ہفتہ، 29 اگست، 2015

ماحولیات

جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں غیر معمولی پیش رفت نے جہاں انسانیت کو ترقی کی نئی جہتوں سے روشناس کرایا ہے وہیں سیکولر اور آزاد طرزِ زندگی نے انسانیت کو وہ گہن لگا دیا ہے جس کی واضح مثال کائنات کے ماحول کی تباہی ہے۔ سائنس دانوں اور ماہرین ماحولیات کا خیال ہے کہ آئندہ صدیوں کا سب سے بڑا اورگمبھیر مسئلہ قوائد و ضوابط سے آزاد صنعتی ترقی ہے جس کے نتیجے میں کرئہ ارض پر نوع انسانی کی بقا اور زندگی داﺅ پر لگ چکی ہے۔ زیادہ سے زیادہ صنعتی پیداوار کی دوڑ میں کارخانوں اور فیکٹریوں سے روزانہ بہت بڑی مقدار میں صنعتی فضلہ جات اور زہریلے مادے خشکی، پانی اور فضا میں شامل ہو رہے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ہمارے پاس آلودگی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے کچھ زیادہ مہلت نہیں ہے۔ اگر موءثر اقدامات نہ کیے گئے اور آلودگی پر قابو نہ پایا جاسکا تو آئندہ دو صدیوں میں کرئہ ارض پر ہر قسم کی انسانی، حیوانی اور نباتی زندگی نیست و نابود ہوسکتی ہے۔
کیوںکہ آلودگی کے مسئلے کا سامناسب سے پہلے ترقی یافتہ ممالک کو کرنا پڑا اس لیے انھوں نے ہی سب سے پہلے اس پر قابو پانے پر توجہ دی۔ لیکن تیسری دنیا کے ملکوں میں آلودگی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی ہے اور ہنوز زبانی جمع خرچ ہے زیادہ کام ابھی تک دیکھنے میں نہیں آیا۔ پاکستان میں بھی صنعتی آلودگی کا مسئلہ زیرِ غور ہے۔ آلودگی کے مسائل پر توجہ، غور و خوض اور تحقیق کے لیے ملک کے چاروں صوبوں میں ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسیوں کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ آلودگی پر کنٹرول کے لیے ایک آرڈیننس بھی جاری ہوچکا ہے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں آلودگی کی افزائش کو روکنے کے لیے مزید قانون سازی کا عمل بھی جاری ہے۔ سب سے زیادہ اہمیت تربیت یافتہ کارکنوں اور سائنس دانوں کی تیاری کو دی جا رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے چاروں صوبوں میں مختلف یونی ورسٹیوں اور اداروں کو تربیت اور تحقیق کی ذمہ داری تفویض کر دی گئی ہے۔ چناںچہ پاکستان اور دوسرے ملکوں میں ماحولی تحفظات کو ابجو ترجیح اور اہمیت دی جا رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں کیریئر پلاننگ کے نقطہءنظر سے ماحولیات کا شعبہ بے حد اہمیت اختیار کرجائے گا۔

کام کی نوعیت

ماحولیات کا مضمون ماحولی تبدیلیوں، ان کے انسانی صحت پر اثرات اور ماحولی تحفظات کے طریقوں سے بحث کرتا ہے۔ چناںچہ ماحولیات کے طالب علم کو آلودگی اور اس کے محرکات کا وسیع مطالعہ کرنا ہوتا ہے۔ ماحولیات کا طالب علم زمین، فضا اور پانی میں آلودگی کا علیحدہ علیحدہ مطالعہ کرتا ہے۔ ساتھ ہی اسے اطلاقی کیمیا اور خورد حیاتیات کا علم بھی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ کیوںکہ اس کا اصل کام آلودگی کا مشاہدہ، اس کی جانچ پڑتال اور آلودگی پر کنٹرول ہے۔ اس کا زیادہ تر کام آلات کی مدد سے آلودہ ذرّات کے نمونے جمع کرنا، ان کا تجزیہ کرنا، ان کے اثرات کا تعین کرنا اور آلودگی کے تدارک کے لیے اقدامات تجویز کرنا ہے۔ اس پورے عمل میں میدانی تحقیق اور مساحت کے علاوہ وسیع تجربہ گاہی تحقیقات شامل ہیں۔

پاکستان میں ماحولیات کی تعلیم

پاکستان کی چار جامعات میں ماحولیات کی تعلیم ہوتی ہے۔ ان میں این ای ڈی انجینئرنگ یونی ورسٹی، مہران انجینئرنگ یونی ورسٹی، لاہور انجینئرنگ یونی ورسٹی اور کراچی یونی ورسٹی شامل ہیں۔
این ای ڈی انجینئرنگ یونی ورسٹی میں اگرچہ ماحولیات کا مضمون سول انجینئرنگ کے بیچلرز ڈگری پروگرام کا حصہ ہے لیکن پوسٹ گریجویٹ تعلیم این ای ڈی کے ”انسٹی ٹیوٹ آف انوائر نمینٹل انجینئرنگ اینڈ ریسرچ“ میں ہوتی ہے۔ یہ انسٹی ٹیوٹ 1986ءمیں قائم کیا گیا۔
ایم ایس سی (ماحولیاتی انجینئرنگ) کی تدریس شام اور صبح دونوں اوقات میں ہوتی ہے۔ شام کا تعلیمی پروگرام تین سال اور دن کا تعلیمی پروگرام دو سال پر محیط ہے۔ ایک تعلیمی سال دو سمسٹرز پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک سمسٹر کی فیس ڈیڑھ ہزار روپے ہے۔ امتحانات کی فیس اس کے علاوہ ہے۔
لاہور انجینئرنگ یونی ورسٹی میں ماحولیات کی تعلیم انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ انجینئرنگ میں دی جاتی ہے۔ یہ انسٹی ٹیوٹ1972ءمیں قائم ہوا تھا۔ انسٹی ٹیوٹ کے تحت ماسٹرز ڈگری، پی ایچ ڈی اور شارٹ کورسز میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔ لاہور انجینئرنگ یونی ورسٹی میں ماحولیات کے مضمون میں جو ڈگری دی جاتی ہے وہ ”ایم ایس سی ان پبلک ہیلتھ انجینئرنگ“ کہلاتی ہے۔
مہران انجینئرنگ یونی ورسٹی ، انوائر نمینٹل انجینئرنگ میں ایم ایس سی کی ڈگری دیتی ہے، جب کہ کراچی یونی ورسٹی ماحولیاتی سائنس میں ایم ایس سی کی ڈگری دیتی ہے۔

داخلے کی اہلیت

این ای ڈی یونی ورسٹی، مہران یونی ورسٹی اور لاہور انجینئرنگ یونی ورسٹی میں ایم ایس سی میں داخلے کے لیے کم از کم مطلوبہ قابلیت بی ای/بی ایس سی انجینئرنگ ہے۔ کراچی یونی ورسٹی میں ایم ایس سی انوائر نمینٹل سائنس میں داخلے کے لیے بی ایس سی ہونا ضروری ہے۔
ان تما

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں