیر فصیح کے بیان میں گھٹ جاتی ہے۔"

مگر ہم ان کی جناب میں عرض کرتے ہیں کہ حضرت اگر پانی کھاری یا گدلایا بوجھل یا اوھن ہو گا یا ایسی حالت میں پلایا جائے گا جب کہ اس کی پیاس مطلق نہ ہو تو خواہ سونے چاندی کے پیالہ میں پلائیے خواہ بلور اور پھٹک کے پیالہ میں وہ ہرگز خوشگوار نہیں ہو سکتا اور ہر گز اس کی قدر نہیں بڑھ سکتی۔

ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ شاعری کا مدار جس قدر الفاظ پر ہے اس قدر معانی پر نہیں۔ معانی کیسے ہی بلند اور لطیف ہوں اگر عمدہ الطاظ میں بیان کئے جائیں گے ہرگز دلوں میں گھر نہیں سکتے اور ایک مبتذل مضمون پاکیزہ الفاظ میں ادا ہونے سے قابل تحسین ہو سکتا ہے۔ لیکن معانی سے یہ سمجھ کر وہ ہر شخص کے ذہن میں موجود ہیں اور ان کے لیے کسی ہنر کے اکتساب کی ضرورت نہیں بالکل قطع نظر کرنا ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اگر شاعر کے ذہن میں صرف وہی چند محدود خیالات جمع ہیں جو کو اگلے شعرا باندھ گئے ہیں۔ یا صرف وہی معمولی باتیں اس کو بھی معلوم ہیں جیسی کہ عام لوگوں کو معلوم ہوتی ہیں اور اس نے شاعری کی تکمیل کے لیے اپنی معلومات کو وسعت نہیں دی اور صحیفہ فطرت کے مطالعہ کی عادت نہیں ڈالی اور قوت متخیلہ کے لیے زیادہ مصالح جمع نہیں کیا گیا گو زبان پر اس کو کیسی ہی قدرت اور الفاظ پر کیسا ہی قبضہ حاصل ہو اس کو دو مشکلوں میں ایک مشکل ضرور پیش آئے گی۔ یا تو اس کو وہی خیالات جو اگلے شعرا باندھ چکے ہیں۔ تھوڑے تھوڑے تغیر کے ساتھ انہیں کے اسلوب پر بار بار باندھنے پریں گے یا ایک متبذل اور پامال مضمون کے لیے نئے نئے اسلوب بیان ڈھونڈھنے پڑیں گے۔ جن کا مقبول ہونا نہایت مشتبہ ہے اور نامقبول ہونا قرین قیاس۔

‏نومبر 24, 2007
  پسندیدہ × 1

شمشاد
لائبریرین
شعر میں کس قسم کی باتیں بیان کرنی چاہییں :

اس کے سوا معنی کے متعلق ایک اور کمال حاصل کرنے کی ضرورت ہے جس کو الفاظ سے کچھ تعلق نہیں۔ صرف نیچر کا مطالعہ اور معلومات کا ذخیرہ جمع کر لینا ہی شاعر کا کام نہیں ہے بلکہ ہر ایک شئے کی روح میں جو خاصیتیں ہیں ان کا انتخاب کرنا اور ان کی تصوری کھینچنا شاعر کا کام ہے۔ شاعر مثلا نباتات اور پھول اور پھل کو اس نظر سے نہیں دیکھتا جس نظر سے کہ ایک محقق علم نباتات دیکھتا ہے یا وہ ایک واقعہ تاریخی پر اس حیثیت سے نظر نہیں ڈالتا جس حیثیت سے کہ ایک مورخ نظر ڈالتا ہے۔ وہ ہر ایک شے میں صرف وہ خاصیتیں چُن لیتا ہے جن پر قوت متخیلہ کا عمل چل سکے اور جو عام نظروں سے مخفی ہوں۔ جس طرح ایک نیاریا ریت میں سے چاندی کے ذرے نکال لیتا ہے جو کسی کو نہیں سوجھتے اسی طرح شاعر ہر ایک چیز اور ہر ایک واقعہ میں سے صرف ذوقیات لے لیتا ہے۔ جن میں اس کے سوا کسی کا حصہ نہیں اور باقی کو چھوڑ دیتا ہے۔ مثلا سکندر کے مرنے کا حال اور اس کے اخیر وقت کے واقعات مؤرخین نے جو کچھ لکھے ہوں سو لکھے ہوں مگر ایک مورلسٹ شاعر ان سے صرف یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ :

سکندر کہ بر عالمے حکم داشت
درآں دم کہ کہ بگذشت و عالم گذاشت

میسر نبودش کز و عالمے
ستانند و مہلت و ہندش دمے​

یا فصل بہار میں بلبل ہزار داستان کے غیر معمولی چہچہے دیکھ کر ایک خواص حیوانات کا محقق اس کے جو کچھ اسباب قرار دے سو دے مگر ایک متصوف شاعر اس کے یہ مینے بتاتا ہے :

بلبلے برگِ گل خوش رنگ در منقار داشت
وندر آں برگ و نوا خوش نالہ ہائے زار داشت

گفمتش در عین وصل ایں نالہ و فریاد چیست
گفت مارا جلوہ معشوق بر این کار داشت​

پس یہ کہنا کہ شاعری کا کمال محض الفاظ میں ہے معانی میں ہر گز نہیں کسی طرح ٹھیک نہیں سمجھا جا سکتا۔

‏نومبر 24, 2007

شمشاد
لائبریرین
اعلٰی طبقہ کے شعرا کا کلام یاد

ابن رشیق کہتے ہیں کہ شاعر کو اعلٰی طبقہ کے شعرا کا کلام یاد ہونا چاہیے تا کہ وہ اپنے شعر کی بنیاد اسی منوال پر رکھے۔ جو شخص اساتذہ کے کلام سے خالی الذہن ہو گا، اگر وہ محض طبیعت کی اپج سے کچھ لکھ بھی لے گا تو اس کو شعر نہیں بلکہ نظم ساقط از اعتبار یا ٹکسال باہر کہیں گے۔ پس جب اس کا حافظہ بُلغار کے کلام سے پُر ہو جائے اور ان کی روش ذہن کی لوح پر نقش ہو جائے تب فکر شعر کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ اب جس قدر مشق زیادہ ہو گی اسی قدر ملکہ شاعری مستحکم ہو گا۔

ابن رشیق نے یہ ہدایت خاص عربی زبان کی نسبت کی ہے۔ شاید عربی زبان کے لیے یہ ہدایت مناسب ہو کیونکہ وہاں ایک مدت دراز سے شاعری کا دور دورہ چلا آتا تھا۔ ہزار برس سے زیادہ گزر چکے تھے کہ ہر عہد اور ہر طبقہ میں ایک سے ایک بہتر و برتر شاعر نظر آتا تھا۔ زبان میں بے انتہا وسعت پیدا ہو گئی تھی۔ ہر مطلب کے ادا کرنے کے لیے صدہا اسلوب اور پیرائے لٹریچر میں موجود تھے۔ شاید وہاں یہ بات ممکن ہو کہ ہر مطلب کے ادا کرنے کے لیے قدما کا اسلوب اختیار کیا جائے اور نئے اسلوب پیدا کرنے کی ضرورت نہ ہو لیکن ایک ایسی نامکمل زبان جیسی کہ اردو ہے جس کی شاعری ابھی تک محض طفولیت کی حالت میں ہے۔ جس کے لٹریچر کی عمر اگر انصاف سے دیکھا جائے تو پچاس ساٹھ برس سے زیادہ نہیں۔ جس کا لغت آج تک مدون نہیں ہوا۔ جس کی گرائمر آج تک اطمینان کے قابل نہین بنی۔ جس کے لائق مصنف اور شاعر انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ ایسی زبان میں اگر اساتذہ کے تتبع پر ہی تکیہ کر لیا جائے تو جس طرح ابابیل کا گھونسلا ابتدائے آفرینش سے ایک ہی حالت پر چلا آتا ہے اور اسی حالت پر چلا جائے گا۔ اسی طرح اردو شاعری جس گہوارہ میں اس نے آنکھیں کھولی ہیں، اسی گہوارے میں ہمیشہ جھولتی رہے گی۔

اس کے بعد ابن رشیق کہتے ہیں کہ "بعضوں کی رائے یہ ہے کہ ایک بار اساتذہ کے کلام پر تفصیلی نظر ڈال کر اس کو صفحہ خاطر سے محو کر دینا چاہیے۔ کیونکہ اس کا بعینہ ذہن میں محفوظ رہنا ویسی ترکیبوں اور اسلوبوں کے استعمال کرنے سے ہمیشہ مانع ہو گا۔ لیکن جب وہ کلام صفحہ خاطر سے محو ہو جائے گا تو بسبب اس رنگ کے جو کلام بلغار کی سیر کرنے سے طبیعت پر خود بخود چڑھ گیا ہے۔ اس میں ایک ایسا ملکہ پیدا ہو جائے گا کہ ویسی ہی ترکیبیں اور اسلوب جیسے کہ اساتذہ کے کلام میں واقع ہوئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں خود بخود بغیر اس تصور کے کہ یہ ترکیب فلاں ترکیب پر مبنی ہے اور یہ اسلوب فلاں اسلوب کا چربہ ہے۔ جیسی ضرورت پڑے گی بناتا چلا جائے گا۔

ہمارے نرزیک یہ رائے بہ نسبت پہلی رائے کہ زیادہ وقعت کا قابل ہے۔ اس میں اس فائدہ کے سوا جو صاحب رائے نے بیان کیا ہے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اساتذہ کا کلام جب تک صفحہ خاطر سے محو نہ ہو جائے طبیعت انہی اسلوبوں اور پیرایوں میں مقید اور محصور رہتی ہے جو ان کے کلام کو بار بار پڑھنے اور یاد کرنے سے بمنزلہ طبیعت ثانی کے ہو جاتے ہیں اور جن کے سبب سے سلسلہ بیان میں نئے اسلوب اور نئے پیرائے ابداع کرنے کا ملکہ پیدا نہیں ہوتا اور اس لیے فن شعر کو کچھ ترقی نہیں ہوتی۔

‏نومبر 24, 2007

شمشاد
لائبریرین
تخیل کو قوت ممیزہ کا محکوم رکھنا چاہیے :

الغرض شاعر کی ذات میں جیسا کہ اوپر بیان ہوا تین وصف مستحق ہونے ضروری ہیں۔ ایک وہنی یعنی تخیل یا امیجینیشن اور دو کسبی یعنی صحیفہ فطرفت کے مطالعہ کی عادت اور الفاظ پر قدرت۔ اب تخیل کی نسبت اتنا جان لینا اور ضرور ہے کہ اس کو جہاں تک ممکن ہو اعتدال پر رکھنا اور طبیعت پر غالب نہ ہونے دینا چاہیے۔ کیونکہ جب اس کا غلبہ طبیعت پر زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ قوت ممیزہ کے قابو سے جو کہ اس کی روک ٹوک کرنے والی ہے باہر ہو جاتا ہے تو اس کی یہ حالت شاعر کے حق میں نہایت خطرناک ہے۔ قوت متخیلہ ہمیشہ خلاقی اور بلند پروازی کی طرف مائل رہتی ہے مگر قوتِ ممیزہ اس کی پرواز کو محدود کرتی ہے۔ اس کی خلاقی کی مزاحم ہوتی ہے اور اس کو ایک قدم بے قاعدہ چلنے نہیں دیتی۔ قوت متخیلہ کیسی ہی دلیر اور بلند پرواز ہو جب تک کہ وہ قوت ممیزہ کی محکوم ہے شاعری کو اس سے کچھ نقصان نہیں پہنچتا بلکہ جس قدر اس کی پرواز بلند ہو گی اسی قدر شاعری اعلٰی درجہ کو پہنچے گی۔

دنیا میں جتنے بڑے بڑے شاعر ہوئے ہیں ان میں قوت متخیلہ کی بلند پروازی اور قوت ممیزہ کی حکومت دونوں ساتھ ساتھ پائی جاتی ہیں۔ ان کا تخیل نہ خیالات میں بے اعتدالی کرنے پاتا ہے نہ الفاظ میں کجروی مگر دوسری صورت میں جب کہ تخیل قوت ممیزہ پر غالب آ جائے۔ شاعر کے لیے اس کی پرواز ایسی ہی خطرناک ہے جیسے سوار کے لیے نہایت چالاک گھوڑا جس کے منہ میں لگام نہ ہو۔ ہزاروں ہونہار شاعروں کو اس قوت کی آزادی اور مطلق العنانی نے گمراہ کر دیا ہے اور بعضے جو گمراہ ہو کر پھر راہ راست پر آئے ہیں وہ اس وقت تک نہیں آئے جب تک کہ قوت ممیزہ کو اس پر حاکم نہیں بنایا۔ قو
پروازی اور قوت ممیزہ کی حکومت دونوں ساتھ ساتھ پائی جاتی ہیں۔ ان کا تخیل نہ خیالات میں بے اعتدالی کرنے پاتا ہے نہ الفاظ میں کجروی مگر دوسری صورت میں جب کہ تخیل قوت ممیزہ پر غالب آ جائے۔ شاعر کے لیے اس کی پرواز ایسی ہی خطرناک ہے جیسے سوار کے لیے نہایت چالاک گھوڑا جس کے منہ میں لگام نہ ہو۔ ہزاروں ہونہار شاعروں کو اس قوت کی آزادی اور مطلق العنانی نے گمراہ کر دیا ہے اور بعضے جو گمراہ ہو کر پھر راہ راست پر آئے ہیں وہ اس وقت تک نہیں آئے جب تک کہ قوت ممیزہ کو اس پر حاکم نہیں بنایا۔ قوت متخیلہ کی دلیری اور بلند پروازی زیادہ تر اس وقت بڑھتی ہے جب کہ شاعر کے ذہن میں اس کو اپنی غذا یعنی حقائق و واقعات کا ذخیرہ جس میں وہ تصرف کر سکے نہیں ملتا۔ جس طرح انسان بھوک کی شدت میں جب معمولی غذا نہیں پاتا تو مجبورا بناس پتی سے اپنا دوزخ بھر کر صحت خراب کر لیتا اور اکثر ہلاک ہو جاتا ہے اسی طرح جب قوت متخیلہ کو اس کی معتاد غذا نہیں ملتی تو وہ غیر معتاد غذا پر ہاتھ ڈالتی ہے۔ خیالات دور ازکار جن میں اصلیت کا نام و نشان نہیں ہوتا تراش کر بہ تکلف ان کو شعر کا لباس پہناتی ہے۔ اور قوت ممیزہ کو اپنے کام میں خلل انداز سمجھ کر اس کی اطاعت سے باہر ہو جاتی ہے اور آخر کار شاعر کو مہمل کو اور کوہ کندن و کاہ بر آوردن کا مصداق بنا دیتی ہے۔

شاعر کے لیے نیچر کا خزانہ ہر وقت کھلا ہوا ہے اور قوت متخیلہ کے لیے اس کی اصلی غذا کی کچھ کمی نہیں ہے۔ پس بجائے اس کے کہ وہ گھر میں بیٹھ کر کاغذ کی پھول پیکھڑیاں بنائے اس کو چاہیے کہ پہاڑوں اور جنگلوں میں اور خود اپنی ذات میں قدرت حق کا تماشا دیکھے۔ جہاں بھانت بھانت کے اصلی پھول اور پنکھڑیوں کے لازوال خزانے موجود ہیں۔ ورنہ اس کی نسبت کہا جائے گا :

جانتا قدرت کو ہے اک کھیل تو
کھیل قدرت کے تجھے دکھلائیں کیا​

‏نومبر 24, 2007

شمشاد
لائبریرین
شعر میں کیا کیا خوبیاں ہونی چاہییں؟

یہاں تک ان خاصیتوں کا بیان ہوا جن کے بغیر شاعر کمال کے درجہ کو نہیں پہنچتا۔اب وہ خصوصیتیں بیان کرنی ہیں جو دنیا کے تمام مقبول شاعروں کے کلام میں عموما پائی جاتی ہیں۔ ملٹن نے ان کو چند مختصر لفظوں میں بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ "شعر کی خوبی یہ ہے کہ سادہ ہو، جوش بھرا ہوا ہو اور اصلیت پر مبنی ہو۔"

ایک یورپین محقق ان لفظوں کی شرح اس طرح کرتا ہے۔ "سادگی سے صرف لفظوں ہی کی سادگی مراد نہیں ہے بلکہ خیالات بھی ایسے نازک اور دقیق نہ ہونے چاہییں۔ جن کے سمجھنے کی عام ذہنوں میں گنجائش نہ ہو۔ محسوسات کے شارے عام پر چلنا۔ بے تکلفی کے سیدھے رستے سے ادھر اُدھر نہ ہونا اور فکر کو جولانیوں سے باز رکھنا اسی کا نام سادگی ہے۔ علم کا رستہ اس کے طالب علموں کے لیے ایسا صاف نہیں ہو سکتا جیسا کہ شعر کا رستہ اس کے سامعین کے لیے صاف ہونا چاہیے۔ ظالب علم کو پستی اور بلندی، غار اور ٹیلے، کنکر اور پتھر، موجیں اور گرداب طے کر کے منزل پر پہنچنا ہوتا ہے۔ لیکن شعر پڑھنے یا سننے والے کو ایسی ہموار اور صاف سڑک ملنی چاہیے جس پر وہ آرام سے چلا جائے۔ ندی، نالے اس کے ادھر اُدھر چل رہے ہوں اور پھل پھول درخت اور مکان اس کی منزل ہلکی کرنے کے لیے ہر جگہ موجود ہوں۔ دنیا میں جو شاعر مقبول ہوئے ہیں ان کا کلام ہمیشہ ایسا ہی دیکھا گیا ہے اور ایسا ہی سنا گیا ہے۔ اس کی ہر ذہن سے مصالحت اور ہر دل میں گنجائش ہوتی ہے۔ ہومر نے اپنے کلام میں ہر جگہ نیچر کا ایسا نقشہ کھینچا ہے کہ اس کو جوان، بوڑھے اور وہ قومیں جو ایک دوسرے سے قطبوں کے فاصلےپر رہتی ہیں برابر سمجھ سکتی اور یکساں مزا لے سکتی ہیں۔ عالم محسوسات کے چپے چپے پر جہاں جہاں کہ اس کا کلام پہنچا ہے اس کی روشنی سورج کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ وہ آباد اور ویرانہ کو برابر روشن کرتا ہے اور فاضل و جاہل پر یکساں اثر ڈالتا ہے۔ شکسپئیر کا بھی ایسا ہی حال ہے جیسا ہومر کا۔ یہ دونوں برخلاف عام شاعروں کے مستثنیات کو نہیں لیتے بلکہ عام شق اختیار کرتے ہیں۔ یہ خاص خاص صورتیں اور نادر اتفاقات دکھا کر لوگوں کو اپنی خاص لیاقت پر فریفتہ کرنا نہیں چاہتے۔"

دوسری بات جو ملٹن نے کہی ہے وہ یہ ہے کہ " شعر اصلیت پر مبنی ہو۔ اس سے یہ غرض ہے کہ خیال کی بنیاد ایسی چیز پر ہونی چاہیے جو درحقیقت کچھ وجود رکھتی ہو نہ یہ کہ سارا مضمون ایک خواب کا تماشا ہو کہ ابھی تو سب کچھ تھا اور آنکھ کھلی تو کچھ نہ تھا۔ یہ بات جیسی مضمون میں ہونی ضرور ہے ایسی ہی الفاظ میں بھی ہونی چاہیے۔ مثلا ایسی تشبیہات استعمال نہ کی جائیں جن کا وجود عالم بالا پر ہو۔"

تیسری بات یہ تھی کہ "شعر جوش سے بھرا ہوا ہو۔ اس سے صرف یہی مراد نہیں کہ شاعر نے جوش کی حالت میں شعر کہا یا شعر کے بیان سے اس کا جوش ظاہر ہوتا ہو۔ بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضرور ہے کہ ان کے دل ٹٹولے جائیں اور ان کے دلوں کو جذب کرنے کے لیے مقناطیسی کشش بیان میں رکھ

اس سے صرف یہی مراد نہیں کہ شاعر نے جوش کی حالت میں شعر کہا یا شعر کے بیان سے اس کا جوش ظاہر ہوتا ہو۔ بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضرور ہے کہ ان کے دل ٹٹولے جائیں اور ان کے دلوں کو جذب کرنے کے لیے مقناطیسی کشش بیان میں رکھی جائے۔"

جس مقناطیسی کشش کا ذکر اس محقق نے ملٹن کے الفاظ کی شرح میں کیا ہے۔ لارڈ مکالے کہتے ہیں کہ وہ خود ملٹن ہی کے بیان میں پائی جاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں " یہ جو مشہور ہے کہ شعر میں جادو کا سا اثر ہوتا ہے۔ عموما یہ فقرہ کچھ معنی نہیں رکھتا۔ مگر جب ملٹن کے کلام پر لگایا جاتا ہے تو بہت ہی ٹھیک بیٹھتا ہے۔ اس کا شعر افسوں کی طرح اثر کرتا ہے حالانکہ بادی النظر میں اس کے الفاظ میں اوورں کے الفاظ سے کچھ زیادہ نظر نہیں آتا۔ مگر وہ منتر کے الفاظ ہیں کو جونہی تلفظ میں آئے فورا ماضی، ھال اور دور و نزدیک ہو گیا۔ معا ھسن کی نئی نئی شکلیں موجود ہو گئیں اور معا حافظہ کے قبرستان نے اپنے سارے مردے اٹھا بٹھائے۔ لیکن جہاں فقرہ کی ترتیب بدلی یا کسی لفظ کی جگہ اس کا مترادف رکھ دیا۔ اسی وقت سارا اثر کافور ہو گیا۔ جو شخص اس کے کلام مین ایسی تبدیلی کے بعد وہی طلسم کھڑا کرنا چاہے وہ اپنے تئیں ایسی ہی غلطی میں پائے گا جیسا الف لیلہ میں قاسم نے اپنے تئیں پایا تھا کہ وہ ایک دروازے پر کھڑا ہوا پکار پکار کر کہہ رہا تھا۔ "کھل گیہوں" "کھل جو " مگر دروازہ ہر گز نہ کھلتا تھا جب تک یہ نہ کہا جاوے " کھل جا سم سم۔"

ملٹن کی تینوں شرحوں کی شرح اگر چہ کسی قدر اوپر بیان ہو چکی ہے لیکن ہمارے نزدیک ابھی اس میں کسی قدر اور تشریح کی ضرورت ہے۔

‏نومبر 24, 2007

شمشاد
لائبریرین
سادگی سے کیا مراد ہے؟

سادگی ایک اضافی امر ہے۔ وہی شعر جو ایک حکیم کی نظر میں محض سادہ اور سمپل معلوم ہوتا ہے اور جس کے معنی اس کے ذہن میں بمجرد سننے کے متبادر ہو جاتے ہیں اور جو خوبی اس میں شاعر نے رکھ ہے اس کو فورا درک کر لیتا ہے۔ ایک عام آدمی اس کو سمجھنے اور اس کی کوبی دریافت کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک عامیانہ شعر جس کو سن کر ایک پست خیال جاہل اُچھل پڑتا ہے اور وجد کرنے لگتا ہے۔ ایک علی دماغ حکیم اسی کو سن کر ناک چڑھا لیتا ہے۔ اور اس کو محض ایک سخیف اور کیک و سُبک تُک بندی کے سوا اور کچھ نہیں سمجھتا۔ ہمارے نزدیک ایسی سادگی پر جو سخاوت و رکاکت کے ذریعے پہنچ جائے، سادگی کی اطلاق کرنا گویا سادگی کا نام بدنام کرنا ہے۔ ایسے کلام کو سادہ نہیں بلکہ عامیانہ کلام کہا جائے گا۔ لیکن ایسا کلام جو اعلی و اوسط درجہ کے آدمیوں کے نزدیک سادہ اور سمپل ہو اور ادنی درجے کے لوگ اس کی اصل خوبی سمجھنے سے قاصر ہوں ایسے کلام کو سادگی کی حد میں داخل رکھنا چاہیے۔ یہ سچ ہے کہ جو عمدہ کلام ایسا صاف اور عام فہم ہو کہ اس کو اعلٰی سے لے کر ادنٰی تک ہر طبقہ اور ہر درجہ کے لوگ برابر سمجھ سکیں اور اس سے یکساں لذت اور حظ اٹھائیں۔ وہ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کو سادہ اور سمپل کہا جائے۔ مگر کوئی ایسی نظم جس کا ہر شعر عام فہم و خاص پسند ہو خواہ اس کا لکھنے والا ہومر یا شکسپیئر ہو نہ آج تک سر انجام ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو شکسپئیر کے ورکس پر شرحین لکھنے کی کیوں ضرورت ہوتی۔

ہمارے نزدیک کلام کی سادگی کا معیار یہ ہونا چاہیے کہ خیال کیسا ہی بلند اور دقیق ہو مگر پیچیدہ اور ناہموار نہ ہو اور الفاظ جہاں تک ممکن ہو تحاور اور روزمرہ کی بول چال کے قریب قریت ہوں۔ جس قدر شعر کی ترکیب معمولی بول چال سے بعید ہو گی اسی قدر سادگی کے زیور سے معطل سمجھی جائے گی۔ تُحاور اور روزمرہ کی بول چال سے نہ تو عوام الناس اور سُوقیوں کی بول چال مراد ہے اور نہ علما و فضلا کی بلکہ وہ الفاظ و محاورات مراد ہیں جو خاص و عام دونوں کی بول چال میں عامتہ الورود ہیں لیکن اردو زیان میں سادگی کا ایسا التزام ہر قسم کے کلام میں نبھ نہیں سکتا ہے۔ اگر کچھ نبھ سکتا ہے تو محض عشقیہ اور بعض متاخرین نے خاص ان دو صنفوں میں کیا ہے۔ قصیدہ میں سودا اور ذوق جیسے مشتاق شاعرں سے بھی ایسی سادگی نبھ نہیں سکی۔ میر انیس باوجودیکہ زبان کی شستگی اور صفائی پر نہایت دلدادہ ہیں۔ مگر طرز جدید کے مرثیہ میں ان کو بھی کثرت سے عربی و فارسی الفاظ استعمال کرنے اور ہمیشہ کے لیے اپنے روزمرہ مین داخل کرنے پڑتے ہیں۔ خصوصا اس زمانہ میں کہ روز بروز لوگوں کی معلومات اور اطلاع بڑھتی جاتی ہے اور شاعری میں خیالات جدید اضافہ ہوتے جاتے ہیں۔ جن کے لیے اردو معنی میں الفاظ بہم نہیں پہنچتے۔ ممکن نہیں کہ اردو کے محدود روزمرہ میں ہر قسم کے خیالات ادا کیئے جائیں۔

‏نومبر 24, 2007

شمشاد
لائبریرین
اصلیت سے کیا مراد ہے؟

اصلیت پر مبنی ہونے سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہر شعر کا مضمون حقیقت نفس الامری پر مبنی ہونا چاہیے۔ بلکہ یہ مراد ہے کہ جس بات پر شعر کی بنیاد رکھی گئی ہے وہ نفس الامر میں

1 تبصرہ:

  1. ہمارے نزدیک کلام کی سادگی کا معیار یہ ہونا چاہیے کہ خیال کیسا ہی بلند اور دقیق ہو مگر پیچیدہ اور ناہموار نہ ہو اور الفاظ جہاں تک ممکن ہو تحاور اور روزمرہ کی بول چال کے قریب قریت ہوں۔ جس قدر شعر کی ترکیب معمولی بول چال سے بعید ہو گی اسی قدر سادگی کے زیور سے معطل سمجھی جائے گی۔ تُحاور اور روزمرہ کی بول چال سے نہ تو عوام الناس اور سُوقیوں کی بول چال مراد ہے اور نہ علما و فضلا کی بلکہ وہ الفاظ و محاورات مراد ہیں جو خاص و عام دونوں کی بول چال میں عامتہ الورود ہیں لیکن اردو زیان میں سادگی کا ایسا التزام ہر قسم کے کلام میں نبھ نہیں سکتا ہے۔ اگر کچھ نبھ سکتا ہے تو محض عشقیہ اور بعض متاخرین نے خاص ان دو صنفوں میں کیا ہے۔ قصیدہ میں سودا اور ذوق جیسے مشتاق شاعرں سے بھی ایسی سادگی نبھ نہیں سکی۔ میر انیس باوجودیکہ زبان کی شستگی اور صفائی پر نہایت دلدادہ ہیں۔ مگر طرز جدید کے مرثیہ میں ان کو بھی کثرت سے عربی و فارسی الفاظ استعمال کرنے اور ہمیشہ کے لیے اپنے روزمرہ مین داخل کرنے پڑتے ہیں۔ خصوصا اس زمانہ میں کہ روز بروز لوگوں کی معلومات اور اطلاع بڑھتی جاتی ہے اور شاعری میں خیالات جدید اضافہ ہوتے جاتے ہیں۔ جن کے لیے اردو معنی میں الفاظ بہم نہیں پہنچتے۔ ممکن نہیں کہ اردو کے محدود روزمرہ میں ہر قسم کے خیالات ادا کیئے جائیں۔
    عمدہ اقتباس
    اپنی عمدگی پر ماہرین سے محضر شہادت لکھواۓ

    جواب دیںحذف کریں