پیر، 31 اگست، 2015

طنزومزاح

یات)

سید ضمیر جعفری نے ہمیشہ فکر و خیال کے نئے پہلو پیش نظر رکھے نئے تجربات ،متنوع مو ضوعات اور شگفتہ پیرایہ اظہار ان کے اسلوب کے امتیازی اوصاف ہیں ۔وہ تخلیق فن کے لمحوں میں مزاح کو ایک ایسی ذہنی کیفیت سے تعبیر کرتے تھے جو فکر و نظر کو اس انداز میں مہمیز کرے کہ قاری خندہ ءبے اختیار کی کیفیت سے آشنا ہو اور شگفتگی کا احساس دل و دماغ پر فرحت ،مسرت اور آسودگی کے نئے در وا کر دے ۔ان کی ظریفانہ شاعری نہ صرف دلوں کو تازگی اور مسرت کے احساس سے سرشار کرتی ہے بلکہ اذہان کی تطہیر و تنویر کا بھی اہتمام کرتی ہے ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں ایک عالمانہ شان اور احساس دل ربائی ہے جس کے معجز نما اثر سے انسانی شعور کو ترفع نصیب ہو تا ہے اور قاری اس سے گہر اثر قبول کرتا ہے ۔سید ضمیر جعفری کی شگفتہ بیانی اپنی اصلیت کے اعتبار سے جہاں ہماری معاشرتی زندگی کی ذہنی استعداد کی مقیاس ہے

وہاں اس میں ہماری تہذیبی ،ثقافتی ،معاشرتی اور عمرانی اقدار و روایات کا احوال بھی مذکور ہے ۔انھوںنے اپنی ظریفانہ شاعری کے ذریعے اپنے عہد کے تمام ارتعاشات کو جس فنی مہارت ،خلوص اور دردمندی کے ساتھ اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے وہ ایک منفرد تجربے کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔وہ بنی نوع انسان کے مسائل کا جائزہ انسانی ہمدردی کے جذ بہ سے سرشار ہو کر لیتے ہیں اور اس طرح زندگی کی نا ہمواریوں کے بارے میں ان کا ہمدردانہ شعور ید بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے ۔انھو ں نے اردو کی ظریفانہ شاعری کو نئے احساسات ،متنوع تجربات اور نئی جہات سے مالا مال کر دیا۔ان کی شاعری میں زندگی اور اس کے تمام نشیب و فراز کے بارے میں جو صد رنگی جلوہ گر ہے اس کی مسحور کن اثر آفرینی قاری کو اپنی گرفت میںلے لیتی ہے ۔ان کی شاعری میںچبھن اور نشتریت کی موجودگی بھی قاری کو گوار ا ہو جاتی ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے زہر خند کی یہ کیفیت ہمارے مسموم ماحول کا واحد تریاق ہے ۔ان کی ظریفانہ شاعری ادب اور کلچر کے تمام پہلو سامنے لاتی ہے ۔ان کی نظم ” بیماری کا نام “ قابل غور ہے :
زندگی ہے مختلف جذبوں کی ہمواری کا نام
آدمی ہے شلجم و گاجر کی ترکاری کا نام

علم الماری کا ،مکتب چاردیواری کا نام
ملٹن اک لٹھا ہے ،مومن خان پنساری کا نام

صاف کالر کے تلے معقول اجلی سی
کا شاہیں تو ہم سے اڑ چکا
اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو

ایک حساس ،پرخلوص اور دردمند تخلیق کار کی حیثیت سے سید ضمیر جعفری نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ۔انھوں نے تخلیقی اظہار کے جملہ ممکنہ امکانات کو بروئے کار لانے کی مقدور بھر سعی کی ۔وہ بہ یک وقت سپاہی ،صحافی ،شاعر ،مزاح نگار ،میزبان ،براڈکاسٹر اور نقاد تھے ۔پاکستان ٹیلی ویژن پر انھوں نے جو پروگرام” آپ کا ضمیر “ کے نام سے پیش کیا وہ بے حد مقبول ہوا۔اردو مزاح میں وہ سید احمد شاہ بخا ر ی پطرس کے اسلوب کو بہت اہم قرار دیتے تھے اسی طرح براڈکاسٹنگ میں انھیں سید ذوالفقار علی بخاری کااسلوب پسند تھا۔اپنی اندرونی کیفیات ،جذبات اور احساسات کو وہ ہنسی کے حسین اور خوش رنگ دامنوں میں اس خوش اسلوبی سے چھپا لیتے ہیں کہ ان کے اسلوب کا دائمی تبسم قاری کو مسحور کر دیتا ہے وہ طنز و مزاح کے فرغلوں میں لپیٹ کر زندگی کی تلخ صداقتیں ،بے اعتدالیاں اور تضادات نہایت دل نشیں انداز میں اشعار کے قالب میں ڈھالتے ہیں ۔ان کے اسلوب پر ایک مصلح ،ناصح اور فلسفی کا شائبہ ہوتا ہے ۔وہ کسی طور بھی محض ہنسانے والے کا کردار ادا کرنے پر مطمئن نہیں ہوتے بلکہ مزاح کو تو وہ حصول مقصد کا ایک زینہ خیال کرتے ہیں ۔ان کی وہ باتیںبھی جو کہ وہ ہنسنے کی غرض سے اشعار کے قالب میں ڈھالتے ہیں اپنے اندر زندگی کے متعدد اسرار و رموز لیے ہوتی ہیں۔وہ جس انداز میں تخیل کی جولانیاں دکھاتے ہیں اسے دیکھ کر ان کے مقاصد کی رفعت ،اسلوب کی گہرائی اور زبان و بیان کی تاثیر کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔انسانیت کے وقار اور سربلندی کے لیے انھوں نے مقدور بھر سعی کی ۔معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی خود غرضی،ہوس اور مفاد پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو وہ سخت نا پسند کرتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی معاشرہ جب اندرونی تضادا ت،بے اعتدالیوں اور ناہمواریوں پر چپ سادھ لیتا ہے اور کسی اصلاحی بات پر ٹس سے مس نہیں ہوتا تو یہ بات خطرے کی گھنٹی ہے کہ معاشرہ بے حسی کی بھینٹ چڑھ گیا ہے اور یہ صور ت حال کسی معاشرے ، سماج اور تہذیب کے لیے بہت برا شگون ہے۔احساس ذمہ داری کا فقدان آج ہمار ا بہت بڑا المیہ ہے ۔ہم اپنی تمام کوتاہیوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر راہ فرار اختیار کرتے ہیں اور کسی صورت میں بھی اپنے احتساب پر آمادہ نہیں ہوتے ۔
قصور
ہم کریں ملت سے غداری قصور انگریز کا
ہم کریں خود چور بازاری قصور انگریز کا

گھر میں کل بینگن کے بھرتے میں جو مرچیں تیز تھیں
اس میں بھی ہو گا بڑا بھاری قصور انگریز

انسانی فطرت کی خامیاں ،انسانی مزاج کی بے اعتدالیاں اور معاشرتی زندگی کے جملہ تضادات کو سید ضمیر جعفری نے اپنی ظریفانہ شاعری میں مواد کے طور پر جس خلاقانہ مہارت سے استعمال کیا ہے وہ ان کے صاحب اسلوب تخلیق کار ہونے کی واضح دلیل ہے ۔وہ ادب کو ایک سماجی فعالیت سے تعبیر کرتے تھے ۔انھوں نے ادب کو عمرانی صداقتوں کا آئینہ دار بنا دیا ہے ۔ان کے اسلوب میں پائی جانے والی شگفتگی ان کی شخصیت کی نفاست کی مظہر ہے ۔ان کے اسلوب میں ہمدردی ،انس ،خلوص،مروت ،ایثار اور افہام و تفہیم کی جو فضا ہے وہ انھیں خالص مزاح نگار کے بلند مقام پر فائز کرتی ہے ۔ان کی مضبوط اور مستحکم شخصیت میں اولوالعزمی،بلند ہمتی اور مستقل مزاجی کے عناصر پوری قوت کے ساتھ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ان کی مسحور کن شخصیت ان کے منفرد اسلوب میں اپنی پوری تابانیوں کے ساتھ اشعار کے پس منظر میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے ۔ایک نقاد جب کسی قوم کے فکری ارتقا کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے تو وہ اس امر پر توجہ دیتا ہے کہ اس قوم کی لسانی بنیاد کس قدر مستحکم ہے ۔یاد رکھنا چاہیے لسانیات کی تفہیم کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کوئی بھی قوم اپنی زبان کے استعمال میں کس قدر ذہنی بالیدگی اور پختگی کا مظاہرہ کرتی ہے ۔اس امر کی جانچ پرکھ کا ایک ہی معیار ہے کہ اس زبان میں ظرافت کا کتنا وقیع سرمایہ موجود ہے ۔سید ضمیر جعفری نے اردو زبان کو طنز و مزاح کے حوالے سے ثروت مند کر دیا ۔ان کی تخلیقی فعالیت سے اردو زبان میں طنز و مزاح کی ثروت میں قابل تحسین اضافہ ہوا۔انھوں نے اپنے تخلیقی تجربات کے اعجاز سے اردو زبان کو بلند پایہ ظرافت کے شاہکاروں سے متمتع کیااور یہ ثابت کر دیا کہ اردو زبان دنیا کی متمدن زبانو ں میں شامل ہے ۔ان کی شاعری کے مطالعہ سے معاشرتی بصیرت کو نمو ملتی ہے اور اس طرح قاری اپنے اندر ایک ولولہءتازہ محسوس کرتا ہے ۔اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت ہے اور مرحلہ ءشوق ہے کہ ابھی طے نہیں ہو پا رہا ۔

سید ضمیر جعفری نے انسانیت کو اس عالم آب و گل کی عظیم ترین قدر قرار دیا ۔انسانیت کی توہین ،تذلیل، تضحیک اور بے توقیری کرنے والوں کے خلاف انھوں نے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔انھوں نے ظالم و سفاک ،موذی و مکار استحصالی عناصر کے مکر کا پردہ فاش کرنے میں کبھی تامل نہ کیا ۔آج ہمارے دور کا المیہ یہ ہے کہ فرد کی بے چہرگی اور عدم شناخت کا مسئلہ روز بہ روز گمبھیر صورت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ ان لرزہ خیز اعصاب شکن حالات میں زندگی کی رعنائیاں گہنا گئی ہیں ،رتیں بے ثمر ،کلیاں شرر،آہیں بے اثر ،زندگیاں پر خطر اور آبادیا ں خوں میں تر کر دی گئی ہیں۔سید ضمیر جعفری کی ظریفانہ شاعری اس امر پر اصرار کرتی ہے کہ ہوائے جور و ستم میں بھی رخ وفا کو بجھنے نہ دیا جائے۔حوصلے ،امید اور رجائیت پر مبنی یہ ظریفانہ شاعری ہر عہد میں دلو ں کو مرکز مہر و وفا کرنے کا وسیلہ ثابت ہو گی ۔ان کی ظریفانہ شاعری ایک خاص نوعیت کی انفعالی کیفیت اوربصیرت کی امین ہے جس کی بدولت ہجوم یاس میں بھی دل کو سنبھالنے میں کامیابی ہوتی ہے ۔ظرافت نے ان کو عشق کے بلند مقام تک پہنچا دیا۔ان کا مزاح گہری سوچ ،فکری بالیدگی ،ذہن و ذکاوت اور تجزیہ سے بھر پور ہے ۔عناصر میں رشتوں کا ایک نظام کارفرما ہوتا ہے ۔سید ضمیر جعفری نے ایک کامیاب مزاح نگار کے طور پر ان عناصر کی بے اعتدالیوں کے بارے میں ہمدردانہ شعور کو اجاگر کیااور فن مزاح نگاری کے تمام پہلوو ءں کو اپنے اسلوب کی اساس بنایا۔وہ اعتدال پسندی کی روش اپنانے پر زور دیتے ہیں اور ان کا پیغام مسرت ہے جہاں تک پہنچے ۔

اردو کی ظریفانہ شاعری کا یہ آفتاب 16مئی1999کو غروب ہو گیا۔ان کی وفات سے اردو کی ظریفانہ شاعری کا ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ان کی شاعری انھیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام پر فائز کرے گی ۔لوح جہاں پر ان کا نام ہمیشہ ثبت رہے گا ۔وہ ایک عظیم الشان شعری روایت کے موجد تھے ۔ان کی وفات کے ساتھ ہی اردو شاعری میں طنز و مزاح کی ایک درخشاں روایت نئی نسل کو منتقل ہو گئی ۔ان کے بارے میں احباب یہ کہا کرتے تھے کہ وہ اس لیے ہنستے ہیں کہ کہیں دیدہ ءگریاں کی نہر انھیں بہا نہ لے جائے ۔اب سیل زماں نے ہمارے ہنستے بولتے چمن کو مہیب سناٹوں اور جان لیوا دکھوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ۔
برس گیا بہ خرابات آرزو تیرا غم
قدح قدح تیری یادیں سبو سبو تیرا غم
More F

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں