Share
Hayyan Khan
نیو ورلڈ آرڈر۔۔۔۔۔۔۔ نیا عالمی نظام یا نیا عالمی مذہب
دجال کے آنے سے پہلے یہودی بینکار دنیا میں ایک نیا عالمی مذہب نافذ کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ 1992ء میں نیو ورلڈ آرڈر کے نام سے دنیا میں اس نظام کو متعارف کرایا گیا۔ یہ درحقیقت ایک نیا مذہب ہے جسکی بنیاد خواہشات پر قائم ہے۔ عالمی ادارے ساری دنیا میں اس مذہب کو رائج کرنے کے لئے متحرک ہوئے اور آپ یہ سوچ کر حیران ہوں گے کہ 1992ء کے بعد کتنی تیزی سے دنیا کے ہر شعبے میں تبدیلی آئی ہے۔
ظاہرا یہ نظام دنیا کی اقتصادی صورت حال سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس نظام کو ایک ضابطہ حیات کے طور پر مسلط کیا گیا۔ اخلاقیات اور دینی اعتبار سے اس کے راستے میں واحد رکاوٹ چونکہ اسلام تھا چنانچہ اسلام کی ان تعلیمات کو یکسر تبدیل کرنے پر زور دیا گیا جو اس نئے مذہب کے راستے میں رکاوٹ بن سکتی تھیں۔
لوگوں کی طرز زندگی مکمل اس نئے مذہب کے سانچے میں ڈھالنا عالمی اداروں کا ہدف تھا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ معاشرے کے نظام کو تبدیل کرنے کے لئے ہر شعبے میں محنت کی گئی۔ لوگوں کا پہناوا، کھانے پینے کے اوقات، سوناجاگنا، طرز رہائش انسان کی ذاتی زندگی، شادی کب ہونی چاہیے، بچے کتنے ہوں، خواہشات میں اضافہ، تعلقات کی بنیاد، کاروبار کے طور طریقے، ان تمام باتوں میں لوگوں کو کھینچ کر اس نئے مذہب میں داخل کیا گیا۔
صرف یہی نہیں کی عالمی اداروں نے بدمعاشی سے اسکو دنیا میں نافذ کرایا بلکہ اس کے علاوہ کسی اور مذہب کو بحیثیت طرز زندگی یا ضابطہ حیات کے اختیار کرنے پر باقاعدہ جنگوں کا اعلان کیا گیا اور ان قوموں کا کھانا پینا بند کرنے سے لیکر ادویات تک اور پھر ان ممالک پر قبضہ کر کے وہاں اپنا یہی نیا مذہب طاقت کے زور پر نافذ کیا گیا۔ اس کے بعد اس کی حفاظت کے لئے تمام دنیا کی فوج کو وہاں تعینات کر دیا گیا۔ دنیا کا کوئی بھی ملک اس نئے مذہب کی شریعت پر عمل کرنے کا پابند ہے ورنہ اس کو دہشتگرد قرار دیکر پتھروں کے دور میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ سمجھنے کے لئے ایک بہت ہی معمولی مثال آپ کو دیے دیتے ہیں۔
یہودی اداروں کی تیار کردہ مشروبات کو ہی لے لیجیئے۔ مثلا پیپسی، کوک اور منرل واٹر۔ ان کا استعمال اس نئے مذہب میں لازمی قرار پایا ہے۔ چنانچہ کوئی ملک اپنے ہاں ڈاکٹر حضرات کی تحقیقات کے بعد اسکے نقصانات کو دیکھتے ہوئے اس پر پابندی لگانا چاہے تو دنیا کی کوئی حکومت ایسا نہیں کر سکتی۔ خواہ اس کے لئے اس ملک کے خلاف پابندیاں عائد کرنی پڑیں۔ یہ بات الگ ہے کہ وہ مذہب کا حصہ کہہ کر نافذ نہیں کرتے بلکہ اس کو ایک دوسرا نام آزادانہ عالمی تجارت کے منافی قرار دیکر بزور قوت اسکو مسلط کرتے ہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ پیپسی یا منرل واٹر پینا تو ہر شخص کا اپنا اختیاری فعل ہے۔ آپ کا یہ سوچنا درست نہیں ہے۔ انفرادی طور پر بھی طاقت ہی کے زور پر لوگوں کو یہ سب پلایا جارہا ہے۔ یہ میڈیا کی طاقت ہے جو لوگوں کے ذہنوں کو مختلیف جادوئی طریقوں سے اپنے قبضے میں لئے ہوئے ہے۔ یہ نیا مذہب اپنے علاوہ کسی اور کو برداشت نہیں کرتا۔ اسکی بے شمار مثالیں زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہیں۔ یہاں تک کہ اگر اس مذہب کی شریعت میں غیر یہودی اقوام کو زہر پلانا، یا جراثیمی ہتھیاروں والا پانی پلانا لکھا جا چکا ہے تو یہ زہر ہر قوم کے بچوں کو پینا پڑے گا۔ نہ انفرادی طور پر اسکی مخالفت برداشت کی جائیگی نہ حکومتی سطح پر۔ اسکی زندہ جاگتی مثال پولیو کے قطرے اور خسرے کے ٹیکے ہیں۔ یہ زہر ہر باپ کو اپنے بچے کو پلانا پڑے گا۔ نہ فوج اس کے راستے میں مزاحم ہوگی اور نہ کوئی سیاسی پارٹی۔
سودی نظام اس یہودی شریعت کا اہم حصہ اور جان ہے۔ لہذا دنیا میں اس سودی نظام کے علاوہ غیر سودی نظام برداشت نہیں کیا جائے گا البتہ نام کے ساتھ اپنے مروجہ مذہب کا نام لگانے کی اجازت ہے۔ مثال کے طور پر "ہندوبینک" ، "خالص رومن کیتھولک بینک" ، "اسلامی بینک" وغیرہ۔ لیکن نظام سود ہی رہنا چاہیئے البتہ اصطلاحات تبدیل کرنے کی اجازت ہے۔
اس نئے مذہب میں عورت ذات کی عزت کو چوٹیوں سے گرا کر فٹ پاتھوں، سڑکوں اور لمبی لمبی قطاروں میں خوار کرنا اور بغیر روک ٹوک کے مرد کی خواہشات کی تکمیل شریعت کا حصہ بنی، لہذا دنیا کو بھی اپنی عورتوں کے ساتھ ایسا ہی "انصاف" اور "مساوات" کا برتاو کرنا ہوگا۔
اس نئے مذہب کا واضح خاکہ ڈاکٹر جان کولیمن نے اپنی کتاب کو"نسپریٹرز ہایئرارکی" میں کھینچا ہے عالمی ادارے کے مختلیف نعروں، ناموں اور تنظیموں کے ذریعے اس نئے مذہب میں لوگوں کو داخل کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر کولمین کے یہ اقتباسات پڑھ کر آپکو احساس ہوگا کہ "نیو ورلڈ آرڈر" محض اقتصادی صورت حال سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ مکمل ایک نظام اور ایک نیا مذہب ہے۔ وہ لکھتا ہے: "ایک عالمی حکومت اور ایسا نظام جسکو ایک عالمی حکومت کنٹرول کر رہی ہو، مستقل غیر منتخب موروثی چند افراد کی حکومت اور ایک نیا مذہب ہے۔ وہ لکھتا ہے: "ایک عالمی حکومت اور ایسا نظام جسکو ایک عالمی حکومت کنٹرول کر رہی ہو، مستقل غیر منتخب موروثی چند افراد کی حکومت کے تحت ہو گا۔ جس کے امکان قرون وسطٰی کے سرداری نظام کی شکل میں اپنی محدود تعداد میں خود منتخب کرینگے۔ اس ایک عالمی وجود میں آبادی محدود ہوگی اور فی خاندان بچوں کی تعداد پر پابندی ہوگی۔ وہاں جنگوں اور قحط کے ذریعے آبادی کو کنٹرول کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ صرف ایک عرب نفوس رہ جائیں جو حکمران طبقے کے لئے کارآمد ہوں۔ اور ان علاقوں میں ہونگے جن کا سختی اور وضاحت کے ساتھ تعین کیا جائے گا۔ اور یہاں وہ دنیا کی مجموعی آبادی کی حیثیت سے رہیں گے۔
کوئی متوسط طبقہ نہیں ہوگا۔ صرف حاکم اور محکوم ہونگے، تمام قوانین دنیا کی سچی عدالتوں میں ایک جیسے ہوں گے ان پر عملدرآمد ایک عالمی حکومت کی پولیس اور متحدہ عالمی فوج کے ذریعے تمام سابقہ ممالک میں ہوگا۔ لیکن اب کسی طرح کی قومی سرحدیں نہیں ہونگی۔ نظام ایک فلاحی ریاست کی بنیادوں پر استوار ہوگا۔ جو لوگ ایک عالمی حکومت کے مطیع و فرمانبردار ہوں گے انہیں زندہ رہنے کے وسائل سے نوازا جائے گا۔ جو لوگ بغاوت کریں گے بھوکے مر جائیں گے یا باغی قرار دے دیے جائیں گے۔ انہیں جو بھی چاہے قتل کر سکے گا۔ آتشیں اسلحہ یا ہتھیار ذاتی طور پر رکھنا ممنوع ہوگا۔
صرف ایک مذہب کی اجازت دی جائے گی اور وہ ایک عالمی سرکاری کلیسا کی شکل میں ہوگا جو 1920ء سے وجود میں آچکا ہے۔ شیطانیت، ابلیسیت اور جادوگری کو ایک عالمی حکومت کا نصاب سمجھا جائے گا۔ ایک ایسی صورت حال تشکیل دینے کے لئے جن مِیں فرد کی آزادی کا کوئی تصور نہ ہو، کسی قسم کی جمہوریت، اقتدار اعلٰی اور انسانی حقوق کی اجازت نہیں ہوگی۔
ہر شخص کے ذہن میں یہ عقیدہ راسخ کر دیا جائے گا کہ وہ مرد ہو یا عورت ایک عالمی حکومت کی مخلوق ہے اور اس کے اوپر ایک شناختی نمبر لگا دیا جائے گا۔ یہ شناختی نمبر برسلزبلچیم کے نیٹو کمپوٹر میں محفوظ ہوگا۔ اور عالمی حکومت کی کسی بھی ایجنسی کی فوری دسترس میں ہوگا۔
شادی کرنا غیر قانونی قرار دے دیا جائے گا اس طرح کی خاندانی زندگی نہیں ہوگی جیسی آجکل ہے بچوں کو ماں باپ سے چھوٹی عمر مِیں علیحدہ کر دیا جائے گا اور ریاستی املاک کی طرح میں وارڈز میں پرورش ہوگی۔ خواتین کو آزادی نسواں کی تحریکوں کے ذریعے ذلیل کیا جائے گا۔ جنسی آزادی لازم ہوگی۔ خواتین کا 20 سال کی عمر تک ایک مرتبہ بھی جنسی عمل سے نہ گزرنا سخت ترین سزا کا موجب ہوگا۔ (امریکہ میں ہر سال 19 سال سے کم عمر غیر شادی شدہ لڑکیاں 10 لاکھ حرامی بچے پیدا کرتی ہیں)۔ خود اسقاط حمل سے گزرنا سکھایا جائے گا۔ اور 2 بچوں کے بعد خواتین اسکو اپنا معمول بنا لیں گی۔ ہر عورت کے بارے میں یہ معلومات عالمی حکومت کے علاقائی کمپوٹر میں درج ہوں گی (نادرا نے دجال کا یہ مقصد آسان کر دیا ہے) اگر کوئی عورت 2 بچوں کے بعد بھی حمل سے گزرے تو اسے زبردستی اسقاط حمل کے کلینک لے جایا جائے گا اور اسے آئندہ کے لئے بانجھ کر دیا جائے گا۔
جنسی اختلاط پر مبنی لٹریچر اور فلموں کو فروغ دیا جائے گا اور ہر سینما کے لئے لازم ہوگا کہ وہ جنسی فلمیں دکھائے جن میں ہم جنس پرستی پر مبنی فلمیں بھی شامل ہوں، ذہنی قوت سلب کرنے والی ادویات کا استعمال بھی وسیع تر کر کے اسے لازمی قرار دے دیا جائے گا۔ ذہن پر قابو پانے والی یہ ادویات کھانوں یا پانی کی سپلائی میں لوگوں کی مرضی یا علم کے بغیر دی جا سکیں گی (منرل واٹر، پیپسی، کوک وغیرہ میں)۔۔۔۔۔۔۔ تمام صنعتیں ایٹمی توانائی سسٹم کے ذریعے تباہ کر دی جائیں گی، صرف کمیٹی کے ارکان اور ممتاز ارکان کو کرہ ارض کے وسائل پر تصرف کا حق ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عمر رسیدہ اور دائمی مریضوں کے لئے زہر کا ٹیکہ لازمی قرار دے دیا جائے گا۔ دنیا سے کم از کم 4 ارب بے مصرف اور خوراک کے دشمن (خاص طور پر بوڑھے والدین) ختم کر دیے جائیں گے۔" (بحوالہ فریمسنری اور دجال از کامران رعد)
اس کتاب میں جو کچھ بیان کیا گیا وہ آپ اپنی آنکھوں سے عملی طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر عورتوں کو آزادی نسواں کی تحریکوں کے ذریعے ذلیل کیا جا رہا ہے۔ اسقاط حمل عام ہے۔ تمام دنیا کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیا جا رہا ہے۔ بوڑھے والدین کو گھروں سے نکال کر "بوڑھوں کے ہاسٹل" میں قید و تنہائی کی زندگی گزارنے کے لئے ڈالا جا رہا ہے۔
موجودہ دنیا کو ایک گلوبل ولیج بنانے کی جو کوشش کی جا رہی ہے اسکا مقصد بھی یہی ہے کہ سب نظام ایک عالمی قوت کے ہاتھوں میں سونپ دیا جائے۔ مختلیف ملکوں میں کمپوٹرائزڈ نظام کو تیزی سے پھیلانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے ساری دنیا کی نگرانی باآسانی کی جاتی رہے۔ نیو ورلڈ آرڈر کے بعد یہودی ملٹی نیشنلز نے بڑے بڑے تجارتی اداروں اور کمپنیوں کو خریدنا شروع کیا ہے۔ اس نظام میں مزید تیزی 1999ء کے بعد لائی گئی ہے۔ ا ۔ ان اقتباسات کو پڑھ کر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نیو ورلڈ آرڈر ایک نیا مذہب ہے جس کو دجال کے پیروکار ساری دنیا پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ 1991ء کے بعد آپ تمام دنیا میں ہر سطح پر تبدیلی ہوتی پائیں گے۔ اسکے بعد 1999ء ایسا سال ہے جس کے بعد یہ تبدیلی اور زیادہ تیزی کے ساتھ رونما ہوتی نظر آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دجال 1991ء سے اپنے یہودی ایجنٹوں کی خود رہنمائی کر رہا ہے اور اسی سال اس نے اپنے خاص یہودی بینکاروں کو اپنے نکلنے کا وقت (نکلنے سے مراد خدائی کا دعوٰی ہے) غالبا 2006ء یا 2007ء بتایا تھا۔ — with Sara Bhatti, Noor Mast, Zahid Gillani, Rida Noor, Noreen Khan, Maria Abdulrehman, Zarmeena Gull, Angel Sana, Cûtê Kâmêña, Namra Khan, Shaizz Gee,
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں