ہفتہ، 29 اگست، 2015

جنگلات اور ماحولیات

جنگلات اور ماحولیات
    نظام شمسی میں ہمارے سیارے کو ایک منفرد مقام حاصل ہے کہ صرف اسی پر زندگی اپنی گو نا گوں صفات کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ خلا سے کرۂ  ارض کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ دنیا بڑی حسین نظر آتی ہے کروڑوں سال پہلے جب زندگی نے اس سر زمین پر پہلی انگڑائی لی تھی تو یہ ایسی نہ تھی وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہمہ انواع و اقسام کے جانور اور پودے جنم لیتے گئے اور اس کے حسن میں اضافہ کرتے گئے اس وقت فطرت کی گود میں پلنے والا انسان بڑا معصوم اور قطعی بے ضرر تھا۔ فطرت سے اس کا گہرا اور قریبی رشتہ تھا۔ قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کو وہ بیش بہا عطیہ جان کر استعمال ضرور کرتا تھا مگر اس کے استحصال اور اس نظام میں مداخلت کا خیال کبھی نہیں آیا کہ وہ ماحول کا ایک لازمی عنصر بن کر زندگی گذارتا تھا۔ گھنے جنگل ، اونچے اونچے پہاڑ، سر سبز مرغزار، اٹھلاتی بل کھاتی ندیاں ، گنگناتے ہوئے جھرنے، شور مچاتے ہوئے آبشار قسم ہا قسم کے چرند و درند، خوبصورت رنگوں اور دلنشین آوازوں والے پرند، سرسبز و شاداب درخت، رنگ برنگے پھول اس کے دن بھر کے جسمانی تھکن اور ذہنی کلفتوں کو دور کرنے کا بڑا ذریعہ تھے۔
    ہندوستان اس معاملے میں خاصا خوش نصیب رہا ہے کہ اس وسیع و عریض ملک کو قدرت نے ان نعائم کے بخشنے میں ذرا زیادہ ہی فیاضی سے کام لیا ہے۔ ابتدا میں انسان نے قدرت کے خزانے سے خوب فائدہ اٹھایا۔ مادی بھی اور روحانی بھی جنگلات سیر و تفریح اور روحانی تر و تازگی اور تسکین کا سامان ہیں ۔ گہرے گھنے اور خاموش جنگلوں میں انسانوں کو روحانی روشنی اور من کی شانتی ملی، رشیوں منیوں اور گیانیوں نے آبادی سے دور، خاموش فضاؤں میں پناہ لے کر عرفان الہٰی حاصل کیا اور عبادت د ریاضت میں اپنی عمریں گذار دیں ۔ ہمارے قدیم فکر و خیال ، فلسفہ اور تہذیب و تمدن کے ارتقا و عروج میں جنگل کی پُر سکون فضا کا بڑا ہاتھ ہے غالباً اسی لیے درختوں کا اگانا ، سینچنا اور ان کی پرورش و پرستش کرنا متبرک مانا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ جس نے مذہب کی شکل اختیار کر لی اور اس طرح یہ ہندوستانی تہذیب کا حصّہ بن گئے۔
    زمانۂ  قدیم کے لوگوں نے قدرتی ماحول سے خوشگوار رابطہ قائم رکھا تھا وہ قدرتی توازن کو بگاڑے بغیر پوری طرح اس سے مستفیض ہوتے تھے مگر وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے نقطۂ  نظر میں تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوئی۔ وہ خود کو دھیرے دھیرے ان نعمتوں کے سیاہ و سفید کا مالک سمجھنے لگا اور اس دولت کو بے دریغ خرچ کرنا بلکہ زیادہ صحیح یہ کہنا چاہیے برباد کرنا شروع کیا۔ تہذیب و تمدن کے پروان چڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی رخنہ اندازی میں بھی اضافہ ہوا۔ پھر جدید سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی اسے ایک دوسرے تباہ کن موڑ پر لے گئی۔ انگریز جب ہندوستان آئے تو شکار کی بہتات دیکھ کر گویا پاگل سے ہو گئے چنانچہ اپنے اس شوق کو خوب پورا کیا۔ ادھر عالمی جنگوں کے چھڑ جانے سے انسانوں کو جنگلات اور جنگلی جانوروں سے زیادہ سابقہ پڑا اور ان کی ہوس ، جھوٹے وقار شکار کے شوق اور معاشی خوشحالی کی لگن نے ان کا جانی دشمن بنا دیا۔ بڑھتی ہوئی آبادی کو رہائش گاہیں اور غذا مہیا کرنے اور مختلف اشیائے زندگی کی تیاری کے لیے انسانوں نے جنگلوں کو صاف کرنا شروع کیا۔ یہ جنگل جو بارش برسانے ، زمین کی تخریب کاری کو روکنے ، آکسیجن کی مقدار کو متعین کرنے، فضا کو صاف رکھنے اور فضائی توازن کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار تھے دھیرے دھیرے غائب ہونا شروع ہوئے۔ جنگلی جانوروں کے مسکن تباہ ہوئے اور یہ جانور فرار ہونے پر مجبور ہوئے اس طرح دھیرے دھیرے ان کی نسلیں معدوم ہونے لگیں آج ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا سے چند ایسے جانوروں کی نسلیں ناپید ہونے کے قریب ہیں ، ماضی میں جن کے ریوڑ کے ریوڑ فطری ماحول میں قلانچیں بھرتے نظر آتے ہیں ۔ ختم ہو جانے کے خطرے سے دوچار جانوروں میں شیر ، شیر ببر ، چیتا، گینڈا، بارہ سنگھا، تغدار، پہاڑی کوئل ، لالہ تیتر اور جانوروں (بشمول پرندوں کے) اور بے شمار قسموں کے نام لیے جا سکتے ہیں علاوہ ازیں بعض آرائشی اور ادویاتی اہمیت کے حامل پودے بھی اس دنیا سے مٹ جانے کے قریب ہیں اور اگر یہی حال رہا تو ہماری آنے والی نسلوں کو ان کے بارے میں جاننے کے لیے کتابوں کا سہارا لینا پڑے گا جس طرح آج میمتھ، ڈائنا سور وغیرہ کی معلومات کے لیے ہمیں عجائب گھروں اور کتابوں کی طرف رجوع ہونا پڑتا ہے۔
    جنگلات کے خاتمہ سے ایک طرف قدرتی توازن برقرار نہ رہ سکا جس سے موسم متاثر ہوئے جس کا لامحالہ اثر خود انسان کی زندگی پر پڑا۔فضا جو کہ بڑی حد تک پاک صاف ہوا کرتی تھی وہ آلودہ ہوئی ۔ گنجان بستیوں سے گندے پانی اور انسانی فضلہ کے نکاس ،گھڑگھڑاتی مشینوں ، دھواں اگلتی چمنیوں اور حمل و نقل کے ذرائع نے روز افزوں ترقی نے ہوا اور پانی کو آلودہ کیا ۔ انسانی اور صنعتی فاضلات کو ٹھکانے لگانے کے لئے انسان کو

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں