’’وہ گڈریا یاد ہو گا جس کی کہانی حضرت عیسیٰ نے سنائی تھی۔ کہانی یہ تھی کہ ایک گڈریا اپنی بہت سی بھیڑوں کو لے کر جنگل میں گیا ہوا تھا۔ شام کو جب واپس آیا تو دیکھا وہ کمزور بھیڑ کہ جس کے جسم پر بال بہت کم رہ گئے تھے جسے گھر والے پسند نہیں کرتے تھے اور جسے وہ بہت عزیز رکھتا تھا موجود نہیں ہے۔ وہ واپس جنگل کو گیا اور رات بھر اپنی بھیڑ تلاش کرتا رہا۔ صبح ہو گئی بھیڑ نہیں ملی۔۔۔ دوسرے دن اس کی نظر اپنی گمشدہ بھیڑ پر پڑی، وہ بھیڑ نڈھال سی تھی اسے اٹھایا اور اپنے کاندھوں پر رکھ لیا اور گھر کی جانب دوڑا۔۔۔ راستے میں حضرت عیسیٰ ملے، پوچھا بات کیا ہے تم اس طرح بھیڑ کو کندھوں پر اٹھائے تیز تیز جا رہے ہو؟‘ ‘ گڈریئے نے ماجرا سنا دیا کیا یہ بھیڑ بیمار ہے گھر والے اسے پسند نہیں کرتے لیکن اپنے گھر والوں کو آج اس کی حالت دکھا کر رہوں گا۔ گڈریا دوڑتا ہوا چلا گیا۔ حضرت عیسیٰ نے اپنے ساتھی کی جانب دیکھا۔ کہا غور کیا تم نے۔ اس گڈرئیے کی آنکھوں میں کیسی چمک تھی۔ کیسی روشنی تھی۔۔۔ یہ کیسی دھن ہے میں نے اسے غور سے دیکھا تو لگا اس کا سر آسمان تک پہنچنے والا ہے۔‘ ‘ اس کے بعد شکیل الرحمن اس حوالے سے اپنی بات کرتے ہیں۔ ’’سعادت حسن منٹو کی کہانیوں کو پڑھتے ہوئے کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے جیسے منٹو وہی گڈریا ہوں۔ بہت سی بھیڑوں کو جنگل میں چھوڑ کر کسی کمزور، بہت کم بال والی، بیمار نا پسندیدہ، اندر باہر سے بے چین بھیڑ کو اپنے کندھوں پر اٹھائے دوڑے چلے آ رہے ہیں۔۔۔ وہ روشنی اور چمک جسے حضرت عیسیٰ نے اس گڈریا کی آنکھوں میں دیکھا تھا ہم بھی منٹو کی آنکھوں میں دیکھتے ہیں۔‘ ‘ دیکھئے کتنے حسین اور پر اثر انداز میں شکیل الرحمن اپنی بات کہہ گئے۔ منٹو کا ایک فنکار اور ادیب کی حیثیت سے اتنا خوبصورت تعارف بہت کم لوگ پیش کر سکے ہیں۔ یہ ہنر تو صرف شکیل الرحمن کو آتا ہے اور اس طرح کا تعارف اور تقابل وہ ہر افسانے کے آغاز میں کسی تمثیل کے ذریعے کرتے ہیں۔ گڈرئیے کی مثال پیش کر کے نے نہ صرف اس کہانی کی بات کی ہے بلکہ دوسری کہانیوں کا ذکر بھی اسی حوالے سے کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سعادت حسن منٹو کے کندھے پر کبھی ٹوبہ ٹیک سنگھ ہوتا ہے اور کبھی ایشر سنگھ، کبھی منگلو کو چوان، کبھی بابو گوپی ناتھ کبھی سلطانہ، کبھی خوشیا، کبھی رندھیر، کبھی ہیبت خاں، اس طرح شکیل الرحمن نے منٹو کا تعارف نہایت فنکارانہ موثر اور دلنشیں انداز میں کرا دیا ہے۔ ایسا فن اور یہ انداز انھیں کو آتا ہے۔
کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی کے شاہکار کے شاہکار افسانوں کا ذکر کر کے شکیل الرحمن کہتے ہیں کہ ان کے افسانے کبھی کچھ گہرائیوں میں لے جاتے ہیں اور کبھی سطح پر رکھتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو کے افسانے اور کردار عموماً ندی کی بہت گہرائیوں میں ہوتے ہیں کہ جہاں اندھیرا ہے۔ اندھیرے یا گہرائی سے یہ کہانیاں باہر آتی ہیں۔ منٹو کی کہانی ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ بھی تقسیم ہند کے طوفان کے پس منظر میں ابھری ہوئی ایک کہانی ہے جو اردو ادب کی بہترین کہانیوں میں ممتاز درجہ رکھتی ہے اور بقول ان کے ’’یہ قصہ تمثیل کا حسن لیے ہوئے ہے۔ تمثیل کے جوہر نے اس کہانی کو ڈرامہ بنا دیا ہے۔ کہا جاتا ہے نا کہ بڑا فن ڈرامہ ہی ہوتا ہے۔ یہ کہانی بھی ڈرامہ بن گئی ہے۔‘ ‘ اس کہانی کا جس قدر عمدہ تجزیہ شکیل الرحمن نے کیا ہے اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ ایک ایک کردار کے حوالے سے حقیقت اور صورتِ حال کو واضح کر نے کی عمدہ کوشش ملتی ہے۔ آخر میں وہ اس افسانے سے متعلق یہ فیصلہ صادر کرتے ہیں کہ ’’یہ ایک تخلیقی فن کار کا ایک بڑا تخلیقی کارنامہ ہے‘ ‘
نا مکمل
٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں