جمعہ، 28 اکتوبر، 2016

زیست کا اپنی ہر اک سودو زیا ں تحریر کر

زیست کا اپنی ہر اک سودو زیا ں تحریر کر
عبدالوھاب قاسمی

محا سبہ ……اور وہ بھی اپنے نفس کا اور اپنی زیست کا ……یقینا دشوار بھی ہے اور غفلت کا شکا ر بھی۔دشوار تو اس لئے کہ زیست کے ایک ایک لمحے،منٹ،دن،مہینے اور سال پر نگاہ رکھنا آسان نہیں ہو تا ……اور غفلت کا شکار اس لئے کہ آج انسان دنیا وی منفعت اور اس کے سو د و زیاں کی تحریر میں خود سے بے خبر ہے ……!!
جبکہ اپنا محا سبہ کر تے رہنا ہی کا میا بی کی کلید ہے،محا سبہ سے ما ضی،حال اور مستقبل کا انسلاک ہو جا تا ہے،معنی خیز نتا ئج سا منے آتے ہیں،تعمیری سوچ اور مثبت زاویے روشن ہو تے ہیں نقصا ن ما ضی کا احتساب حال کو متحرک کر تا ہے اور اسی تحرک پر مستقبل تعمیر ہو تا ہے۔محا سبہ اپنے لغوی اعتبار سے گر چہ چند لفظوں کا مرکب ہے،مگر اپنے معنوی اعتبار سے کا فی اہمیت کا حا مل ہے،کیو نکہ تعمیری و تشکیلی پہلو ہی اس میں منور ہو تے ہیں۔

محا سبہ انفرادی ہو ،یا اجتماعی،قو می ہو،یا وطنی،سما جی ہو،یا معا شرتی،دینی ہو،یا دنیوی اور معا شی ……ہر جگہ اس کی اہمیت مسلم ہے،یہا ں ہمارا مقصود محاسبہ کی مذکو رہ نو عیتوں کی تو ضیح نہیں،بلکہ ”محا سبہ ئ  نفس“جس پر شریعت مطہرہ نے کا فی زور دیا ہے اور با ر بار انسان کو تا کید کی ہے کہ وہ غفلت کے بجائے بیدار رہے،اس کی طرف کچھ اشا رے مقصود ہیں۔
ارشاد ربا نی ہے
”یا ایہا الذین آمنوا اتقو اللہ ولتنظر نفس ما قدمت لغد و و اتقو اللہ ان اللہ خبیر بما تعملون“(سورہ حشر ۸۱)
تر جمہ:اے ایما ن والو اللہ سے ڈرو!اور ہر جان،ہر نفس اپنا جا ئزہ لے،اپنا محا سبہ کر ے کہ کل قیامت کے لئے اس نے کیا بڑھا یا اللہ سے ڈرو،بیشک اللہ تعالی جا نتا ہے جو کچھ تم کر تے ہو “۔
یہاں نفس سے مراد ”فر د واحد“ ہے ”تنکیر“نے ا سمیں عمو میت پیدا کردی ہے،جو ہر انسان کو شامل ہے یعنی ہر آدمی اپنا محا سبہ کرے،اپنے گریبان میں جھا نکے کہ اس نے ابدی زندگی کی راحت و طما نیت کے لئے کیا تیا ریا ں کر رکھی ہیں اور کیا بھیج رکھا ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فر مایا:
وقال عمر ؓ حا سبوا انفسکم قبل ان تحا سبوا  وزنواقبل ان تو زنوا(عین کنز العمال عن ابن مبا رک)
حضرت عمر ؓ نے خطبہ میں فر ما یا کہ تم خود نفس سے حسا ب لو اس سے قبل کہ تمہا را حساب لیا جا ئے او ر اس کو جانچ لو اس سے بیشتر کہ تمہاری جا نچ کی جا ئے۔اسی لئے حضرت عمر ؓ اپنے قدموں پر رات گئے درّے لگا تے اور فر ما تے اے نفس ……!بتا آج تو نے کیا کیا؟
محا سبہ در اصل ایک ایسی عدا لت ہے،جہاں انسان خود ہی مجرم اور خود ہی منصف ہو تا ہے،اس لئے اپنے خلاف انصاف کر نا اور اس کے تقا ضے کو آئندہ پو را کر نا خود اسی کی ذمہ دا ری ہو تی ہے،یہ انسان کے دا خلی ارتعاش،اضطراب،بیدا ری،اور زندہ دلی کا استعا رہ ہے،جس کا با طن حس قدر اپنی خامیوں اور کو تا ہیوں کے تئیں ہیجان انگیز ہو گا وہ اسی قدر اپنا محتسب ہو گا،پھر اسی احتساب سے اسے کا مرا نیاں نصیب ہو نگی۔محا سبہ اور اس کے متعلقات کی طرف اشا رہ کر تے ہو ئے حکیم الامت حضرت مو لانا اشرف علی تھا نوی ؒنے بڑی بصیرت افروز با تیں کہی ہیں ”یہ تو ظاہر ہے کہ بدو ن دوام و مو اظبت اور پابندی کے کو ئی عمل معتد بہ نہیں ہے اس پا بندی کا نام اصطلاح تصوف میں ”مرابطہ“ ہے اور علما ء نے بھی ”مرا بطہ“کو اس معنی میں لیا ہے،چنا نچہ بیضا وی نے ”ورابطوا“کی تفسیر ”واظبوا“سے کی ہے اور اس دوام و پا بندی کے لئے اس کی ضرور ت ہیکہ نفس کو اول متنبہ کر دیا جائے کہ کا م کرنا پڑے گا اور فلاں فلاں کا م سے پر ہیز کر نا ہو گا،اس تنبیہ کو ”مشا رطہ“(شر ط و قرار داد)کہتے ہیں،اور اس کی نگہبانی کر نا بھی ضروری ہے،اس کا نام”مرا قبہ“ہے،فقط گردن جھکانا مرا قبہ نہیں،بلکہ نفس کو گنا ہو ں سے بچا وے اور نیک عمل پر پابندی کرے اور اس کا ہر وقت خیال رکھے،یہ نگہدا شت اصل ”مرا قبہ“ ہے۔پھر کسی وقت خاص میں اس کاکا حساب لینا چا ہئے،جس سے معلوم ہو کہ اس نے شرط و قرار داد کو پو را کر دیا ہے یا نہیں،اس کو ”محا سبہ“کہتے ہیں،پھر محا سبہ سے اگر معلو م ہو کہ نفس نے شر ط کو پو را نہیں کیا ہے،تو اس کا کسی مشقت میں ڈال کر علاج بھی کیا جا وے،اس کو ”معا قبہ“ کہتے ہیں،اور گزشتہ کی تلا فی کے واسطے کو ئی ایسا نیک عمل بھی کیا جاوے جو نفس کو گراں ہو اس کو ”مجا ہدہ“کہتے ہیں،پھر اس نفس کو اس کو تا ہی پر دھمکا دیں اور ملا مت کریں اورتلا فی ما فات پربر انگیختہ کر یں اس کا نام ”معا قبہ“ہے،یہ سب چھ چیزیں ہیں حا صل ان کا یہ ہے کہ نفس کو کسی وقت آزاد نہ چھو ڑے ورنہ وہ سر کش ہو جا تا ہے“
(خطبا ت الاحکام:۵۰۱تا۶۰۱)
قرآن نفس کے متعلق بیان کر تا ہے
”افر أیت من اتخذ الہہ ہوہ واضلہ اللہ علی علم وختم علی سمعہ و قلبہ وجعل علی بصرہ غشا وۃ فمن یہدیہ من بعد اللہ،افلا تذکرون“(الجا ثیہ ۳۲)
سو کیا آپ نے اس شخص کی بھی حا لت دیکھی ہے جس نے اپنی خواہش نفسا نی کو اپنا خدا بنا رکھا ہے؟اور اللہ نے اس کو با وجود سمجھ بو جھ کے گمرا ہ کر دیا ہے،اور اس کے کان اور اس کے دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ہے،سو ایسے کو بعد اللہ کے اور کو ن ہدا یت کر ے تو کیا پھر بھی نہیں سمجھتے“ایک حدیث قدسی میں اللہ تعا لی فر ما تا ہے
”عا د نفسک فانہا انت صبت بمعا ذاتی“
یعنی اپنے نفس کو دشمن رکھ کیو نکہ وہ میری دشمنی میں کھڑا ہے (معا رف اکابر)ایک حدیث میں آ پﷺ نے ارشاد فر مایا:
ان اخوف ما اتخوف علی امتی  الہوی
”مجھ کو اپنی امت پر سب سے بڑا خوف نفسا نی خو اہشات (کی اتباع)کا ہے“ایک اور مو قع پر اثرات نفس کے تعلق سے فر مایا:
فاما الہوی فیصد عن الحق
”نفسا نی خواہش حق بات قبو ل کر نے سے رو کتی ہے“۔
محا سبہ ایک نکیل ہے جس کے ذریعے نفس کی آزادی اور اس کی سر کشی پر گرفت حا صل کی جا تی ہے۔نفس کی دو بڑی بیما ریوں ”اتباع ہوی“اور”اتباع تمنی“کا علاج بھی محاسبہ کر تا ہے۔اتباع ہوی کا غلام مو جب خسران ہو تا ہے،اس کی آنکھوں پر غفلت کے پردے پڑجا تے ہیں،دل پر جہا لت کی مہر لگ جاتی ہے،نور و ظلمت کی تفریق،اس کی نظر میں کو ئی تفریق نہیں رہ جا تی،خیر و شر کی تمیز کا احساس مٹ جا تا ہے،حلال و حرام،جا ئز و نا جا ئزاور حق و نا حق کی ساری پابندیوں سے منحرف ہو کرصرف خواہشات نفسا نی کے حصول  کے لئے وہ اپنی زندگی وقف کردیتا ہے ……اسلئے اس کا علاج ضروری  ہے،تا کہ روشنی و تا ریکی کا فرق سمجھاجا سکے،شہد کی مٹھاس اوراندرائن وحنظل کی کڑواہٹ کومحسوس کیا جاسکے اوراحساس خیروشرمیں تموج پید ا ہوسکے۔اسی طرح نفس کی دو سری بیما ری ”اتباع تمنی“اس امید خام کاعنوان ہے جہاں تک انسان کی عملی رسائی نہ ہوسکے اوراس کی صلاحیتیں اسکے انجام  دینے سے قاصر ہوں۔اتباع تمنی انسان کے بھیا نک  نتائج کاپیش خیمہ ہوتاہے،حقائق زندگی پر گرفت  ڈھیلی پڑجاتی ہے،اژدحام تمنا  میں گرفتار شخص خیالات کے بھول بھلیوں میں غلطاں و پیچاں ہو جا تاہے،وہ عمل کے بجا ئے تا ویلات ومنطقیانہ استدلال کے سہا رے سفر حیات طے کرنے کا خوگر ہو جا تا ہے،اس لئے اس خود فریبی اور تخیل پر ستی  کا علاج بھی ضروری ہے،تاکہ انسان اپنے خیال اورقول وعمل کومرضیات الہی تک محدودومتعین کرسکے،وہ جوبھی عمل کرے بارگاہ ایزدی میں اسے شرف قبولیت سے نو ا زا جائے:
”قد افلح من زکہا وقد خاب من دسہا“
وہ کامیاب ہواجس نے اپنے نفس کاتزکیہ کیا اوروہ نامرادہواجس نے اپنی  قوت خیرکوبربادکیا“
نفس کے متعلق مو لانا رومی فر ما تے ہیں
”نفس ایک دوست ہے،دشمن کی طرح،اسکی ظاہری مہر بانی قہر ساما نی کا پیش خیمہ ہوتی ہے،نفس ایک ایسا طلسم ہے جس کے اسیرکے لئے ویرانی،تبا ہی،گمرا ہی مقدر ہو تی ہے،نفس باغ تا زہ کی ہو اؤں کے بجائے غلاظت خوری اور مر دہ خو ری کی تلقین کر تاہے،نفس کی پیروی حر زجاں دوستوں اور مخلص رفیقوں کی عداوت کی تمہید ہے،نفس ایک اژدہا ہ  ہے،جسکو شکست  دیناآسان نہیں،اس نفس کو زیرکرنے کیلئے بڑے جہاداورجہدکی ضرورت ہے،ہم صف شکن شیروں سے لرزاں ہیں جبکہ اس سے زیادہ موذی اورہیبت ناک شیرہمارا نفس ہے،اسلئے نفس کے خلاف بر سر پیکار رہنا اور اس کی ہمیشہ ہرزہ سرائی کر تے رہنا ہی اصل کامیابی ہے،  ؎
نفس فرعون است بیں سیرش مکن
تا نیارد یار زاں کفر کہن
(ترجمہ)نفس فر عون خصلت ہے،خبر داراسے ضرورت سے زیادہ موٹانہ کرو تاکہ اسکواپنی  شرارتیں پھریادنہ آنے لگیں
”محاسبہ“ایک  نسخہئ کیمیااوراکسیرہے  جوانسانی خصلت ……کوتا ہیوں،برائیوں،خرابیوں،خامیوں اوربداعمالیوں کالازمی علاج کرتاہے،وہ  انسان  کواپنی  بربادی،تبا ہی،اوربدعات ورسومات میں ملوث  ہونیکاالزام غیروں کے بجائے  خوداسپر  عائد کر واتاہے،اسکے بھیانک انجام سے باخبر کرا تا ہے،اورپھراصلاح  کاخوگربناتا ہے،جہاں انسان کوغیر کی آنکھوں کے  تنکے کے بجائے اپنی آنکھوں کی شہتیر نظر آنے لگتی ہے،اپناسراپا آلودگیوں،گندگیوں اورکثا فتوں سے لبریز دکھا ئی دینے لگتا  ہے،پھراسکے سامنے دنیامیں خود سے زیادہ برا کوئی نہیں رہ  جا تا،فر وتنی  اورعاجزی کے صفات اسمیں پیداہونے لگتے ہیں،دوسروں پر انگشت  نمائی کے  بجائے خود کی خبرلینا اس کی اولین ترجیح  ہوتی ہے۔”محاسبہ“انسان کے باطن  سے پھوٹنے والی  ایک  کرن ہے،جس میں زندگی  کا ذرہ ذرہ چمک اٹھتا ہے،زندگی کا ہرپہلوروشن ہوجا تاہے،ایک صاف شفاف  آئینہ ہے،جس میں زندگی  کا ہرداغ نظروں کے سامنے  ہوتاہے،جسے انسان خلوص  دل کے سا تھ دھولنے کی سعی  کرتا ہے،اوراپنے  نفس کی سرکشی سے نجات پانے کی سبیلوں کی جستجوکرتاہے،یہی  جستجواسکے  افکاروخیالات کوصحیح سمتیں عطاکرتی  ہے،پھرنہ وہ نفس کی خودفریبی کاشکار ہوتا ہے  اورنہ  اسکا غلام۔
آج کے  تنا ظرمیں ”محاسبہ“کی اہمیت اورزیادہ  بڑھ گئی  ہے،کہ ہمارا رشتہ  ارشا د  نبیﷺ،قرآنی احکام اوردینی گوشوں سے کمزور ہوتاجا رہا ہے،ہم خا رجی  وباطنی دونوں طہارت سے  محروم ہوتے جارہے ہیں،پراسراریت اورروحانیت  کازورٹوٹتاجا رہاہے،ہمیں ذہنی وقلبی طہارت اورسکون اسی وقت  میسرہوسکتاہے،جب  ہماراباطن کثافت،خباثب،غلاظت  اورعفونت سے منزہ  ہوگا،آج ہم ایسے احمق  اوربے  وقوف ہیں،جسکی طرف امام  غزالی ؒ نے ایک سبق آموز مثال   سے اشار ہ  کیا ہے:
،”بھلاسوچوتوسہی اگرکوئی  شخص  اپنے دامن کے نیچے ایک زہریلا کالا سانپ چھپائے بیٹھا ہو جو پھو نکار ما ررہا ہو اوراسے ڈسنے اورہلاک کرنے کی ٹوہ میں لگا ہوا ہو مگر وہ شخص اسکی پرواہ کئے بغیر دوسرے شخص کے منہ سے مکھیاں اڑانے اورپنکھا جھیلنے میں منہمک ہوتو اس سے زیادہ احمق اور بے وقوف کون ہو سکتا ہے،
ہمارایہی حال ہے کہ دوسروں کے ساتھ مباحثہ کرنے اور غیروں پرنکتہ چینی کرنے کی فکر میں اپنے نفس امارہ کے ساتھ مناظرے اور مباحثے پر توجہ نہیں دیتے جوکہ دشمن دین وایمان ہے“آج ہماری حالت یہ ہے کہ دوسروں سے کہتے ہیں
”المومن لا یکذب“
جبکہ خود جھوٹ میں ملوث ہیں،دوسروں سے کہتے ہیں
”وماالحیواۃ الدنیا الا متاع الغرور“
جبکہ خود اس کے دھوکے کے پیچھے سرگرداں و پریشاں ہیں،دوسروں سے کہتے ہیں
”یغضضن ابصارہن ویحفظن فروجہن“
خودنامحرم دوشیزاؤں پرنظریں گاڑتے اورگناہ بے لذت کے مزے لوٹتے ہیں،دوسروں سے کہتے ہیں
”من تشبہ بقوم فہو منہم“
خودکا سراپا اور حیات کا ہر گوشہ غیر قوموں کے شعار سے معمور ہے،دوسروں سے کہتے ہیں
”اجتنبوا کثیرا من الظن،ان بعض الظن اثم ولا تجسسوا ولا یغتب بعضکم بعضا“
خوداس ظن کثیر میں مبتلا ہیں،اس گناہ میں ملوث ہیں اور پیٹ پیچھے غیبتوں کے طوفان میں ڈوبے ہوئے ہیں،دوسروں سے کہتے ہیں
”الدنیاسجن المومن وجنت الکافر“
خوددنیا کو جنت بنائے بیٹھے ہیں ……ان حالات میں احتساب نفس سے ہی مذکورہ برائیوں کا خاتمہ ممکن ہے۔
اس وقت امت کی اکثریت خواہشات کے تعاقب میں سرگر داں ہے، اور
”اپنے من میں ڈوب کے پاجاسراغ زندگی“
سے منحرف۔وہ اللہ تک رسائی  کے لئے اپنے نفس کو بابا فرید ؒ کیطرح تین طلاق دینے سے عاجز ہے،انہیں حضرت قطب الدین بختیار کاکی ؒ کا یہ قول بھی یاد نہیں کہ:
”یہ ممکن ہی نہیں کہ نفسانی خواہشات کاغلام عرفان ذات باری سے آشنا ہو جائے“
اورنہ ہی مفتی  شفیع صاحبؒ کا یہ جملہ ذہن  نشیں ہے کہ
”تمام اعمال کا مغز یہ ہے کہ اپنے نفس کو جانوروں کی طرح آزاد نہ چھو ڑا جائے بلکہ اس کو پا بندکیا جائے “
یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب پیش نظر  یہ ہو    ؎
ایک دن دینا ہے تجھ کو لمحہ لمحہ کا حساب
زیست کا اپنی ہر اک سود و زیاں تحریر کر
(طارق بن ثاقب)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں