حیات
اسلام اور ماحولیات
ڈاکٹر بدرالاسلام
ماحولیات سے متعلق مسائل گو کہ جدید دور کی پیداوار ہے(بالخصوص ۲۰ویں صدی) ۔اس وقت انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے نتیجے میں ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے، لہٰذا اب ماحولی مسائل اور ان کا حل عالم انسانی کا سب سے اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ فطری ماحول کی خرابی نے اب انسانی وجود کی بقا پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
خالق کائنات جو کہ عالم الغیب بھی ہے، بھلا اس سے کیسے بے خبر رہتا؟ اسی لیے اس نے اپنے دین ’اسلام‘ کی تکمیل کے ساتھ نبی آخر الزماں کے توسط سے انسانوں کو ’ماحولیات‘ سے متعلق جامع رہنمائی دی۔ اگر ان ہدایات پر عمل ہوتا تو ہم ماحولیاتی مسائل سے ناآشنا رہتے۔ بعد از خرابیِ بسیار، اب بھی وقت ہے کہ ہم اس دینِ فطرت کی رہنمائی سے فائدہ اٹھائیں اور عالم انسانی کو اس خدائی ہدایت سے روشناس کرائیں۔ ذیل کے مقالے میں ماحولیات سے متعلق اسلامی تعلیمات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
اسلام ماحول اور اس سے متعلق مسائل پر ایک ہمہ جہتی نقطۂ نظر رکھتا ہے۔ اسلام انسان کے دیگر جان داروں (نباتات و حیوانات) ، طبعی ماحول اور سماجی ماحول سے متعلق واضح ہدایات رکھتا ہے۔ انسان اور ماحول کے درمیان تعاملات کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات جامع اور کافی ہیں۔
فطری ماحول کی اہمیت و افادیت قرآن اور احادیث میں جابجا آئی ہے۔ قرآن میں احکامات والی آیات کی نسبت ان آیات کی تعداد زیادہ ہے جن میں فطرت اور فطری مظاہر کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس لیے فطرت کا مطالعہ اہلِ ایمان پر ضروری قرار پاتا ہے(محمد کلیم الرحمن، اسلام اینڈ انوائرونمنٹ، دہلی ۱۹۹۷ء، ص ۱۴۶)۔ اس طرح کی کچھ آیات اپنے مقام پر زیر بحث آئیں گی۔ اسی طرح اسلام کا دوسرا ماخذ سیرتِ رسول ﷺ سے بھی ہمیں ماحولیات کے گوناگوں پہلوؤں پر رہنمائی ملتی ہے۔ بالخصوص قدرتی وسائل کا استعمال اور ان کا تحفظ، وسائل کا مناسب استعمال، ان میں اسراف سے پرہیز وغیرہ۔ انھی تعلیمات کے بدولت اسلامی تمدّن میں آلودگی سے پاک ماحول کو پروان چڑھایا گیا ہے۔
ایک حدیث میں آپ ﷺ سے روایت کیا گیا کہ کوئی مومن ایسا نہیں ہے جو کوئی درخت لگائے یا کھیتی کرے، اور اس سے انسان اور پرندے فائدہ اٹھائیں اور اس کا اسے ثواب نہ ملے۔ جو کوئی مردہ زمین کو پیداوار کے قابل بنائے، اس کے لیے اس میں ثواب ہے۔(عبداللہ المامون، Saying of Muhammad، لاہور، ۱۹۰۵ء، ص ۷۴۔۷۶)
اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ کی تعلیمات میں درختوں کو کاٹنے کی واضح ممانعت آئی ہے۔ حتیٰ کہ حالت جنگ میں بھی درخت کاٹنے سے منع کیا گیا ہے تاآنکہ وہ دشمن کے لیے فائدہ مند نہ ہو جائیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان فوجوں کو اس بات کی ہدایت تھی کہ وہ شہروں اور فصلوں کو برباد نہ کریں۔(سید ابوالاعلیٰ مودودی ، الجہاد فی الاسلام، دہلی ۱۹۷۴ء، ص ۲۲۷۔ ۲۳۱)
اسلام کا نقطۂ نظر
’زندگی‘ قدرتی ماحول کا ایک اہم ترین جز ہے۔ اللہ کی نظر میں زندگی خواہ انسانی ہو یا حیوانی دونوں کی قدرو منزلت ہے۔ایک اور حدیث کے ذریعے یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ ہمیں چوپایوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ، ثواب کا مستحق بناتا ہے۔ اسی کے ساتھ ہر تر جگر، رکھنے والے جان دار کی فلاح پر ثواب کی بشارت دی گئی ہے(حوالہ سابق عبداللہ المامون، ص ۷۵)۔ حیوانی زندگی کی بقا کا اندازہ اسلام کی اس تعلیم سے لگایا جاسکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’شکاری صرف کھیل کے لیے کسی جانور کا شکار نہ کرے‘‘۔ امام ابویوسف کے نزدیک: ’’وہ شخص جو قدرتی ماحول کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھتا، اسلامی شریعت کے نفاذ کے مناسب طریقۂ کار کو بھی نہیں سمجھ سکتا۔ (احسان اللہ خان ،سائنس، اسلام اینڈ ماڈرن ایج، دہلی ۱۹۸۰ء،ص ۵۴)
اسلام اپنے ماننے والوں سے صرف فطرت کی تعریف کے گن گانے کی توقع نہیں رکھتا، بلکہ اس کا مطالبہ تو یہ ہے کہ وہ خدا کی دیگر مخلوقات کے ساتھ اللہ واحد کی تسبیح بجا لائے۔ اسلام کے نزدیک ہر نوع کے جان دار ایک طرح کا گروہ ہیں، اور وہ سب آپس میں خیر خواہانہ تعلقات کے مستحق ہیں۔مسلمانوں کو اس بات کی تاکید کی گئی کہ وہ درختوں کے پھل ضرور کھائیں مگر اس کی شاخوں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچائیں۔ انھیں جمے ہوئے پانی میں گندگی کے ذریعے کسی بھی قسم کی آلودگی پیدا کرنے سے منع کیا گیا۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو تعلیم دیتا ہے کہ اگر وہ قیامت کو واقع ہوتا دیکھیں اور ان کے ہاتھ میں پودا ہو تو وہ اسے ضرور زمین میں لگادیں۔ قرآن آبی چکّر، فضا، نباتات، سمندر، پہاڑ وغیرہ کو انسان کے خدمت گار کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ اس طرح اہلِ ایمان کے دل میں فطرت سے یک گونہ محبت پیدا ہوتی ہے، اور وہ فطرت کے ساتھ اچھا برتاؤ اختیار کرتے ہیں۔ (اے۔آر۔اگوان، اسلام اینڈ انوائرون منٹ، دہلی، ۱۹۹۷ء، ص ۹۔۱۰)
ماحول اور فطری قوانین سے متعلق نقطۂ نظر اپنی جڑیں قرآن میں رکھتے ہیں۔ قرآن
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں