جمعہ، 28 اکتوبر، 2016

انسان توانسان.......

انسان تو انسان درودیوار بدل جا تے ہیں
عبدالوھاب قاسمی

چاند سورج سے اکتساب نو ر کرتا ہے اور شہدکی حلاوت حسین و جمیل کلیوں اور پھولوں کی مر ہون منت ہو تی ہے۔ چاند نے سورج کی مصاحبت اختیار کی تو اسے حسین چاند نی کا روپ عطاہوااور مکھیوں نے کلیوں اور پھولوں کو بوسے دیے تو شہد کو مٹھاس کے ساتھ شفا بخش وجود ملا۔

انسانی حیات پر نظر ڈالیے تو اس کی اچھی اور بری ہو نے میں بھی مصاحبت کا بڑا دخل ہے۔ صحبت نیک اسے محبوب، مکرم، محترم اور جاوداں کر تی ہے۔ تو صحبت بدذلت، رسوائی اور گمنام و بے نشان کردیتی ہے۔ انسان کی عظمت ورفعت،ذلت ونکبت، بگڑنے اور سنورنے، عروج وارتقا اور تنزلی و انحطاط میں صحبت غیر معمولی طور پر اثر اندا ز ہوتی ہے۔اچھی صحبت انسان کی شخصیت میں تعمیری وتشکیلی عناصر کو پیدا کر تی ہے۔ صا لح افکار،نیک جذبات واحساسات اور خدمت خلق کے ولولوں کا پیش خیمہ ہو تی ہے۔ انسا ن ماحول کا پر وردہ ہوتاہے۔ اس کے نقش و نگار، رنگ وآہنگ اور عادات و اطوارسے انسان متأثر ہوتاہے۔ جس ماحول اور معاشرے کا انسان پر وردہ ہو گا، اس کے اعمال و افعال اسی کے تر جمان ہوں گے۔ پھر یہی تر جمانی اس کے شخصیتی پہلوؤں کو نمایاں کرے گی، اس کے معیارووقار کو متعین کرے گی اور اس کے اخلاق و کردار اور ذوق و شوق کو اجا گر کرے گی۔
اس لیے ایسی صحبت جو دنیا و آخرت کے فوزوفلاح، کامیابی و با مرادی اور قلبی تا ریکیوں میں روحانیت کا چراغ روشن کرے، اس کی ضرورت و اہمیت ہرفرد کے لیے ہردور میں مسلم رہی ہے۔
اس کی افادیت کے پیشِ نظر اسلام میں اس کے واضح ہدا یات ملتے ہیں۔ قرآن نے مختلف مقا مات پران ہدایات کی طرف رہنمائی کی ہے:
”یاأ یہا الذین آمنوا اتقو اللہ وکونوا مع الصدیقین“
ترجمہ:اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے سا تھ رہو۔
”واصبر نفسک مع الذین یدعون ربہم با لغدوۃ والعشی یریدون وجہہ ولا تعد عینک عنہم تریدزینٖ الحیوۃ الدنیا (سورہکہف)
ترجمہ:اور تو اپنے نفس کو صبر دے اور تو اپنے آپ کو ان کے ساتھ ملا کے رکھ جو صبح وشام اللہ کو یاد کرتے ہیں، محض اس کی رضا جوئی کے لیے۔ تم اپنی نگاہیں ان کے چہروں سے نہ ہٹاؤ ورنہ تم دنیا کے طلبگار بن جا ؤگے۔
یہاں دو عملوں کا ذکر ہے۔ ایک صحبت اختیار کر نے اور دوسرے کثرت کے ساتھ اللہ والوں کی محفل میں بیٹھنے شعار بنانے کا۔
”والمؤمنین والمؤ منت بعضہم اولیاء بعض ےأ مرون بالمعروف وینہون عن المنکرویقیمون الصلوۃ ویؤتون الزکوۃ ویطیعون اللہ ورسولہ اولئک سیرحمہم اللہ         (سورہ توبہ)
ترجمہ: ”اہل ایمان مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مدد گار ہیں، وہ اچھی باتوں کاحکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کر تے ہیں اور اللہ او ر اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لو گ ہیں جن پر اللہ عنقریب رحم فر مائے گا“
الاخلاء یو مئذ بعضہم لبعض عدو الاالمتقین
                                          (سورہ زخرف)
ترجمہ:”اس دن تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو نگے، سوائے متقی و پر ہیز گار کے“
احادیثِ مبارکہ سے بھی اس کی تائید ہو تی ہے۔ ح ضور اکرم ﷺ نے ارشاد فر مایا:     ”مو من آدمی کی صحبت اختیار کر اور تیرا کھانا بھی متقی کھائے“
(تر مذی:۱۳۳۲)
حضرت ابن عباس ؓکے اس استفسار پر کہ ہمارے ہم نشیں دوستوں میں کون لوگ بہتر ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فر مایا:
”جنھیں دیکھ کر خدا کی یاد تازہ ہوجائے۔ جن کی گفتگو سے علم میں اضافہ ہو اور جن کے عمل سے آخرت نگا ہوں میں روشن ہو جائے“
(معارف القرآن)
آقا ﷺ نے تشبیہاتی پیکر کے ذریعے صحبت صالح او ر صحبت طالح کو یوں اجاگر کیاہے:”اچھے دوست مشک رکھنے والے کی طرح ہیں جہاں کچھ نہ ہاتھ آنے کی صورت میں بھی اس کے اردگرد سے پھوٹتی خوشبو ئیں تمھارے مشام جان کو معطر کردیں گی اور برے دوست بھٹی میں آگ بھڑکانے والے کی طرح ہے۔ جہاں یاتو بدن اور کپڑے جھلسیں گے ورنہ بدبو تیرے مزاج کو مکدر کر دے گی“ (بخاری:۹۴۹۱)
قیامت کی حشر سامانیوں میں بھی صحبت و ہم نشینی کے اثرات مرتب ہو ں گے۔ جو جس کا شریک مجلس ہوگا اور جس سے محبت کے جذبات وابستہ ہوں گے۔ وہ اسی کے ساتھ ہوگا۔ آپ  ﷺ نے ارشادفرمایا:
”آدمی (قیامت کے دن)اس کا ساتھی ہو گا جس سے محبت کا دم بھرتاہوگا اور تو بھی اسی کا شریک رہے گا جسے محبوب رکھے گا“(ترمذی:۲۳۲)
مذکورہ آیات مقدسہ اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں صحبت صالح کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں۔
اللہ والوں کی نظرو ں سے پھوٹتی ہوئی نور کی شعائیں جب انسانی دل کی ظلمت پر بکھر تی ہیں تو غافل و منجمد انسانی اعضا سے اعمال صالحہ کاصدور ہونے لگتا ہے۔ دل کی کثا فتیں اور آلودگیاں حتم ہو جاتی ہیں۔ اللہ والوں کی صحبت میں رہنے سے دل نجاستوں اور وساوسوں سے منزہ ہو جاتا ہے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ نقل کر تے ہیں:
”تم پر لازم ہے کہ علماء کے پاس بیٹھو، حکما کے کلام سے استفادہ کرو، بیشک اللہ تعالی مردہ دل کو نو ر حکمت سے ایسی تامگی و توا نائی عطا فر ماتا ہے جیسا کہ مردہ زمین بارش کے حسین چھینٹوں سے شاداب ہوجاتی ہے“
صحبتِ اولیا انسان کے لیے باعثِ خیرو فلاح ہے۔ فروز مندی و اقبال مندی یہاں نصیب ہوتی ہے۔ صفات مومنانہ کی قندیلیں روشن ہوتی ہیں۔ ایمانی فہم و فراست اور قوت مقدر ہوتی ہے۔ فکری اعماق پیدا ہوتے ہیں۔ روحانی تسکین اور دلی آسودگیاں ملتی ہیں۔ صداقت شیوہ، محبت و الفت شعار، انسانیت کی تکریم اور شرف آدمیت اس کی شرست کا حصہ بن جاتی ہے۔ ایک عجب کیفیت، سرور اور نشاط سے دل معمور ہوجاتاہے۔ حضرت حنظلہؓ  کو صحبتِ رسول ﷺ میں جو ایمانی لذت و چاشنی نصیب ہوتی گھر جا تے ہی اس کے فقدان کو محسوس کرتے۔ دل بے تاب وبے قرار ہو اٹھتا۔ اضطراب کی اسی کشمکش میں زبان زد ہوتا”نافق حنظلہ……نافق حنظلہ“حنظلہ منافق ہوگیا……حنظلہ منافق ہو گیا……!!حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی بھی یہی حالت ہوتی ……پھر دونوں اس حالت غیر کے لیے استفسارِ نبی کے جویا ہوتے۔ یہ صحبت کی ہی کرشمہ سازی ہے کہ امت کے ہزاروں عابد، متقی و پر ہیزگار اور عالم باعمل …… حالت ایمان میں ایک نظر نبی ﷺ کو دیکھنے والے کسی صحابی کے مقام رفعت کی گرد کو بھی نہیں چھو سکتے۔
امام اعظم ابو حنیفہ ؒ جیسے فقیہ کی زندگی امام جعفر صادق کے دوسالہ فیض صحبت سے کامران و با مراد ہو گئی۔ امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کا یہ جملہ آج بھی کتا بوں میں محفوظ ہے:”لولاالسنتان لہک النعمان“۔امام شافعیؒ کا دل صحبت صوفیا کے فیض سے گزر گاہ تجلیات ربانی بن گیا۔ یہاں انھیں اس بات کا عر فان نصیب ہوسکاکہ ”وقت ایک تلوار ہے اگر تم اسے نہیں کاٹو گے تو وہ تمھیں کاٹ کر رکھدے گی اور نفس کا اشتغال اگر حق کے ساتھ نہیں کیا گیا تو وہ باطل کے انہماک کا ذریعہ بن جائے گا“ اور امام احمد بن حنبلؒ بزرگ ابو ہاشم کے سایہئ صحبت سے ہی ریا کے بہت سے نکات سے آشنا ہوئے۔ وہ فر ماتے ہیں:”اگر ابو ہاشم کو فی نہ ہو تے تو ریا کی باریک با توں سے میں کبھی واقف نہ ہو سکتا“۔ مولانارومی ؒ کے نغموں پر آج دنیا سر دھن رہی ہے اور وجدکی کفیت میں روحانی سرور اور تسکینِ قلب حاصل کر رہی ہے۔ انھو ں نے اپنے افکار کے اجا لوں سے جو روشنی کائنات میں پھیلائی ہے اس سے مغربی معاشرہ بھی اکتساب نور کر رہاہے۔ آج مغرب کے ظلمت کدوں میں بھی ان کے فکر و احساس کی شمع ضیابار ہے اور انھیں نہ صرف قبو ل کیا جارہا ہے بلکہ اپنے وجود میں جذب کرن ے کی جستجو ہورہی ہے۔ ان کی زندگی بھی ایک ”زندہ کتاب کی صحبت“سے روشن منور ہے اور وہ ”زندہ کتاب“ہیں حضرت شمس تبریزؒ۔ جن کی نگاہ مو منانہ سے حضرت رومیؒ کی تقدیر حیات بدل گئی۔ حضرت رشید احمد گنگو ہیؒ کے علمی تفوق کا کسے اعتراف نہیں …… مگر علم میں گیرائی و گہرائی اس وقت نصیب ہوئی حب حاجی امدا للہ مہاجر مکیؒ کی نظر خاص اور صحبت خاص انھیں میسر ہوئی۔ اس صحبت کے بعد ان کے دوران مطالعہ کے اشکالات رفع ہوگئے۔ احکام شریعت پر عمل کی بے سا ختگی و وارفتگی عطاہوئی اور دین حق کے اعلان میں جر أت وشہامت کا لہجہ نصیب ہوا۔ یقینا صحبت اولیاء سے صحیح افکار، مثبت خیالات اور دین حق کے حسین نقوش ذہنوں پر مرتسم ہوتے ہیں۔ 
صحبت نیک کے حوالے سے علامہ رومیؒ کے افکار کی یہ تجلیاں دیکھیے جو ان کے مختلف اشعار سے ماخوذہیں۔ ”آفتاب کی شعائیں ذرات جبل کو لعل و درخشاں بناتی ہیں“”کاملین کی صحبت انسان کوکامل و اکمل بنادیتی ہے“”اللہ والوں سے دوستی یار خدا بن جانے کا مژدہ ہو تی ہے“”مقبول بندوں کی ہم نشینی میں کیمیا کا اثر ہو تا ہے۔ جو فرشی کو عرشی ہو نے کا تمغہ عطا کر تی ہے“۔
آج معاشرہ صحبت اولیاء سے انحرافی رجحان لیے جس اضطرابی کیفیت سے دوچار ہے۔ وہ محتاج بیان نہیں۔ مفاد پرستی کے اس ماحول میں خود غرضی اور تبا ہی و بربادی کی صحبت تو عام ہے۔ مگر اولیا ء کی ہم نشینی دور دور تک نگا ہو ں سے اوجھل ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان کے لیے آپسی میل ملاپ اور اختلاط و ارتباط سے مفر نہیں۔ وہیں یہ صداقت بھی مسلم ہے کہ اس اختلاط کے روشن زاویے پیش نظر ہوں۔دینی، علمی،اخلاقی اور اصلاحی ضرورتیں نگا ہوں میں ہوں۔ ایسی صحبت جو ایمانی تقا ضوں کے خسران کا باعث ہو  اسے ترک کرنا ہی دانشمندی ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے یہ ارشاد گرامی اس ضمن میں ہماری رہنمائی کر تے ہیں:”اچھے اور سچے دوست کی جستجو کرو۔ اپنی حیات کے دن ان کے سایے میں بسر کرو۔ ایسے دوست مصیبتوں میں معین ومددگار اور لمحہئ فر حت و شا دمانی میں باعث زینت ہیں۔ جب بھی تم تک اپنے دوست کی خبر ناگوار پہنچے تو حسن تاویل سے کام لو۔ مگر یہ کہ وہ برائی تم پر مترشح ہو جائے۔ اپنے دشمن سے اجتناب کرو۔ایسے دوست سے بچو جو امین نہ ہو۔ امین وہی ہے جس کا دل خوف الہی سے لرزاں ہو۔ بد کار کی صحبت سے دور ہو کہ کہیں وہی صفت تم میں بھی پیدا نہ ہو جائے“        (رفقاء الطریق:۷۲۔عبدالملک القاسم)
امام غزالیؒ نے پانچ صفاتوں کے متحمل انسان سے دوستی اختیار کر نے کی تلقین فر مائی ہے۔”(۱)عقلمند ہو (۲)اعلی اخلاق کا مالک ہو(۳)فاسق نہ ہو(۴)بدعتی نہ ہو(۵)دنیا کا حریص نہ ہو“(احیاء العلوم:ج۲ص۸۶۱)
دوسری جگہ انھوں نے جعفر صادق ؒ کے حوا لے سے مزید اضافے کیے ہیں۔ جھوٹا نہ ہو، بخیل نہ ہو، اور بزدل نہ ہو“۔
خدا بیزار، غفلت کیش اور رفیق گمراہ کے حوا لے سے مو لانا رومیؒ کا یہ بیان بھی کس قدر صداقت سے معمور ہے کہ:”برا ساتھی زہریلے سانپ سے بھی زیادہ ہلاکت خیز ہے کہ سانپ گزیدہ محض زندگی سے محروم ہو تا ہے مگر براساتھی جہنم رسید کر تاہے اسی لیے انھوں نے فر مایا    ؎
اے فغاں از یار ناجنس اے فغاں
ہمنشیں نیک جوئید اے مہماں!
(برے ساتھی سے اللہ بچائے۔ برے ساتھی سے اللہ بچائے۔ اے معززین!!نیک ساتھی کے متلاشی بن جاؤ)
یہ سچ ہے کہ صحبت کا اثر پڑتا ہے
انسان تو انسان درودیوار بدل جاتے ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں