جمعہ، 21 اگست، 2015

ادب اطفال کی اہمیت

ادب اطفال میں نئے رحجانات

بچوں کا ادب ، ادب کی ایک مشکل ترین صنف سمجھی جاتی ہے ۔کیوں کہ یہ ادب ایک مقصدی ادب ہوتا ہے ، اس کے ذریعے بچوں کو مسرت کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان میں تخیل کی صلاحیت پیداکرنے، جذبہ اور حوصلہ پروان چڑھانے،مختلف النوع تجربات سے روشناس کرانے، دنیااور لوگوں کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنے، ان میں ثقافتی و تہذیبی ورثے کو منتقل کرنے اوراخلاقی اوصاف کے نشوونما کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس ادب کے ذریعے ان میں پڑھنے اور لکھنے کی مہارتیں اورمختلف میدانوں سے متعلق علم کو بھی پیدا کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے ان تمام مقاصد کے ساتھ بچوں کے لیے دلچسپ ادب پیش کرنانہایت ہی مشکل کام ہے، اسی لیے اس صنف میں بہت ہی کم ادیبوں نے طبع آزمائی کی ہے۔ خاص طور پرموجودہ دور میں اردو زبان میں بچوں کے ادب پر بہت کم توجہ دی جارہی ہے۔ حالانکہ اردو میں بچوں کے ادب کی ایک توانا روایت رہی ہے۔انیسویں صدی کے دوران محمدحسین آزاد ، ڈپٹی نذیر احمد اور مولوی اسماعیل میرٹھی نے بچوں کے لیے کافی کتابیں تصنیف کی تھیں۔حالیہ زمانے میں مائل خیر آبادی اس میدان کے اہم ادیب رہے ہیں جنہوں نے اسلامی اقدار کو پیش نظر رکھتے ہوئے بچوں کے لیے کافی اہم ذخیرہ ادب تخلیق کیا تھا۔70؍اور80؍ کی دہائیوں میں ماہنامہ نور میں بھی کچھ اچھے اور دلچسپ ناول شائع ہوتے تھے ۔یہ تمام تحریریں اپنی نوعیت کے اعتبار سے کافی اہم ہونے کے باوجود نئی نسل کی امنگوں، ان کی خواہشوں ، دلچسپیوں اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ بچوں کے ادب میں بھی نئے نئے اسلوب اختیار کیے جانے لگے ہیں،اور بچوں میں بھی الگ الگ عمر کے گروپ کے بچوں کے لیے الگ الگ موضوعات پر ، الگ الگ زبان اور اسلوب میں کتابیں تیار کی جارہی ہیں۔12؍سال کے کم عمر بچوں کی کتابوں کی طباعت اور ڈیزائیننگ انتہائی خوبصورت اور دلکش ہوتی ہے ۔ ان میں الفاظ کم اور تصاویر زیادہ ہوتی ہیں۔ تصاویر ہی کے ذریعے بہت ساری باتیں بیان کردی جاتی ہیں۔نئے زمانے کے بچوں میں ٹیلی ویژن اور ویڈیو گیمس کی وجہ سے تصویروں پر مبنی کتابوں میں ہی زیادہ دلچسپی دیکھی جارہی ہے۔
تیرہ سال سے زیادہ عمر کے بچوں کی کتابوں کا انداز اور ان کے موضوعات الگ ہوتے ہیں ۔ انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں میں تو ’ینگ ایڈلٹ لٹریچر‘ کے نام سے ایک الگ صنف موجود ہے جس میں نوبالغوں کے لیے ان کے ذوق کے مطابق کتابیں موجود ہیں۔نوبالغوں کے ادب میں کثیر موضوعاتی کہانیاں، تحیر خیز واقعات کا تسلسل،یاد رکھے جانے والے کردار،دلچسپ مکالمے،موثراور واضح اسلوب تحریر، حسن مزاح، حیرت انگیز آغاز اور انجام وغیرہ جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ان میں پیش کیے جانے والے کردار اور موضوعات ایسے ہوتے ہیں جن سے نوعمر بچوں کو اپنائیت محسوس ہوتی ہے ۔ ان کرداروں اور موضوعات کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ بچے انہیں جھٹلانہ سکیں، نہ انہیں چھوٹا کرسکیں اور نہ ان کی قدرمیں کمی ہو۔ ان کرداروں اور موضوعات کو ایسی زبان میں پیش کیا جاتا ہے کہ نوعمر بچے انہیں آسانی سے سمجھ سکیں۔ ان کہانیوں میں پلاٹ کو تمام چیزوں سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ انگریز ی میں مقبول عام ہیری پوٹر سیریز اسی نوبالغوں کے ادب کا ایک نمونہ ہے۔
اس وقت خاص طور پر اسلامی نقطہ نظر سے بچوں کے لیے ایسی کہانیوں اور ناولوں کی سخت ضرورت ہے جو آج کی نئی نسل کی ضرورتوں اور دلچسپیوں کے مطابق بھی ہوں،اور اس کے ذریعے بچوں میں مثبت اقدار بھی نشوونما پاسکیں۔
(ڈاکٹر فہیم الدین احمد، اسسٹنٹ لکچرر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد)

۔۔۔۔کے ذمہ دار تخلیق کار اور قاری دونوں ہیں

علمی دنیا میں یہ رواج عام ہے کہ جو موضوع یاشعبۂ علم اپنی تخلیقی حیثیت ا ور معنویت فراموش کر دیتا ہے تحقیق کا موضوع بن جاتا ہے۔یہ بات اردو زبان میں ادبِ اطفال کی صورتحال پر بھی صادق آتی ہے۔اردو میں ان دنو ں جتنا وقت ادبِ اطفال پر تحقیق میں صرف ہو رہا ہے اتنا تخلیق پر نظر نہیں آتا۔ جو تخلیقات ہو بھی رہی ہیں، وہ قارئین کی نظرِالتفات سے محروم ہیں،اور اس بے التفاتی کے ذمہ دار تخلیق کار اور قاری دونوں ہیں۔
مطالعہ کا شوق بچپن سے پروان چڑھتا ہے اور بڑھتی عمر کے ساتھ جنون کی شکل اختیار کرلیتاہے،بچپن کامطالعہ بچوں میں نہ صرف اخلاقی اقدار کو فروغ دیتا ہے بلکہ زبان وبیان کی درستگی اور اظہار کے سلیقے بھی سکھاتا ہے۔دورِحاضر میں ترسیل کے ذرائع بڑھے ہیں،کمپوٹر اور ملٹی میڈیا تعلیمی عمل میں دلچسپی کا سامان فراہم کررہے ہیں۔ لیکن بچوں کا وہ وقت جو کہانیاں پڑھنے یا سننے سنانے میں صرف ہوتا تھا، اس کی جگہ کارٹون موویزیا کمپوٹر گیمزلے چکے ہیں،جس کے سبب بچے نہ صرف نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو رہے ہیں بلکہ اقدار کے زوال کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کا معیار بھی پست ہورہا ہے۔نسلِ نو کو تباہی سے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں