جمعہ، 28 اکتوبر، 2016

غزوہ بدر اسلامی ارتقا کاروشن باب


غزوہ بدر:
اسلامی ارتقا کا ایک روشن باب



عبدالوھاب قا سمی


اسلام کے ہزار ہاواقعات تاریخ کے سینے میں پیوست ہیں۔ جو اسلامی عظمت کے ساتھ اس کے تابندہ ماضی کی سچائیوں سے لبریز اور لا فانی صداقتوں سے معمور ہیں۔ انھیں واقعات میں جاں نثار ان حق کے سدا بہار کارناموں اور ان کے بیکراں جذبہ ایمانی کی تب وتاب بھی جلوہ نما ہے اور آج بھی انھیں کی وفاداری کی کہکشانی کر نوں سے کائنات میں ایمان و ایقان کی شمع فروزاں ہے۔

تا ریخ کے سینے میں ا یک واقعہ بدر کی خون اگلتی زمین کا بھی ہے۔ جہاں ایک خدا کے سامنے سینکڑوں تراشیدہ خداؤں کی خدا ئی سپرد خاک ہو ئی تھی۔ جہاں ایما نی قوت کفر کے آ  ہنی ہتھیاروں کو پاش پاش کر چکی تھی۔ جہاں پہلی بار قلب ایمانی کی سو زش سے با طل کی فو لادی چٹانیں پگھلی تھیں۔ جہاں ساز و سامان کے پر فریب جلووں پر بے سرو سامانی کی فتح کے نغمے گو نجے تھے۔ جہاں انسان اپنی انکساری اور اللہ کی بڑائی کی شہادت بیک زبان دے رہا تھا اور جہاں:
”کم من فءۃ قلیلۃ غلبت فءۃ کثیرۃباذن اللہ“(بقرہ۹۰۲)
تر جمہ:بارہا تھوڑی جماعت غالب ہو ئی بڑی جماعت پر اللہ کے حکم سے
کا مفہوم پورے آب و تاب کے ساتھ آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا۔
اسلام جب مکہ سے نکل کر مدینہ کو اپنا مسکن بناتاہے تو کفر وشر کی کی و ہ سرکش آندھی جو مکہ سے اٹھی تھی اسے یہاں بھی نگل لینا چاہتی تھی۔ با طل کی خفیہ میٹنگوں میں مسلسل یہ ریشہ دوانیاں ہو نے لگیں کہ اسلام کوصفحہئ ہستی سے مٹا دیا جا ئے۔ کیوں کہ اسلام کے حسین پیکر کے سامنے ان کی دیوی اور دیوتاؤں کے بد نما چہرے سے دنیا رخ پھیرنے لگی تھی اور اسلام کے حسین پیکر پر مدح کے قصیدے لکھے جانے لگے تھے۔ جو ان کے ارمانوں کا خون کر رہے تھے اور ان کی امنگوں پر بجلی کی کوند ثابت ہو رہے تھے۔ یہی وہ قیامت خیز حادثہ تھا جوبڑے بڑے زعماء کی شو کت و عظمت پر ذلت و نکبت بن کر رو نما ہوا تھا۔ جس کی دھمک صوت ہادی بن کر عرب کی ساری زمیں ہلا رہی تھی۔
وقت کی کروٹ کے ساتھ اس کی نگا ہوں میں خون اتر چکا تھا۔ زمین حق وباطل کی معرکہ آرائی سے لرزنے والی تھی۔ باطل کی درندگی تندوتیز تلوار کی دھار بن چکی تھی۔ جنگ کی وحشت انگیز گھٹائیں ہر افق سے منڈلاتی ہوئی مدینہ کو اڑا لے جانا چاہتی تھیں۔ اب وقت آچکا تھا کہ اینٹوں کا جواب پتھر سے دیا جائے۔ اب اللہ والوں کو زخم کھاناہی نہیں بلکہ ظالم کے سینے پر دھماکے دار ضربیں بھی لگا نی ضروری ہوچکی تھیں۔ وہ ستم رسیدہ مسلمان جو مکہ کی تیرہ سالہ زندگی میں صبرو شکیب کا پناہ گاہ میں کھڑے تھے۔ اب ان کو غیرت ایمانی کے بے قرار تقا ضے خون کے در یاؤں اور شمشیرو سنان کی جھنکاروں میں کود جانے کو پکار رہے تھے۔جنگ بدر اسی تقا ضے کی تکمیل کی اولین جو لان گاہ قرار پاتی ہے۔
ابو سفیان زروجواہرات سے لدے ہوئے قافلے کے ساتھ شام سے سوئے مکہ کشاں کشاں چلا آرہا ہے۔ راہوں کے تمام خطرات کی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہوا۔لیکن پھر بھی ایک خطرہ اس کی دنیا ئے دل میں تبا ہی مچا رہا ہے۔ اس کے قیامت خیز تصور سے ہی وہ کانپ کانپ اٹھتا ہے۔ ہر راہ گیر سے پوچھتا ہے کہ کہیں وہ خطرہ قیامت فشاں آندھیوں کی طرح گرجتا ہوا تو نہیں آرہا ہے۔ تا آنکہ بعض مسافروں کی زبانی یہ آواز اس کے پر دہئ سماعت کو لرزاتی ہے کہ:
”دنیا کے سب سے سچے انسان نے اپنے دیوانوں کو تیر قافلے کی خبر لینے کی اجازت دے چکے ہیں“
یہ خبر اس کے وجود پر بجلی بن کر گر تی ہے۔ اس کی آنکھوں میں زروجواہرات کے لٹنے کا تصور گردش کرنے لگتاہے۔ خوف ودہشت کے عالم میں اس قیمتی سر مایے کو بچانے کے لیے وہ اجرت کا سہارا لیتا ہے اور ”ضمضم غفاری“کو سو ئے مکہ دوڑا تا ہے۔ضمضم غفاری مکہ پہنچتا ہے اور ابو سفیان کے مطابق یہ اعلان کر تا ہے:
”اے مکہ والو!اے قریش کے جیالو……!!تمھارے قافلے پر موت اپنے لہو آشام جبڑے کھولنے کو بے تا ب ہے۔ محمد ﷺ کے دیوانے ریگستان کے خوفناک طوفان کی طرح امنڈتے چلے آرہے ہیں۔ اپنے قافلے کی خبر لو!!
یہ آواز فضائے مکہ کے سناٹوں کو چیرتی ہوئی جنگل کی آگ کی طرح مکہ کے گوشے گوشے میں پھیل جاتی ہے۔ تکبرو غرور کے شیطانی وجود میں ایک زلزلہ بن کر چر کے لگا تی ہے۔ پھر زہر میں بجھی ہوئی تلواریں نیام سے باہر نکلتی ہیں۔ نفرت وعصبیت کا نا پاک خون آگ اگلتی آنکھوں سے باہر ٹپکتا ہے اور ایک ہزار کا لشکراتراتے ہوئے، اکڑ تے ہو ئے، سامان حرب و ضرب اور اسباب عیش و طرب سے لیس ہو کر بدر کی زمین پر آدھمکتا ہے۔
ادھر جاں نثار صحابہ جنگ و جدال اور قتل وقتال کے وہم و گمان سے عاری، لب اقدس ﷺ سے نکلے ہو ئے بول کہ:
”یہ قریش کا قافلہ تجارت ہے جومال واسباب کی نعمت سے بھراہواہے۔ تم اس طرف کوچ کرو، بعید نہیں کہ رب کریم وہ قافلہ غنیمت میں عطا کردے“
کی تکمیل کے لیے بے تاب ہو جاتے ہیں اور بارہ رمضان المبارک کے نورو نکہت سے معمور لمحے میں تین سو تیرہ افراد پر مشتمل یہ قافلہ مدینہ سے روانہ ہو تا ہے۔ اس کی بے سروسامانی پر وقت کی نگاہیں اشک بر سارہی تھیں۔ کیوں کہ وقت کی نگاہوں نے بڑے بڑے فاتح اور غازی کو سامان حرب و ضرب سے لیس ہوکر میدان جنگ میں اتر تے دیکھا تھا۔ لیکن آج وقت کی نگا ہیں دیکھ رہی تھیں کہ دنیا کا سب سے بڑا فاتح اور دنیا کا سب سے کامل ترین انسان صرف تین سو تیرہ افراد کے ساتھ حق و باطل کی پہلی جنگ لڑنے جارہا ہے۔ جس کے اندر صرف دو گھوڑے اور ستر اونٹ ہیں۔ یہ جان باز قافلہ ریگستانوں، صحراؤں اور وادیوں کے نشیب وفراز سے گزرتا ہوا”بیرابی عِنِبَہ“پر پہنچتاہے۔ آپ ﷺ اپنی جماعت پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ کم عمروں کے لیے واپسی کا اعلان کر تے ہیں۔ جب یہ قافلہ مقام ”روحاء“ پر پہنچتا ہے تو ”ابولبابہ عبدالمنذر“کو حاکم مدینہ مقرر فر ماکر روانہ کر تے ہیں۔ پھر مقام ”صفراء“ کی قسمت جاگ اٹھتی ہے۔ جب اس مقدس قافلہ کے روحانی قدم اس پر پڑتے ہیں۔ آپ ﷺ یہاں قیام فر ماتے ہیں اور ”بَس بَس بن عمرو جہنی اور ”عدی بن ابی الرغباء جہنی“ کو قافلہئ قریش کی نقل و حرکت کے جائزے کے لیے روانہ فر ماتے ہیں۔ وہ دونوں حضرات واپس اسی مقام پر آکر قریش کی جنگی کارروائیوں کا خاکہ پیش کر تے ہیں۔ آپﷺ ان کے خاکے کے مطابق انصار و مہاجر ین سے مشورہ طلب کر تے ہیں۔ دونوں فریق کے جذبات ایمانی میں ایک نئی روح دوڑ جاتی ہے۔ ایک ولولہ انگیز جوش کے ساتھ باری باری دونوں فریق اپنی جاں نثارانہ قوت ارادی کااظہار کر تے ہیں۔ یکے بعد دیگرے حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور عمر ؓ کھڑ ے ہوتے ہیں اور ارشاد عالی پر اظہار جاں نثاری کا ثبوت پیش کرتے ہیں اور حضرت مقداد کے ساز دل سے پیمان وفا کے نکلے ہو ئے یہ خوبصورت نغمے تو آج بھی دنیائے تا ریخ میں گونج رہے ہیں:
”اے رسول خدا ﷺ مالک الملک نے جس امر کا حکم فر مایا ہ ہے اس کو تکمیل تک پہنچائیے۔ آپ کے داہنے بھی ہم سب کی تلواریں دشموں پر چمک رہی ہو نگی۔ آ پ کے بائیں بھی ہمارے تیروں کی سنسناہٹ دشمن اسلام کی سماعت کو لرزارہی ہوگی۔ آپ کے آگے بھی ہم مخالفین دین کے خون سے زمین کی پیاس بجھارہے ہو ں گے اور آپ کے پیچھے بھی ایمان کے ارتقا ء کے لیے جان کی بازی لگا رہے ہو ں گے۔ ہماری زبان آ پ ﷺ سے وہ مذموم کلمے ہر گز نہیں سنیں گے جن کلمات نے حضرت موسی علیہ االسلام کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے تھے اور بنی اسرائیل یہ پکار اٹھی تھی کہ:”اے موسی تم جاؤ اور تمھارا رب جائے میدا ن کارزار کے خونیں ماحول میں اور ہم سب یہیں بیٹھتے ہیں“
راوی حدیث حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ کے چہرہ ئ انور پر خلوص میں ڈوبی اس تقریر نے مسرت کی لکیریں پھیلادی تھیں اور لب اقدس کے جاں نواز تبسم سے دلی انبساط کی تر جمانی ہونے لگی تھی۔ حضرت مقداد کی یہ ایثارانہ تقریر تمام انصار کے جذبات کی تلاطم خیزی کی عکاس تھی۔ لیکن اس کے بعد بھی قلبی بے اطمنانی کا ثبوت زبان رسالت ﷺ کے یہ الفا ظ دے رہے تھے:
”اشیرواعلی ایہاالناس“
اے لوگو مشورہ دو ……!!جب یہی قول تین مر تبہ زبان مقدس سے ادا ہوتا ہے تو محفل پر سناٹا چھا جاتا ہے، سماعت ٹھہر جاتی ہے اور زمین وآسمان کی سانسیں رک جاتی ہیں ……کہ اچانک ایمان ویقین سے لبریز، ایثا رو قر بانی سے معمور اور راہ حق میں شہادت کے والہانہ شوق سے مچلتی ہوئی جان جوش زن ہوجاتی ہے۔ خاموشی کا بند ٹوٹ جاتا ہے اور سناٹوں کوچیرتی ہو ئی یہ جاں سوز آواز ابھر تی ہے:
”اے رسول خدا ﷺ! ہم آ پ پر ایمان لائے ہیں۔ ہم آپ  کے لائے ہو ئے دین کی تصدیق کرتے ہیں۔ جس کی روشنی میں جھوٹ اور فریب سامنے آچکے ہیں۔ اطاعت وفر مانبر دا ری کا ہم پختہ عہد کر تے ہیں۔ اے فداہ ابی وامی!! رخت سفر باندھتے وقت ارادے کچھ اور تھے۔ نکلنے کے بعد قضا وقدر کے فیصلے کچھ اور ہو ئے۔ نیک ارادے جو ہیں ان پر چلیے۔ خوشگورا تعلقات جن سے چاہیں وابستہ کیجیے۔ پیغام امن وآشتی جن کو چاہیں دیں اور جن سے چاہیں برسرپیکار ہونے کا حکم صادر فر مائیے……!ہماری زندگی ہر حال میں آپ کے قدموں پر نثار ہے۔ مال کے خزانے آپ کے حوالے ہیں۔ دولت وثروت کی ساری کنجیاں آ پ کے سپرد ہیں۔ جو چاہیں ہمیں عطا کر دیں اور جو چاہیں اپنے پاس رکھیں۔ ہم نازاں ہو ں گے ان حصوں پر جن پر آپ کی نگاہ محبوب پڑ چکی ہوگی۔ اگر آپ ہمیں حکم فرمائیں تو ہم آپ کی معیت میں ”بر ک الغماد“تک کی خاک چھاننے کوتیار ہیں۔ قسم ہے اس رب ذوالجلال کی جس نے آپ کوحق کے بے کراں نوازشات کے ساتھ سر فراز فر مایاہے۔ اگر آپ اشارہ کردیں تو ہم سمندر کی قہر سامانی میں گھوڑے دوڑاسکتے ہیں۔ خوفناک طوفان سے ٹکراسکتے ہیں۔ موت کے آ  ہنی پنجوں کا بے تا بانہ استقبال کر سکتے ہیں اور ہاں ……!ہم میں کا ایک شخص بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھے گا۔ اعداے اسلام ان کی نگا ہوں کے مر کز ہوں گے۔ ہماری ان حقیقتوں کو آسمان و زمین کی نگا ہوں نے بھی دیکھا۔ ہمار ی لڑا ئی کے وہ جاں گداز لمحے صبر واستقامت کی چادر میں لپٹے ہو تے ہیں اور مقابلے سچائیوں کی تہہ میں پنہاں ہوتے ہیں۔ ہماری امیدیں بندھی ہوئی ہیں اس رب کریم سے جو ہر کام کے آغازو انتہا سے با خبر ہے۔ یقینا ہمارے کارناموں سے آپ کی نگاہیں ٹھنڈی ہوں گی۔لہذا اس رب ذوالجلال کا نام لیجیے اور اس مہم کا آغاز کیجیے جس کا بر سوں سے انتظارہے“
یہ کون تھا؟ جس کی گل افشانیئ تقریر میں ایمانی قوت کی تا با نیاں جلوہ گر تھیں۔ یہ کو ن تھا؟ جس کی وسعت فہم میں فصاحت نبوی سما چکی تھی۔ یہ کو ن تھا جس نے: 
”اشیرواعلی ایہاالناس“ 
   کے تکرار میں پنہاں لطیف اشارے پر پیمان و فا کے مو تی لٹا رہا تھا۔ ہاں ……!!یہ انصار کے سردار حضرت سعد بن معاذ  ؓ تھے جو نبی  ﷺکے اس اشارہئ بلیغ اور نکتہ ئ دقیق کو سمجھ کر مذکور ہ تقریریں ولولہئ ایمانی کا اظہار کر رہے تھے۔
اب اسلام کا قافلہ میدان بدر پہنچ چکا ہے۔ معرکہ آرائی کے لیے وہ جگہ نصیب ہوتی ہے۔ جہاں ریت شعلوں کی طرح دہک رہی تھی اور بدن کو       جھلسادینے والی ہوائیں اپنے خوفناک تیور کے ساتھ سنسنارہی تھیں۔ پیر میں آبلے پڑرہے تھے۔ حدت وتپش سے بدن م ضمحل ہو رہا تھا۔ حلق سوکھ رہے تھے۔ مگر خدا اپنے بندوں کی نیاز مندی پر فخر کر رہا تھا۔ یکا یک نصرت الہی کے خوشگوار جھو نکے چلتے ہیں اور آن کی آن میں ابر باراں کے جاں نواز قطرے زمین پر پڑ نے لگتے ہیں۔ اب وہ جگہ جو شعلہ کی زد میں تھی۔ شبنمی لباس پہن لیتی ہے۔ وہی میدان جو پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہا تھا۔ اب وہ پانی کا حو ض بن چکا ہے اور جگہ جگہ اس میں پانی جمع کر لیے گئے ہیں۔
ادھر کفار قریش فتح کے ہزاروں ارمان سجائے جس جگہ پر خیمہ زن ہو چکے تھے۔ وہ معرکہ آرائی کے لیے ہر اعتبار سے موزوں تھا۔ پانی کی فراوانی بھی انھیں نصیب تھی۔ ہر یالی وشادابی کا پر فریب منظر بھی آنکھوں کو بھا رہا تھا۔ لیکن رحمت الہی ان کے لیے زحمت کا آغاز کر چکی تھی۔اب وہ پو ری جگہ جان لیوا دلدل بن چکی تھی۔ آخر کار قافلہئ قریش اس دلدل سے نکل کر ریتیلی جگہ میں پڑاؤ ڈالتاہے۔
شام ہو چکی ہے۔ ہرشے پر تا ریکیاں اپنی چادر پھیلا چکی تھیں۔ آسمان ستاروں کی تا با نیوسے چمک رہا تھا۔عین اسی وقت زمین کے ماہ و نجوم حضرت علی، حضرت زبیربن عوام، حضرت سعد بن وقاص او رچند صحابہؓ  کو آپ ﷺ قریش کی عسکری طاقت کے جائزے کے لیے روانہ فر ماتے ہیں۔ سو ئے اتفاق دیکھیے! دو غلام ان حضرات کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ ان کو خدمت رسالت مآب ﷺ میں پیش کیا جاتاہے۔ لیکن اس و قت آپ  ﷺ جبیں سائی کے لطف انگیز دنیا میں محو ہو تے ہیں۔ شمع رسالت کے پروانوں نے باز پرس کی ابتدا کردی ہے۔ جواب ملتا ہے۔ ہم قریش کے”سقہ“ہیں۔ ہم پانی کے ارادے سے نکلے ہیں۔ اس جواب پر کچھ مار پڑ تی ہے۔ اس امید پر کہ خوف و دہشت سے کچھ راز افشاں ہو جائے۔ لیکن زدوکوب کے بعد ان دونوں کا جواب بدل گیا اور کہاکہ ہم ”ابو سفیان“کے افراد ہیں۔ اس پر مار پڑنی بند ہو جاتی ہے۔ دریں اثنا نبی ﷺ نماز سے فا رغ ہو تے ہیں۔ پھر صحابہ سے ارشاد فر ماتے ہیں کہ جب وہ صدق بیانی سے کام لیتا ہے تو تم انھیں پیٹتے ہو اور جب کذب بیانی کرتا ہے تو انھیں چھوڑ دیتے ہو۔ خدا کی قسم یہ قافلہئ قریش کے افراد ہیں۔
اب بنی ہاشمی ﷺ ان سے سوال و جواب کرتے ہیں:
قریش کا خیمہ کہاں نصب ہے؟
جواب ملتا ہے: واللہ اس ”مقنقس“ٹیلہ کی پشت پر نصب ہے۔
کتنے افراد پر مشتمل ہے؟
بہت ہیں۔
تعداد کتنی ہے؟
معلوم نہیں۔
روزانہ کتنے اونٹ ذبح ہو تے ہیں؟
ایک دن نو اور ایک دن دس۔
فر مایا: تب تو ہزار اور نو سو افراد پر مشتمل ہیں!
سرداران قریش میں سے کو ن کو ن ہیں؟
عتبہ، شیبہ، ابو البختری، حکیم بن حزام، نو فل، حارث، طعیمہ، نضر، زمعہ، ابوجہل، امیہ، نبیہ، منیہ، سہیل اور عمرو بن عبدو۔
یہ اسما سن کر آپ ﷺ صحابہ کی طرف توجہ فر ماتے ہیں اور ارشاد ہو تا ہے کہ:
”آج گوشہائے مکہ نے اپنے تمام جگر پاروں کو تمھاری طرف پھینک دیاہے“
صبح اپنی تمام جلوہ سامانیوں کے ساتھ طلوع ہو چکی ہے۔ دھوپ کی شعاعوں سے ہر شے کی رونق لوٹ آئی ہے۔ ماہ رمضان المبارک کی سترھویں تاریخ ہے۔ جمعہ کا مبارک دن ہے۔ آج ہی دست حق بازوئے باطل کو شل کر نے کے لیے بڑھ رہا ہے اور باطل نو ک شمشیر سے اسلام کو مٹانے کے لیے بے تابانہ صف آرا ہو چکا ہے۔ آج رشتوں کا خون ہوگا! آج قرابت داریوں کا پاس و لحاظ اٹھ جا ئے گا! با پ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو قتل کر رہا ہو گا!آج دنیا دیکھے گی بھائی بھائی کوتیروں کا نشانہ لے رہاہے! اور وقت کا مؤرخ لکھے گا کہ چچا بھتیجے کے سر کو تن سے جدا کر رہا تھا……!!
رسو ل اکرم  ﷺجنگی پینتروں اور معرکہ آرائی کی صف بندیوں میں ہمہ تن مصروف ہیں کہ اچانک دردو محبت اور سوزوگداز سے معمور ایک آواز ابھر تی ہے:
”اے فداہ ابی وامی ﷺ کیا آپ کے لیے ایک چھپر نہ بنادیں۔ جو آپ کی نشست گاہ ہو۔ جہاں سواری کا انتظام ہو۔ پھر ہم دشمن سے مقابلہ کے لیے جائیں۔ اگر اللہ نے ہمیں تاج فتح عنا یت فر ما دیا جو کہ ہماری حسین تمناہے اور اگر صورت دیگر درپیش ہو تو آپ ﷺ اس کے ذریعے ہماری قوم کے ان افراد تک پہنچ سکیں جو پیچھے رہ گئے ہیں۔جن کے دلوں میں ایمان کی سر شاری کو ٹ کوٹ کر بھری ہے۔ (انتہائی عاجزی کے عالم میں اسی آواز سے خلوص ووفا کی یہ خوشبو بھی پھوٹتی ہے)کہ اے پیغمبر خداﷺ……!!ہم ان سے زیادہ آپ کے محب نہیں!!(ایسا اس لیے کہا کہ سچائیوں میں نہاں ایسے ہی محب مخلص کی محبت ہو تی ہے جس کی نظریں اپنے اخلاص کے بجائے ہر اس عمل پر ہو تی ہے جس سے محبوب کی رضا جو ئی ہو سکے)اگر ان کو کسی قرائن سے یہ شائبہ بھی ہوتا کہ آپ ﷺ کو جنگ کا سامنا ہو گا تو وہ تخلف کے بجائے تقدم پر مر مٹتے۔ شاید اللہ ان کے ذریعے آ پ کی حفا ظت فر ماتے اور وہ اخلاص کے اعلا پیمانے کا مظاہرہ کرکے جہاد فی سبیل اللہ کو سر انجام دیتے“
یہ آواز تھی حضرت سعد بن معاذ ؓ کی جو حفا ظت رسول کی فکر لیے ابھر رہی تھی۔اسی مشورے میں چھپی حضرت سعد ؓ کی اپنائیت رسول خدا ﷺ کی زبان مقدس سے دعائے خیر کا لطف اٹھارہی تھی۔
اس مشورے کے بعد ٹیلہ پر کجھور کی شاخوں سے ایک چھونپڑی بنائی گئی……آہ ……یہ جھونپڑی جس سے خوش قسمت جھونپڑی دنیا نے کبھی نہیں دیکھی۔ آج اس کی قسمت عوج پر تھی۔ جس کی تقدیس پر قصر شاہی کی رونقیں ماند پڑ گئی تھیں۔ جس میں ایک ایسا شہنشاہ فروکش ہونے والا تھا، جس کی خاک قدم فروزاں کے سامنے سونے اور چاندی سے مسجع، الماس، یاقوت، لعل اور موتیوں سے مرصع، مروارید و جواہرات سے مزین تخت کی وقعت بے معنی ہو چکی تھی۔
یہ جھونپڑی اس انداز سے بنائی گئی کہ میدان کا رزار کے سارے مناظر پر محبوب الہی کی حسین نظریں پڑتی رہیں۔ آپ ﷺ اپنے یار غار کے ساتھ اس میں تشریف لے جاتے ہیں۔ دورکعت نماز ادا کر تے ہیں اور حضرت سعد بن معاذ ؓ دروازے پر تلوار لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔
زمین تھرارہی ہے۔ وقت کی گردش ٹھہر چکی ہے۔ عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید کی جرأ ت دیکھیے……!!ان کی للکاریں میدان بدر کے سینے کو چاق کر رہی ہیں اور اپنے اپنے مقابل کو ہر شخص آواز دے رہا ہے۔ اسلام کے تین جانباز آگے بڑھتے ہیں۔ عوف بن حارث، معوذ بن حارث اور عبد اللہ بن رواحہ۔
عتبہ سوال کر تا ہے،تم کو ن ہو؟
جواب ملتا ہے:”رہط من الانصار“ہم گروہ انصار ہیں!
عتبہ کہتا ہے:”مالنابکم من حاجۃ“ہم کو تم سے مطلب نہیں، ہم اپنی قوم سے لڑ نا چاہتے ہیں!
کبر و نخوت میں ڈوبی ہوئی عتبہ کی زبان پھر للکار تی ہے۔
”یامحداخرج الینااکفاء نامن قومنا“اے محمد!! ہماری قوم کے آدمی کوہمارے مقابلے پر بھیجو!!
رسول خدا ﷺ اب نام بنام حضرت حمزہ، حضرت عبیدہ بن حارث اور حضرت علی ؓ کو مقابلے پر بھیجتے ہیں۔ تینوں حضرات کے چہروں پر نقاب ہو تا ہے اس لیے عتبہ پھر دریافت کرتاہے تم کو ن ہو؟
جو اب ملتا ہے۔ میں عبیدہ ہوں، میں علی ہوں اور میں حمزہ ہو ں!!
عتبہ کہتا ہے، نعم اکفاء کرام“ہاں تم ہمارے مقابل کے اور محترم ہو۔
اب با ضابطہ جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ حضرت عبیدہ،عتبہ پر حملہ آور ہو تے ہیں۔ حضرت حمزہ شیبہ کی زندگی پر موت بن کر مسلط ہو تے ہیں اور ح ضرت علی ولید پرشیر خدا کی دہاڑ بن کر جھپٹتے ہیں۔ ایک ہی وار کی تاب نہ لانے والا شیبہ اور ولید خاک و خون میں تڑپتا ہوا خوفناک جہنم کا راہی بن چکا ہے۔ ادھر حضرت عبیدہ اور عتبہ بر سر پیکار ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو زخمی کر چکے ہیں۔ با لآخرعتبہ نے حضرت عبیدہ پر ایسا وار کر تا ہے کہ پیر کٹ گئے۔ حضرت علی اور حضرت حمزہ ان کی امداد کو پہنچتے ہیں اورعتبہ کے ناپاک جسم سے زمین کا بوجھ ہلکا کر تے ہیں۔حضرت عبیدہ ؓ کو خدمت اقدس میں لایا جاتا ہے۔ یہ شخصی معرکہ آرائی دو اصل ابتدا تھی گھمسان کے رن کی……!!
اب کائنات کانپ رہی ہے، پہاڑوں اور گھاٹیوں کے دل سہمے ہو ئے ہیں، زمین کا سینہ پھٹا جا رہا ہے، مؤرخ کا قلم محو انتظار ہے۔ اب حق و باطل کی تلواریں بھر پور شباب پر آچکی ہیں۔ دریائے خون میں طغیانی جوش زن ہو چکی ہے، چاروں طرف ہلاکت و مو ت دندنا تی پھر رہی ہے۔شمشیرو سنان کی جھنکار سے ف ضائے بدر گونج رہی ہے۔ تباہی و بر بادی اور ہلاکت کا بھیانک سماں مزید خوفناک ہو تا جا رہا ہے۔ ریتیلے میدان سے لے کر کو چہئ گر دوں تک عجب سوگورا منظر ہے ۔حق وباطل حیات وممات کی کشمکش سے بر سر پیکار ہے۔آج اپنے اپنے نہ رہے۔ دوستوں کی تلواریں دوستوں کا تعاقب کر رہی ہیں۔ باپ اور بیٹے کا امتیاز اٹھ چکا ہے۔ بھائی بھائی کے سینے پر بر چھیاں گھونپ رہا ہے۔ آقا غلاموں کے ہاتھوں زندگی کا آخری کلمہ پڑھتا ہو ا جہنم رسید ہورہا ہے۔
ادھر سر کو نین ﷺ بے تاب ہیں۔ مجاہدین اسلام کی بے سروسامانی انھیں تڑپا رہی ہے۔ نمازکے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں، بلائیں لیتی ہوئی خشوع و خضوع کا عالم طاری ہے۔ اشکوں کا سیل رواں ہے، کبھی سجدے میں رورہے ہیں، کبھی رکوع میں گڑگڑ ارہے ہیں، کبھی سائلانہ انداز میں دربار الہی کھٹکھٹا رہے ہیں، کبھی زبان اقدس سے عا جزانہ فتح و نصرت کے لیے دعائیں نکل رہی ہیں۔کبھی کہتے ہیں:
اے الہ العالمین……!تیرے جاں نواز وعدے کبھی جھوٹے نہیں ہو سکتے، آج وقت آ چکا ہے کہ تو اپنا وعدہ پورا کر دکھائے جوتو نے مجھ سے کیا ہے۔
کبھی کہتے ہیں ……!!
اے الہ العالمین……!اگر یہ مٹھی بھر جماعت آج ہلاک ہو گئی،اگر دین اسلام کا یہ مختصر قافلہ رو ئے زمیں سے ختم ہوگیا،اگر سر فروشان حق کی انگلیوں پر گنی جانے والی تعداد جام شہادت نوش کر لیتی ہے تو پھر روئے زمین پر تری پرستش کر نے والا کون با قی رہے گا؟کو ن تیری خدائی کا اعلان کر نے والا ہوگا؟کو ن سجدوں میں سر رگڑ رگڑ کر تیری عظمت کا اعتراف کرنے والا ہو گا؟…… محویت کے عالم میں اپنی دنیا بھول چکے ہیں، دوش مبارک سے چادرمقدس بار بار سرک جاتی ہے۔
حضرت علی ؓ فر ماتے ہیں میں وقفے وقفے سے تین مر تبہ آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو ا لیکن ہربار دیکھا کہ آپ ﷺ سجدے میں سر رکھ کر یاحی یا قیوم“کہے جا تے ہیں، لیکن چوتھی بار اللہ نے آپ کو فتح سے سر فراز فرما یا۔
دل کو دہلانے دینے والی یہ دعا پیارے نبی کے اس مقدس زبان سے نکل رہی ہے جس کو نطق وحی نے بوسے دیے تھے۔ یہ آنسو اس مبارک آنکھوں سے ٹپک رہے ہیں جس سے درد امت میں لاتعداد آنسو کے قطرے بہے ہیں اور یہ اس دل کی آہ تھی جس میں امت کی بے پناہ محبتیں سمائی ہوئی ہیں۔
جب فرش کے ذرے پر کی ہو ئی یہ دعا عرش کے دیوار رحمت سے ٹکرا تی ہے اور ایک جھونپڑے سے نکلی ہو ئی مدد کی یہ دل گداز آہیں فلک کے تخت شاہی کی چوکھٹوں سے جا لپٹتی ہیں تو پھر دریائے رحمت میں ایک طوفان آتا ہے۔ ان دیکھی مخلوق آ  ہنی طاقت بن کر بدر کی زمین پر نا زل ہوتی ہے اور کر فروں کی گردنوں کا نشانہ لیتی ہے، پھر جسم کے ایک ایک پور کا حساب لیتی ہے۔ کوڑے کی پے درپے ضربیں لگا تی ہے جس سے کافروں کی ناک اورچہرے پر نیلے رنگ کے داغ ابھر جاتے ہیں۔ آپ ﷺ تین مر تبہ ”شاہت الوجوہ“(یہ چہرے خراب ہوئے)مشت بھر سنگریزوں پر پڑھ کر قریش کی طرف پھینکتے ہیں۔ ایک لمحہ بھی نہیں گذر تاہے کہ اعداے اسلام کے چہروں پر معنوی ذلت و مسکنت کی دھول پڑنے لگتی ہے۔ ہر شخص حیران ہے، آنکھیں مل رہاہے، نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن“جیسی حالت ہو چکی ہے۔ صفوں میں بھونچال آچکا ہے۔ ہر ایک کے اوسان خطا ہو چکے ہیں۔ افراتفری کا ماحول سر گر م ہے۔بھاگم بھاگ کے شور سے فضا میں ارتعاش بر پا ہے۔ سرداروں کی سرداری سپر دخاک ہو رہی ہے۔ ابو جہل کی ناپاک روح ایک ہچکی کا انتظار کر رہی ہے۔عتبہ اور شیبہ کی متکبرانہ آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکی ہے۔ امیہ بن خلف تھر تھراتا ہوا موت کی آغوش میں پناہ لے چکا ہے۔ اکڑتی ہو ئی ستر جانیں کیفر کردار تک پہنچ چکی ہیں اور ستر کے ہا تھوں میں گرفتاریوں کی زنجیریں جکڑ ی جاچکی ہیں۔
اللہ اللہ ……!!حق و باطل کی پہلی معر کہ آرائی میں حق سروخروہوچکاہے……!اسے سر خروہونا ہی تھا……!باطل پسپا ہو چکا ہے……!!اسے پسپا ہونا ہی تھا……!
لیکن آہ ……!!! حق کو یہ سر خروئی کیوں حاصل ہو ئی؟ہم نے کبھی غورکیا……!
دین اسلام کے یہ جانبام راہ خدا میں قر بان ہو جانے پر کیوں نازاں تھے……!
اس سچائی سے پر دہ اٹھا نے کی کبھی کوشش کی ……!!
تین سو تیرہ کی مٹھی بھر جماعت ……وہ بھی بے سروسامانی کی حالت میں ایک ہزار کے لشکر کو شکشت و ریخت سے کیوں کر دوچار کر تی ہے……!
اس حقیقت کی تہہ میں کبھی پہنچے ……اگر نہیں ……!
تو ہمیں پوچھنا ہوگا بدر کے ریتیلے میدان سے ……؟
ہمیں سوال کر نا ہو گا ان خاموش فضا ؤں سے جنھوں نے ان دیکھی طاقت کا یہ جلال دیکھا تھا……!
کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں ……!!
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں