اب اوّل: اُردو شاعری میں طنز و مزاح ۔ تمہید
جس طرح خوشی اور غم کا عمل دخل تمام حیاتِ انسانی میں جاری وساری رہتا ہے، اسی طرح طنز و مزاح کو بھی زندگی میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ بچہ اپنی پیدائش ہی سے رونے کے بعد جو کام سیکھتا ہے، وہ ہنسی ہے۔ اس وقت وہ کسی بھی جذبے سے آگاہی کے بغیر صرف گدگدانے پر خوشی کا اظہار کر کے اپنی جبلت کا احساس دلاتا ہے۔ انسان کے علاوہ کوئی بھی جاندار اس عمل پر قادر نہیں اور مولانا حالی نے اسی لیے غالب کو حیوانِ ظریف قرار دیا تھا۔ صرف غالب ہی نہیں بلکہ تمام انسان اس جذبے کے حامل ہوتے ہیں :
’’مولانا حالی نے غالب کو اُن کی شاعری اور خطوط کے حوالے سے حیوانِ ظریف کہا تھا۔ مقصود یہ تھا کہ غالب کے جبلی اور حسّی نظام میں طنز و مزاح کو غیر معمولی دخل ہے اور ان کی کوئی بات ظرافت سے خالی نہیں ہوتی۔ لیکن ایک غالب ہی پر موقوف نہیں ، دنیا کا ہر آدمی حیوانِ ظریف کہلانے کا مستحق ہے کہ شوخی و ظرافت یا ہنسنے ہنسانے کی صلاحیت، کم یا زیادہ، ہر شخص میں فطرتاً اور طبعاً پائی جاتی ہے۔ اس صلاحیت کو آدمی کے شرفِ خاص سے تعبیر کر سکتے ہیں کہ محققین کے نزدیک حیوانِ ناطق کے سوا دُوسرے حیوانات اس نعمت سے محروم ہیں۔ ‘‘ [۱]
شعری اصطلاح میں طنز اور مزاح کا مفہوم جدا جدا ہے۔ راقم الحروف کے نزدیک مزاح اور طنز میں فرق کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ کسی کے ساتھ ’’ مذاق کرنے‘‘ کو مزاح اور کسی کا ’’مذاق اُڑانے‘‘ کو طنز کہا جائے گا۔ ’’مذاق کرنا‘‘ اور ’’مذاق اُڑانا‘‘ دو الگ الگ کیفیتیں ہیں اور ان دونوں میں وہی فرق ہے جو گدگدانے اور تھپڑ لگانے میں ہے۔ مزاح (Humour) اس وقت جنم لیتا ہے جب فارغ البالی کا دور دورہ ہو، ہر جانب سکون و اطمینان چھایا ہو اور معاشرے میں اعلیٰ انسانی اقدار، چند خرابیوں کے باوجود حیاتِ انسانی پر حاوی ہو جائیں۔ مزاح کی کونپلیں ایسا سازگار ماحول پا کر گھنا درخت بن جاتی ہیں۔ اس درخت کی شاخیں ہر جانب پھیل کر معاشرہ کے افراد کے لیے خالص مزاح کی صورت میں خوشگوار آکسیجن فراہم کرتی ہیں۔ مزاح افرادِ معاشرہ میں تحمل، بردباری، مروّت اور زندہ دلی کی خصوصیات پیدا کر کے زندگی کے پھیکے پن میں رنگ بھر کر اسے خوشگوار بنا دیتا ہے۔ مزاح نگار کے دل میں ہمدردی اور اُنس و محبت کی فراوانی، بے اعتدالیوں کو دریافت کر کے ان کا علاج میٹھے شربت سے کرتی ہے جس سے معاشرے سے آہ کے بجائے واہ کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ اس بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں :
’’۔ ۔ ۔ مزاح نگار اپنی نگاہِ دوربین سے زندگی کی ان ناہمواریوں اور مضحک کیفیتوں کو دیکھ لیتا ہے جو ایک عام انسان کی نگاہوں سے اوجھل رہتی ہیں۔ دوسرے ان ناہمواریوں کی طرف مزاح نگار کے ردعمل میں کوئی استہزائی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ ان سے محظوظ ہوتا اور اس ماحول کو پسند بھی کرتا ہے جس نے ان ناہمواریوں کو جنم دیا ہے۔ چنانچہ ان ناہمواریوں کی طرف اس کا زاویۂ نگاہ ہمدردانہ ہوتا ہے۔ تیسرے یہ کہ مزاح نگار اپنے ’’تجربے‘‘ کے اظہار میں فن کارانہ انداز اختیار کرتا ہے اور اسے سپاٹ طریق سے پیش نہیں کرتا۔ ۔ ۔ ‘‘ [۲]
مزاح کے برعکس طنز(Satire )کی پیدائش اس وقت ہوتی ہے جب معاشرہ بدحالی کا شکار ہو، امن وامان مفقود ہو جائے اور انسانی قدروں کی پامالی معمول بن جائے۔ ایسے ماحول میں لوگوں کی قوتِ برداشت جواب دے جاتی ہے۔ مروّت، زندہ دلی اور دیگر اوصافِ حمیدہ دم توڑ کر طنز کو جنم دیتے ہیں۔ طنز ایسے ماحول میں پروان چڑھتا ہے جہاں کئی قسم کی ناہمواریاں اپنی جڑیں مضبوطی سے گاڑ کرمستقل حیثیت اختیار کر لیں۔ طنز اپنے اردگرد پھیلے ہوئے مسائل کی اصلاح کے لیے میٹھی گولیوں کے بجائے نشترکواستعمال میں لاتا ہے۔ طنز کی مزید وضاحت درج ذیل اقتباس سے بخوبی ہوتی ہے:
’’۔ ۔ ۔ طنز کی تخریبی کارروائی صرف ناسور پر نشتر چلانے کی حد تک ہے۔ اس کے بعد زخم کا مندمل ہو جانا اور فرد یا سوسائٹی کا اپنے مرض سے نجات حاصل کر لینا یقیناً اس کا بہت بڑا تعمیری کارنامہ ہے، لیکن طنز کے لیے ضروری ہے کہ یہ مزاح سے بیگانہ نہ ہو بلکہ کونین کو شکر میں لپیٹ کر پیش کرے۔ دوسرے پردہ دری اور عیب جوئی کرتے وقت لطیف فن کارانہ پیرایۂ اظہار اختیار کرے۔ تیسرے کسی خاص فرد کے عیوب کی پردہ دری کو زندگی اور سماج کی عالمگیر ناہمواریوں کی پردہ دری کا وسیلہ بنائے۔ جہاں ایسا نہیں ہوتا طنز، طنز نہیں رہتی۔ محض پھبتی، استہزاء یا ہجو کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ [۳]
اردو شاعری میں طنز و مزاح کی روایت خاصی قدیم ہے۔ لیکن اس کو جو اہمیت ’’اودھ پنچ‘‘ کے عہد سے جدید ترین دور تک حاصل ہوئی، اس کی جھلکیاں ( چند مثالوں کے علاوہ) اس سے پہلے کی شاعری میں کم کم ملتی ہیں۔ اس کے باوجود اودھ پنچ سے پہلے کا عہد تفصیل کا طالب ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں