جمعہ، 28 اکتوبر، 2016

ماہ ربیع الاول اوراظہارمحبت کےغیراسلامی طریقے

ماہِ ربیع الاول:
اوراظہار محبت کے غیر اسلامی طریقے!

عبدالوھاب قاسمی
ماہِ ربیع الاول کی آمد ہو چکی ہے۔ ذکر خیر الوری سے ف ضا پر رقت طاری ہے۔ ہر قلب مومن حب رسولﷺ سے سر شار ہے۔ ہر مومن کی زبان درود بنی ﷺ سے ترہے۔ دنیا کے گوشے گوشے اور چپے چپے میں سیرت طینہ کی بھینی بھینی خوشبوئیں ٹہل رہی ہیں اور حیات محمدی ﷺ کے تمام گوشوں کے انوار ات سے قلب مومن روشن و منور ہو رہے ہیں۔ کہیں جلسے ہو رہے ہیں، کہیں سیرت پاکﷺ تقریریں ہو رہی ہیں، کہیں نعت خوانی ہو رہی ہے اور کہیں اخبارات و رسائل نمبرات نکل رہے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ قلب مومن کے چمن میں ہرآن، ہر لمحہ اور ہر وقت حب نبی کے جاں نواز جھونکوں کی شادابی و شگفتگی ہو اور آ پ کی عظمت و مر تبت سے دل آباد ہو ……مگر چو نکہ اسی مہینے میں آپﷺ کی ولادت با سعادت ہو ئی، اسی مہینے میں آخرت کے سفر پر روانہ ہو ئے اور اسی مہینے میں ہجرت کا واقعہ پیش آیاہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس سے آقا ﷺ کی حیات طیبہ سے خاص مناسبت و موافقت ہے……اس لیے اس مہینے میں محبت کی لہریں جوش زن ہو جا تی ہے اور مسلمان اس کے اظہار پر اپنے کو مجبور پاتا ہے۔
حضور ﷺسے محبت تکمیلِ ایمان کی علامت ہے۔ یہ دین وشریعت کی اساس و بنیاد ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت درحقیقت مو من کی معراج ہے۔ یہ معجزہئ رسول اکرم  ﷺہے کہ ہر امتی کے دل میں آپﷺ کی محبت کی قندیلیں روشن ہیں۔ آپ کی عزت، ناموس، عظمت، رفعت اورعلو مر تبت کا چراغ منور ہے۔ عشق کا یہ جذبہ، محبت کا ایسا والہانہ پن اور آپ ﷺ پرامت کی فدائیت کا یہ حسین شوق…… دیگر مذاہب کے پیشواؤں کے لیے کہیں نہیں ملتا۔ پھر کیوں نہ اس امت کی آپ ﷺ سے محبت کے اند از نرالے، جدا گانہ اور منفرد وممتاز ہوں۔ آپﷺ محبوب رب العالمین ہیں۔ ذات با ری کے بعد اس امت کے لیے آپ ﷺ سے زیادہ نہ کو ئی محبوب ہے اور نہ محترم و مکرم۔حب بنی ﷺ کے متعلق قرآن میں ارشاد ربا نی ہے:
قل ان کان آبائکم و ابنائکم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال ن اقترفتمو ہاوتجارۃ تخشون کسادہاومسکن ترضونہااحب الیکم من اللہ ورسولہ وجہادفی سبیلہ فتربصواحتی ےأتی اللہ بأمرہ واللہ لا یہدی القوم الفاسقین(سورہ توبہ)
ترجمہ: آپ کہدیجیے کہ اگر تمہارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس میں نکاسی نہ ہونے کا تم کو اندیشہ ہو اور وہ گھر جن کو تم پسند کر تے ہو، تم کواللہ، اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کر نے سے زیادہ پیارے ہوں تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالی اپنا حکم (عذاب)بھیج دے اور اللہ فاسق قوم کو ہدایت نہیں دیتا“
اس آیت میں فوقیت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کو دی گئی ہے۔ اسی کی تاکید احادیث نبویہ میں بھی کی گئی ہے:
لایؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین(بخاری و مسلم)
ترجمہ:تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن(کامل) نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، اک کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں“
”من احبنی کان معی فی الجنۃ“
ترجمہ: جس نے مجھ سے محبت رکھی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا“
یہ وہ جاں نواز مژدے ہیں جو حب نبی میں سرشار وں اور فدا کاروں کو سنائے گئے ہیں اور جوآقا ﷺ کی حیات طیبہ کے ایک ایک واقعہ کو سر چشمہئ بصیرت و ہدایت تصور کرتے ہیں۔یہ دیوانے آپ ﷺ کی ولادت باسعادت، عہد طفولیت، عہد شباب، بعثت و نبوت، دعوت و عبادت، زہدو تقوی، خشیت و انابت، قربانی،جہاد، اعلان وپیغامات، اخلاق و کر دار، خصائل و شمائل، سیرت وصورت، نششت و بر خاست، رفتاروگفتار، ایک ایک سکون وحرکت، اصحاب، احباب، ازواج مطہرات، اولاد، خادم، سواری، جنگ و حرب اور فتح و کامرانی کا تذکرہ کرکے اپنے ایمان و ایقان میں تا زگی  اور اپنی محبت میں توانائی پیدا کر تے ہیں۔
مگر اظہار محبت وعقیدت کے پیمانے نہ یکساں ہیں اور نہ ہی مساری۔ باپ بیٹے سے محبت کر تاہے اور بیٹا باپ سے، شوہر و بیوی کے مابین بھی محبت کے کنول مسکراتے ہیں۔ استاد وشاگرد کی بنیاد بھی محبت پر ہوتی ہے اور دوست و احباب کے خوشگوار تعلقات میں بھی محبت کا اہم کردار ہو تاہے……مگر انصاف کے ساتھ بتائیے!کیا ان سب کے اظہار محبت کے پیمانے یکساں ہوتے ہیں؟ الفاظ و القاب مساوی ہو تے ہیں؟ اور انداز و ادا مماثل ہو تے ہیں؟ ہر جگہ خاص انداز، منفرد القاب اور جدا گا نہ ادا کی کار فر مائی نظر آتی ہے۔ محبوب کا مقام و مر تبہ پیش نظر ہو تا ہے اور یہ عین اظہار محبت کے تقاضے ہیں ورنہ تو ہین محبت اور بے ادبی و گستاخی لازم آئے گی!!
ہمارے محبوب آقا ﷺ ہیں۔ ان کا مقام، ان کا تقدس، ان کی عظمت و رفعت ہمارے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ اگر ہم نے یہاں افراط و تفریط سے کام لیا تو ممکن ہے حریم ایمان سے ہمارا اخراج ہو جائے۔ اس لیے یہاں کسی طرح کے ناشائستہ اور نا زیبا انداز سے احتراز لازم ہے۔
آج جب حب نبی ﷺ کے اظہار کے جو طریقے رواج پارہے ہیں انھیں دیکھ کر روح کانپتی ہے اور سراپا لرزتاہے۔ جو سراسر قران و احادیث، سلف صالحین اور اولیا و بزرگان دین کے طریقے سے متصادم ہیں۔ نعتیہ اشعار تقدس نبی سے عاری ہیں۔ تقاریرمیں صحیح سیرت نبویہ کے اظہار کا فقدان ملتاہے۔ اخبارات میں عریاں تصاویر سے مملو صفحات پر مقدس نبی کا تذکرہ ہو تاہے۔ ہماری محبت کے ضعف کا یہ عا لم ہے کہ کاغذی محبت ہمارا طرہ ٹھہر تاہے۔ جس پر ایمان کا سب سے مقدس کلمہ ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“تحریر ہو تاہے۔ جنھیں جلوس کے افراد اپنے ہاتھوں میں لے کرگلیوں اور سڑکوں پر لہراتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ جلوس کا اہتمام بڑی شان و شوکت سے کیا جاتا ہے۔ دیگر باتو ں سے قطع نظر صرف ان جلوس کا شریعت کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو کہیں بھی ان کے ثبوت فراہم نہیں ہوتے۔ بلکہ اس کے برعکس شریعت کی رہنمائی کچھ یوں ملتی ہے:
”وادناہا اماطۃ الأذی عن الطریق“(مسلم شریف:۲۶۱)
تر جمہ: راستوں سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹانا جزو ایمان ہے“
آپ ﷺ نے ہر ایسے عمل سے جو تکلیف انسان کا باعث ہو منع فرمایا!!……اب ذرا غورکیجیے اسلام ایک طرف راستوں سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹانا عین ایمان قرار دے رہا ہے اور ہم جلوس کی شکل میں راستوں، گلیوں اور کوچوں پر اسلام کے اس صریح حکم کی مخالفت کر رہے ہیں۔ لو گوں کی آمدو رفت کا ہمیں خیال نہیں ہو تاہے۔ انھیں تکلیف پہنچاکر ہم تصور کر تے ہیں کہ ہم نے اشا عت اسلام کی ذمہ داری ادا کر دی۔
اس جلوس کی اہمیت و افادیت پر ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ ”انٹر نیشنل نبی“ کا انٹر نیشل طریقے پر جشن منایا جائے۔ لہذا زیادہ سے زیادہ تعداد کی شر کت کے لیے جگہ جگہ اعلانات ہوتے ہیں، پوسٹر لگائے جا تے ہیں اور ہفتوں پہلے سے اس کی تیاری کی جاتی ہے۔ غور کیجیے!!……”انٹر نیشل“ کا اطلاق عمو ما اس دنیا پر ہو تا ہے۔ اس لفظ میں اس دنیا کے بعد والی دنیا کا کو ئی تصور نہیں۔ جب بھی یہ لفظ بولا جاتاہے اس سے مو جودہ دنیا ہی مراد لی جاتی ہے۔ چنانچہ یہ لفظ اس دنیا کے لیے مخصوص ہوگیا۔ اس میں وہ عمومیت نہیں رہی جو عالم آخرت کو بھی شامل ہو سکے۔ جب کہ آقا ﷺ دونوں دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ آ پ کی نبوت صرف اسی دنیاکے لیے نہیں بلکہ آخرت کو بھی شامل ہے:
”وماارسلنک الا رحمۃ للعلمین“
اب اس جلوس کے لیے پیش کی گئی دلیل کی کیا اہمیت ر ہ جاتی ہے۔ شان رسول ہاشمی ﷺ کی اہمیت میں اضافے کے بجائے خسران کا باعث بن گیا۔ پھر یہ دلیل کوئی قرآن وحدیث سے مستنبط بھی نہیں۔ کہ اس کی بنیاد پر جلسے کا اہتمام کیا جائے۔
اظہار محبت کے لیے اس موقع پر دیپ جلانا، چراغاں کر نا، دوکانوں کوسجانا، سواری کو سنوارنا اور غیر قوموں کے شعار کو اپناناعا م ہو چکا ہے۔ ان خرافات سے اسلام کا کیا واسطہ ہے۔ مزید حیرت و استعجاب کی بات یہ ہے کہ انھیں مذہبی امور تصور کیا جاتاہے۔ جو دوہرے گناہ کا باعث ہے۔ ایک اس کے مستقل حرام ہو نے کی وجہ سے اور دوسرااسلامی جزو خیال کرنے کی وجہ سے!!
غیر قوموں کے شعار کو اپنانے کے خلاف حدیث میں صراحت موجود ہے۔
”من تشبہ بقوم فہو منہم“(ابوداؤد:۱۳۰۴)
جوشخص کسی غیر قوم کی مشابہت اپنائے گا اس کا شمار اسی میں ہو گا
اظہار محبت کے اس موقع پر دیپ جلانا اور چراغاں کرنا کیا دیوالی سے مماثل نہیں؟کیا کرسمس کے موقع پر عیسائیوں کے پنج پہلو ستا روں کی شکل میں روشنی کے اہتمام سے میل نہیں کھاتا ہے؟
اگر ہم واقعی سچے عاشق ہیں اور حضور ﷺ سے ہمیں قلبی مؤدت اور دلی شغف ہے تو ہم ان راہوں کو اپنا ئیں جن کی طرف اسلام ہماری رہنمائی کر تاہے۔ دورد کی کثرت، جس کی تر غیب آپ نے خود امت کو دی ہے۔ ہر گھر میں اس کا اہتمام ہو۔ اپنے قول وفعل سے تعلیمات نبوی کا ہم ثبوت دیں۔ اخلاق و کردار سے ہم عشق نبی کا اظہار کریں۔ آپ ﷺ کی تعلیمات کو ان افراد تک پہنچائیں جو آپ کی انسا نیت تعلیمات سے دور ہیں۔ ان اسباب و عوامل کو اختیار کریں جن کے ذریعے آ پ کا پیغام ہر فرد تک پہنچے۔ ہمارے بزرگوں نے انھیں راہوں کو اپناکر حضور اقدس ﷺ کے ابدی و آفاقی پیغام کو پورے عالم تک پہنچایا اور سر خرو ہوئے۔ نہ کہیں دیپ جلایا، نہ کہیں چراغاں کیا، نہ جلوس کا اہتمام کیا۔ یہ بات تو جہ طلب ہے کہ اسلام کی تعلیمات کی اشاعت دیپ جلانے اور چراغاں کر نے سے نہیں بلکہ اخلاق و کردار، رفتارو گفتار اور عادات و اطوار کی حسین روشنی سے ہو تی ہے اور آج یہ امت اسی راہ سے منحرف ہے!!
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں