منگل، 15 ستمبر، 2015

تبصرہ

بلکہ نظموں کا بھی۔گجراتی شاعری میں بھی عادل کا سب سے طاقتور عنصراس کی زبان کی سلاست اور مٹھاس ہے۔اور احساس کی وہ آنچ جس سے اس کی نظمیں دہکتی ہیں۔عادل کا ہر شعر ایک تصویر ہے۔عادل تصویروں اور استعاروں میں سوچتا ہے۔اس کے یہاں خیال تجریدی صورت میں نہیں بلکہ محسوس پیکر میں ظاہر ہوتا ہے۔عادل بزلہ سنج شاعر ہے۔اس کی حس مزاح زندگی کے تلخ تجربات کو بھی زعفران زار بنا دیتی ہے۔ یہ حس ِ مزاح بہت لطیف ہے جو عادل کے کھلنڈرے پن کو بھی ملائمت عطا کرتی ہے۔بڑی سادگی سے، بڑی بے تکلفی سے وہ گہرے خیال اور فکر انگیز جذباتی تجربہ کا شعر میں بیان کر جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی گجراتی شاعری پر لکھنے کے لئے تو ایک دفتر چاہیے۔سردست تو اس کے مختصر سے تعارف پر اکتفا کیا گیا ہے۔تاکہ چاند کا دوسر رخ بھی سامنے آجائے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ عادل کی گجراتی شاعری بے حد صاف ستھری، سادگی کے حسن سے آراستہ،اشکال اور اھمال سے دور، ترسیل کی پوری ذمہ داری قبول کرتی ہوئی، فکر انگیز، پر تاثیر اور آرٹ کی مسرت کا ایک بحر ِ بیکراں لئے ہوئے ہے۔اس کے مقابلہ میں عادل کی اردو شاعری مشکل اور مبہم بھی ہے بلکہ مہمل بھی۔در اصل اردو شاعری میں عادل اپنے اجتہادی اور تجرباتی دور میں قید ہے۔جبکہ گجراتی شاعری میں وہ اس قید سے آزاد ہو چکا ہے۔ اگر عادل صرف اردو زبان کا شاعر ہوتا تواس کے تخلیقی ارتقا کا گراف غزل میں ظفر اقبال اور نظم میں محمد علوی کی طرح ایسے تجربات پر مبنی ہوتا جو معنی خیز ہوتے۔
بد قسمتی سے عادل نے اردو شاعری میں اس وقت قدم رکھا جب جدیدیت کے آغاز کے ساتھ ہی ترسیل کی ناکامی کا المیہ ہمارے اعصاب پر سوار تھا۔ اس وقت ایلیٹ کے سبھی پرستار تھے۔ لیکن کسی کو خیال نہیں آیا کہ ایلیٹ ترسیل کی ناکامی کا مدعی نہیں تھا۔ بلکہ ترسیل کا قائل اور علمبردار تھا۔مبہم بلکہ مہمل شاعری کے جو تجربے عادل نے اردو میں کئے وہ گجراتی میں نہیں کئے۔کیونکہ اس وقت اردو کی فرضا جدیدیت کے زیر اثر علامتی شاعری کے لائے ہوئے اشکال اور ابہام سے بوجھل تھی۔
عادل کی شاعری کا اور بھی ایک مجموعہ ہے جو1996؁ میں شب خون کتاب گھر سے ’’حشر کی صبح ِ درخشاں ہو‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کا فلیپ شمس الرحمٰن فاروقی نے لکھا ہے۔فاروقی کی تحریر عادل کی شاعری کی تمام خصوصیات کا احاطہ کرتی ہے۔مثلاً انہوں نے عادل کی شاعری میں سرریلزم، یا جذبہ کے آزاد تلازمات اور استعاروں کی شکل میں اسلامی مذہبی تصورات کے تخیلی استعمال کا ذکر کیا ہے۔انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ عادل کے یہاں ایسی نظمیں بھی ہیں جن میں معنی سے آگے جانے اور ملازمے کی طرح بے معنی مگر با معنی متن خلق کرنے کی کوشش بھی صاف نظر آتی ہے۔فاروقی نے یہ بھی بتایا ہے بعض نظموں میں اظہار بیان اتنا پیچیدہ نہیں اور براہ ِ راست ہے۔ اور سماجی اور سیاسی موضوعات پر رائے زنی کی گئی ہے۔لیکن ان نظموں میں بھی استعاروں، پیکروں اور الفاظ کی وہی بے باکی ہے جو ان کی پیچیدہ ترین نظموں کا طرہ ٔ امتیاز ہے۔
عادل کی شاعری پر فاروقی کے اس تبصرے کے بعد نقاد کے لئے کوئی نئی بات کہنے کی گنجائش نہیں رہتی۔سوائے اس کے کہ وہ مختلف نظموں سے مثالیں لیکرفاروقی کے خیالات کی تصدیق اور توضیع کرے۔یہ کام بھی فاروقی حسن و خوبی کے ساتھ کرتے اگر وہ فلیپ کے سخن مختصر کے پابند نہ ہوتے اور کتاب کا ایک جامع دیباچہ قلمبند کرتے۔
عادل کا پہلا مجموعہ279صفحات پر مشتمل ہے۔عموماًرواں گارد شعرا ء کے مجموعے اتنے ضخیم نہیں ہوتے۔پہلا مجموعہ تو ڈیڑھ سو صفحات کا ہوتا ہے۔کیونکہ جس قسم کی نئی شاعری جواں سال شاعر نے کی ہوتی ہے اس کا نمونہ ہی اسے پیش کرنا ہوتا ہے۔اس کے بعد دوسرے مجموعے آتے رہتے ہیں۔اتنا ضخیم شعری مجموعہ ایک طرف تو عادل کی قادر الکلامی، پرگوئی اور زود گوئی کا ثبوت ہے تو دوسری طرف اس کے بعد کسی اور مجموعے کا نہ آنا ایک پر گو شاعر کی خاموشی کا افسردہ منظر پیش کرتا ہے۔ خیر! عادل بالکل خاموش تو نہیں ہوا۔شب خون میں کبھی لبھار اس کی غزلیں دیکھنے کو مل جاتیں۔ اب پتا نہیں ایسا غیر مطبوعہ کلام کتنا ہے اور کس نوع کا ہے لیکن اغلب قیاس یہ ہے کہ جس نوع کی گجراتی شاعری اس کے قلم سے تحریر ہو رہی تھی اس پر اسے زیادہ اعتماد تھا اور جس نوع کی اردو شاعری اس نے کی تھی اس طرح کی شاعری کرتے رہنے میں یک آہنگی کا جو خطرہ تھا اسے مول لینے سے وہ احتراز کرنا چاہتا تھا، یہ ممکن تھا کہ عادل اگر صرف اردو زبان کاشاعر ہوتا تو وہ اپنی شاعری کو نیا موڑ دیتا جواس رنگ کو جسے فاروقی صاحب نے بے معنی بامعنی کہا ہے، زیادہ بامعنی بنانے کی کوشش کرتا۔اور پیچیدہ استعاروں کو زیادہ اثر انگیز بناتا اور آزاد تلازمات کو جذبہ ٔ خیال کے کسی مرکزی دھاگے سے جوڑ کر اسمیں نظم کی اکائی اور سالمیت پیدا کرتا یا اہمال کے منطقے میں داخل ہوتی ہوئی ابہام کی تاریک گھٹائوں کو ہلکے سرمئی باد

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں