شرف لون
کشمیر نژادسعادت حسن منٹو اردو دنیا کے ایک بڑے افسانہ نگار ہیں۔منٹو کے افسانے کو ایک بار پڑھنے کے بعد قاری بہت دیر تک اس کے سحر سے باہر نہیں نکل پاتا ہے۔ منٹو نے اپنے افسانوں میں وہی زبان استعمال کی جو زبان ان کے کردار اصل دنیا میں بولتے ہیں۔انہوں نے اپنی طرف سے کوئی ملمع سازی نہیں کی لیکن ہمارے یہاں کچھ ایسے سوقیانہ مزاج ناقدین کی کمی نہیں جو منٹو کو آج بھی پڑھنا پسند نہیں کرتے جس کی تفصیل میں یہاں جانا غیر ضروری ہے لیکن اس سب کے باوجود منٹو کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور اب اسٹیج کے بعد جلد ہی وہ فلمی پردے پر جلوہ گر ہوں گے۔منٹو ایک باغی تخلیق کار تھے۔انہوں نے اپنا راستہ آپ نکالا۔ان کا راستہ دوسروں سے ان معنوں میں مختلف تھا کہ انہوں نے ہمارے سماج کے ان کرداروں پر توجہ دی جن کی طرف ہم دیکھنا گوارا بھی نہیں کرتے۔انہوں نے ایسے کرداروں کو اظہار کی زبان عطا کی جن سے ہم اصل زندگی میں ملنا تو پسند نہیں کرتے لیکن جن کا سماج میں برابر استحصال ہوتا رہاہے۔ ان کے کرداروں کو صرف عورت اور طوائف کرداروں تک محدود رکھنا منٹو کے ساتھ بہت بڑی نا انصافی ہوگی بلکہ تقسیم اور فسادات پر اُن کے لکھے ہوئے افسانے عالمی سطح پر شہرت اور مقبولیت رکھتے ہیں۔منٹو پر مقدمے بھی چلے لیکن انہوں نے بنا کسی جھجھک کے اور بنا انعام کی خاطر سماجی مسائل اور انسان کی مظلومیت کو بڑی بے باکی سے اپنی کہانیوں میں بیان کیا۔منٹو کی کہانیوں کے موضوعات کا دائرہ وسیع ہے۔انہوں نے مرد عورت کے باہمی رشتے ، فساد ات کے انسانی ذہن پراثرات، ہمارے سماج کی ٹھکرائی ہوئی عورتوں کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا۔منٹو کا اس منافق سماج کے تئیں رویہ بھی مختلف ہے ۔منٹو کی تقسیم اور فسادات پر لکھی کہانیوں کو دنیا کے بہترین ادب پاروں کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔منٹو کا تقسیم اورفسادات کے تئیں رویہ بالکل مختلف تھا۔انہوں اپنی کہانیوں میں انسانی نفسیات کے مختلف گوشوں کو سامنے لانے کی کوشش کی ۔منٹو نے اپنی کہانیوں میں فسادات کے شکار بے قصور انسانوں کی درد ناک داستان بیان کی ہے۔ان کا لہجہ اپنے اندر کافی تلخی رکھتا ہے۔وہ اس منافقانہ سماج سے متنفر ہیں،جہاں ایک بھائی اپنے دوسرے بھائی کا گلا کاٹنے پر ہمیشہ تلا رہتا ہے۔منٹو کی تقسیم پر لکھی کہانیوں میں ٹھنڈا گوشت،کھول دو،موذیل،انجام بخیر، وہ لڑکی،ہرنام کور،پڑھیے کلمہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔فسادات پر منٹو کا ایک کامیاب اور مشہور افسانہ ’کھول دو ‘ ہے۔بٹوارے کے دوران میں جب آبادی کا تبادلہ ہوتاہے تو امرتسر سے ایک اسپیشل ٹرین مغل پورہ پہنچ جاتی ہے ۔راستے میں کئی آدمی مارے جاتے ہیں اور کئی زخمی ہوجاتے ہیں۔اس ٹرین میں سراج الدین نامی ایک بوڑھا بھی ہوتا ہے جس کے ساتھ اپنی بیٹی بھی ہوتی ہے لیکن اسٹیشن پر جب وہ اپنی بیٹی سکینہ کو نہیں پاتا ہے تو اس کے ہوش و ہواس اڑ جاتے ہیں۔وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ سکینہ آخر کہاں گئی ۔سراج الدین سکینہ کو دھونڈنے کی بہت کوشش کرتا ہے لیکن ڈھونڈ نہیں پاتا اور بالآخر وہ رضاکاروں کو اپنی بیٹی کو ڈھونڈ لانے کے لئے کہتا ہے۔ یہ رضاکار سکینہ کو تو ڈھونڈ لیتے ہیں لیکن سکینہ ان کے ہوس کا شکار ہوجاتی ہے۔یہاں منٹو نے دکھایا ہے کہ کس طرح فسادات کے دوران میں انسان کی انسانیت بھی ختم ہوجاتی ہے اور وہ ایک درندہ بن جاتا ہے۔ افسانے کا اختتام منٹو نے بڑے طرب ناک انداز میں بیان کیاہے کہ وہ جملے پڑھ کر ساری انسانیت پسینے میں غرق ہوجاتی ہے۔سراج الدین کو جن سے اپنی بیٹی کی حفاظت کی امیدیں وابستہ تھیں وہی اس کی بیٹی کی بے حرمتی کرتے ہیں اور اس کو اپنی ہوس کا شکار بناتے ہیں اور اُس کی یہ بیٹی زندہ لاش میں تبدیل ہوجاتی ہے اور اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح ایک معصوم خاندان تقسیم اور فسادات کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ تقسیم و فسادات پر ان کے افسانے ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ ، ’’ ٹھنڈا گوشت‘‘ اور ’’ ٹیٹوال کا کتا‘‘کافی مقبول و مشہور ہیں۔منٹو ایک سچے اور پُر خلوص انسان ہیں۔اُن کو ریا کاری سے نفرت ہیں۔وہ اپنے سینے کے اندر ایک ہمدرد دل رکھتے تھے۔انہیں مظلوموں کے ساتھ ہمدردی ہیں۔وہ اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار اپنے خطوط میں بڑے ہی خلوص کے ساتھ کرتے ہیں۔منٹو کے خطوط میں اُن کی شخصیت پوری طرح ظاہرہوجاتی ہے۔ منٹو نے اپنے دوست احمد ندیم قاسمی کو متعدد خطوط لکھے ہیں۔ان خطوط میں منٹو پوری طرح اپنی کوتاہیوں اور کمزوریاں کا برملا اعتراف کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی اپنے دوستوں کی کوتاہیوں سے بھی درگزر نہیں کرتے اور نہ ہی طنز کے وار سے چوکتے ہیں۔ان خطوط سے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں: ۱۔ مجھ میں ایک لاکھ عیب ہیں جو اس وقت آپ کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔جس وقت آپ میرے قریب آگئے تو میں بالکل ننگا ہو جائوں گا۔۔۔۔انہوں نے اپنے خطوط میں فلم اور ادب پر اپنے بے باک اور قیمتی رائ
پیر، 14 ستمبر، 2015
منٹو
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں