عربی تفاسیرکے ترجمے…تعارف و تجزیہ
مولانا اشتیاق احمد، دارالعلوم دیوبند
پچھلا صفحہ ►
◄ اگلا صفحہ
فہرست
”ترجمہ“مستقل ایک فن ہے، مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اس کی ضرورت واہمیت مسلم ہے،تراجم کی مختلف اصناف میں مذہبی تراجم سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں؛اس لیے کہ ایک سروے کے مطابق دنیا بھر کے من جملہ تراجم کی خدمات میں نصف سے زائد خدمات مذہبی تراجم پر مشتمل ہیں۔قرآنِ پاک کا ترجمہ سب سے پہلے لاطینی،پھر فرانسیسی اورپھر انگریزی میں ہوا،ایک سروے کے مطابق دنیا میں چھ ہزار پانچ سو(6500)زبانیں بولی جاتی ہیں،ان میں سے دو ہزار تین سوپچپن (2355)زبانوں میں انجیل کا ترجمہ ہو چکا ہے اور مسلمان تجزیہ نگاروں کا دعویٰ ہے کہ قرآن مجید کا ترجمہ دنیا کی اکثر زبانوں میں ہوچکا ہے،اردو زبان آج سے چھ سات صدی پہلے وجود میں آئی،ترجمہ کی روایت اس میں دوسوسال بعد شروع ہوئی،اس زبان میں سب سے پہلے”تمہیداتِ عین القضاة“کاترجمہ”تمہیداتِ ہمدانی“کے نام سے شاہ میراں جی خدانمانے1603ء میں کیا،اردو زبان میں قرآنِ مجید کا سب سے پہلا ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ کے فرزندِار جمند شاہ رفیع الدین صاحبنے 1776ء میں کیا،اس وقت اردو زبان کی نثر اچھی خاصی صاف،سادہ اور رواں ہو گئی تھی،لیکن وہ ترجمہ خاصا لفظی تھا؛اس لیے ان کے حقیقی چھوٹے بھائی حضرت شاہ عبدالقادر صاحب نے1798ء میں اس وقت کی فصیح و بلیغ رائج ومستند ٹکسالی زبان میں دوسرا ترجمہ کیا،یہ ترجمہ اتنا عمدہ ٹھہرا کہ اس سے اہل علم مترجمین نے ترجمہ نویسی کے متعدد اصول وضع کیے۔(ان ساری باتوں کے حوالوں کے لیے ترجمہ نگاری اور ابلاغیات، ص:176 تا180(مطبوعہ:مولانا آزاد نیشنل اردویو نیورسٹی حیدآباد)کو بھی دیکھا جاسکتا ہے)جب یہ ترجمہ بھی قدیم ہو گیا تو حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسننے مالٹا کی جیل میں ان کو سامنے رکھ کر ایک عمدہ ترجمہ کیااور اب اسلامی کتب خانوں میں محض اردو زبان میں قرآنِ کریم کے ترجموں کی تعداد ساٹھ سے زائد ہو چکی ہے اور تفسیروں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔
یہ حقیقت مسلم ہے کہ تفسیروں کا سب سے بڑا ذخیرہ عربی زبان میں ہے، یہی زبان دین اسلام کی صحیح اور مستند ترجمان ہے،اردو زبان میں مذہب اسلام کا سب سے زیادہ حصہ اسی زبان سے منتقل ہوا ہے،راقم الحروف نے اپنے اس مقالے میں تفسیروں کے محض ان ترجموں کے تعارف کو موضوع بنایا ہے،جوبراہِ راست عربی سے اردو میں کیے گئے ہیں۔”بارہ تفسیروں“ کے کل تیئس ترجمے میرے محدود استقرا میں آئے ہیں،ان میں سے صرف ”پانچ تفسیریں“ایسی ہیں،جن کے ترجمے مکمل ہو سکے ہیں، بقیہ تفسیروں کے ترجمہ اب تک تشنہٴ تکمیل ہیں۔الحمدللہ یہ سارے ترجمے علمائے ہندکے ہیں،ان میں بھی چودہ ترجمے علما ئے دیوبند نے کیے ہیں،بقیہ کے بارے میں تحقیق نہ ہو سکی کہ وہ کس مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں؟اُن ترجموں کا تعارف پیش خدمت ہے۔
تفسیر ابن عباس
اصولِ تفسیر میں قرآن کریم کے معانی کی وضاحت کے لیے مفسرین نے چھ مآخذذکر فرمائے ہیں:
1..…آیات کی تفسیر آیات ہی سے ہو۔
2..…آیات کی تفسیر صحیح احادیث سے ہو۔
3..…آیات کو اثارِ صحابہ کی روشنی میں سمجھا جائے۔
4..…آیات کو تابعینکے ارشادات سے سمجھا جائے۔
5..…لغتِ عربِ او لین سے بھی مرادِ الہی کی تعیین میں مدد ملتی ہے۔
6..…آخری درجہ عقلِ سلیم اور فہم صحیح کا ہے۔
ان میں قرآن وحدیث کے بعد سب سے قابلِ اعتماد مآخذ صحابہٴ کرام کے آثار ہیں؛اس لیے کہ ہم تک دین کے پہنچنے کا سب سے اہم واسطہ صحابہ کرام ہیں، انھوں نے ہی مشکٰوةِنبوت سے اولین مرحلے میں روشنی حاصل کی،اگر ان پر ہمارااعتماد نہ رہا تو دین کا سارا دفتر بے اعتبار ہو جائے گا،نعوذباللہ قرآن کی آیات بھی مشکوک ہو جائیں گی؛اس لیے کہ یہ بھی انھیں کے واسطہ سے ہم تک پہنچی ہیں،یہی وجہ ہے کہ مفسرین نے آثارِ صحابہ کو بڑی اہمیت دی ہے،ان میں بھی حضرت عبداللہ بن عباس کا امتیاز مسلم ہے،یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے،فہمِ آیات میں انھیں ایک خاص ذوق حاصل تھااور وہ دعائے نبوی کی برکت تھی۔(فتح الباری:1/170) آپ کو”ترجمانُ القر آن“کے مبارک لقب سے نوازا گیا۔(ابن مسعود، مستدرکِ حاکم) آپمیں سارے صحابہٴ کرامکے علوم جمع تھے،نا چیز کے محدودعلم میں دو ہی صحابہٴ کرامایسے ہیں،جن کی تفسیری روایات اکھٹی کتابی شکل میں دستیاب ہیں،ایک تو حضرت ابن عباس ہیں اور دوسرے حضرت ابن مسعود،حضرت عبداللہ بن عباس کی تفسیر کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اس کے اردو ترجمہ سے بھی امت مستفید ہو رہی ہے، میرے علم میں ابھی تک”تفسیر ابن مسعود “کا اردو ترجمہ نہیں ہو سکا ہے۔
تفسیر ابن عباس کے مراتب
اس کے موٴلف علامہ ابوالطاہر محمد بن یعقوب بن محمد بن ابراہیم نجدالدین فیروز آبادی شیرازی،شافعی ہیں،(ولادت:749ھ مطابق 1339ء وفات:20، / شوال 817ھ مطابق3 /جنوری1415ء
لائبری لاہور میں ہے۔
(ب)…1314ھ میں مصرسے”در منثور“کے حاشیہ پر شائع ہوئی۔
(ج)…1316ھ میں علاحدہ طور پر مصر سے ہی شائع ہوئی۔
(د)…1685ھ میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی رحمة اللہ علیہ کے”ترجمہ، قرآن مجید“ کے ساتھ شائع ہوئی۔
(ھ)…اس کے بعد حضرت شاہ رفیع الدین صاحب رحمة اللہ علیہ کے”ترجمہ، قرآن مجید“کے حاشیہ پر شائع ہوئی۔(مستفاد:ازعرض مترجم،تفسیر ابن عباس،ص:7)
لبابُ النقول فی اسباب النزول
تفسیر ابن عباس کے ساتھعلامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ(911ھ) کی مشہورومعروف کتاب ”لباب النقول فی اسباب النزول“بھی مطبوع ومترجم ہے،”شانِ نزول“کے موضوع پر یہ بڑی قابلِ اعتماد کتاب ہے، اس میں حدیث،اصولِ حدیث اور اصولِ درایت نصوص کو سامنے رکھ کرروایات کی تلخیص کی گئی ہے،شروع میں قدرے تفصیل سے مقدمہ لکھا ہے، اس میں شانِ نزول کی اہمیت، روایات کے درمیان ترجیح کے اصول ،ائمہ کے اقوال اور اپنے تلخیص طرز کو بڑے عمدہ انداز میں بیان فرمایا ہے،غرض یہ کہ علامہ سیوطی نے اسبابِ نزول والی روایات کی سندوں کی اچھی طرح چھان بین کی ہے، راویوں کے سلسلے میں بھی تحقیق کی ہے کہ کون سے راوی مذکورہ واقعہ کے وقت موجود تھے اور کون سے نہیں؟اور آیاوہ اعلیٰ درجہ کے مفسر تھے یا نہیں؟خود انھوں نے یہ بھی وضاحت فرمائی ہے کہ میں نے اختصار کے پیش نظر سندوں کو بیان کرنے کے بجائے،اس کتاب کا حوالہ دے دیاہے،جس میں وہ روایت مذکورہے؛تا کہ قاری خود بھی تحقیق کر سکے،اسی طرح اپنے پیش رومصنف علامہ واحدیکے بیان کردہ مباحث کو بھی”ک“کے رمز کے ساتھ اس تصنیف میں شامل فرما لیا ہے،متعارض روایات کے درمیان دفعِ تعارض کی بھی کوشش کی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ”لبابُ النقول“میں حضرت عبداللہ بن عباس کی روایات بہت زیادہ ہیں،لبابُ النقول کی جامعیت اور مذکورہ بالا خصوصیت کی وجہ سے امت نے اسے قبول کیا ہے۔
”لباب النقول“کا ترجمہ :
تفسیر ابن عباس کے ساتھ”لبابُ النقول“کی طباعت چوں کہ عربی زبان میں ایک ساتھ عمل میں آئی تھی؛اس لیے ترجمہ میں بھی اس کو الگ نہیں کیا گیا:
(الف)…مولانا عابدالرحمٰن صدیقی کے ترجمہ میں بھی لباب النقول کا ترجمہ ہے۔
(ب)…اور حافظ محمد سعید احمد عاطف نے بھی اس کا اردو ترجمہ کیا ہے۔
جس طرح”تفسیر“میں پہلے حضرت ابن عباس کی مرویات نقل کی گئی ہیں؛پھر اس آیت سے متعلق شانِ نزول کی روایت اگر موجود ہے تو اس کو ذکر کیا ہے؛اسی طرح ترجمہ میں بھی پہلے آیات کا ترجمہ ہے،پھر حضرت ابن عباسکی تفسیر کا،اس کے بعد علامہ سیوطی کی”لباب ُالنقول“کا ترجمہ ہے، لباب النقول کے ترجمہ سے پہلے ہر جگہ”شانِ نزول“اور آیات کا ابتدائی ٹکڑا عنوان کے طور پر لکھا گیا ہے اور جہاں پر بات پوری ہوئی ہے،وہاں قوسین کے درمیان”لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی“درج ہے؛ البتہ بعض جگہوں پر بین القوسین والی عبارت کتابت سے رہ گئی ہے۔
تفسیر ابن عباس کے اردو ترجمے
علامہ ابو طاہر فیروز آبادیکی جمع کردہ تفسیر ابن عباس کے دو ترجمے نظر نواز ہوئے:
(الف)…ایک کے مترجم پروفیسر حافظ محمد سعید احمد عاطف ہیں،ان کا آبائی وطن بالاکوٹ (پاکستان)ہے۔
(ب)…دوسرے کے مترجم حضرت مولانا عابدالرحمٰن صدیقی رحمةاللہ علیہ ہیں۔اس ترجمہ کو پہلے 1970ء میں”کلام کمپنی کراچی“نے شائع کیا۔اول الذکر مترجم نے آخر الذکر مترجم کے ترجمہ سے خصوصی استفادہ کیا ہے،جس کی صراحت خود انھوں نے”عرضِ مترجم“(ص:8)میں کی ہے،دونوں مترجمین میں سے کسی کے شخصی احوال معلوم نہ ہو سکے؛اس لیے مزید تعارف رقم نہیں کر سکتا۔
(ج)…ایک اور ترجمہ کا ذکر بھی اول الذ کر مترجم نے کیا ہے،یہ1926ء میں آگرہ سے شائع ہوا ہے(عرضِ مترجم،ص:8)
راقم الحروف کے خیال میں یہی اولین ترجمہ ہے، لیکن یہ ترجمہ دریافت نہ ہو سکااور نہ ہی اس کی مزید تفصیلات معلوم ہو سکیں۔
ترجمہ پروفیسر حافظ محمد سعید احمد عاطف
2006ء میں”اعتقاد پبلشنگ ہاوٴس،نئی دہلی“نے اس ترجمہ کو شائع کیا،یہ تین جلدوں پر مشتمل ہے،پہلی جلد کے صفحات کی تعداد پانچ سو پینتیس (535 ) ہے ، دوسر ی جلد چار سو چونسٹھ(464)اور تیسری پانچ سو چار(504)صفحات پر مشتمل ہے،صفحات کی کل تعداد پندرہ سو تین ہے، قیمت چھے سو پچھتّر(675)روپے درج ہے۔
روزنامہ’منصف‘حیدرآباد کے توسط سے طباعت کے بعد ہی راقم الحروف کے پاس برائے تبصرہ یہ ترجمہ آیا تھا،تبصرہ لکھا گیا اور چھپا بھی،اس نسخہ میں کتابتِ قرآن کی تصحیح کی سند مع مہر تیسریجلد کے اخیر میں درج ہے،اوپر دائیں کالم میں آیات اور بائیں کالم میں مولانا فتح محمد جالندھری کا ترجمہ قرآن ہے،ترجمہ کی زبان سلیس او ربا محاورہ ہے۔
تفسیر کا ترجمہ لفظی نہیں، بلکہ آزاد کیا گیا ہے،اکثر جگہوں پر لفظ دو لفظ کے اضافہ کو بھی گوارا کیا گیا ہے،تاکہ اردو خواں حلقہ کو ترجمہ پن کا احساس نہ ہو،اسی طرح ہر آیت کی تفسیر سے پہلے اس کا نمبر بھی دے دیا گیا
دو لفظ کے اضافہ کو بھی گوارا کیا گیا ہے،تاکہ اردو خواں حلقہ کو ترجمہ پن کا احساس نہ ہو،اسی طرح ہر آیت کی تفسیر سے پہلے اس کا نمبر بھی دے دیا گیا ہے،تا کہ مقارنہ میں آسانی ہو،”لباب النقول“کے شانِ نزول کو بھی آیت نمبر کی تعیین کے بعد لکھا گیا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ دیوبند سے چھپے ہوئے ترجمہ کو سامنے رکھ کر یہ ترجمہ کیا گیا ہے،اس سے استفادہ کی صراحت خود مترجم نے کی ہے۔(ص:8)
اس ترجمہ میں پہلے”نقش اول“کے نام سے”عرضِ ناشر“ہے، اس میں تفسیر اور اس کے جامع ومرتب کے ساتھ ترجمہ کی ضرورت بیان کی گئی ہے،ساتھ ہی مترجم ومعاونین کا شکریہ ادا کیا گیا ہے،پھر چار صفحات پر مشتمل عرضِ مترجم ہے،اس میں قرآنِ پاک،ترجمہ وتفسیر،سیرت نبوی اور آثارِ صحابہ وغیرہ کی اہمیت بیان کی گئی ہے،’تنویر المقباس“کے مقام ومرتبہ کو بیان کیا گیا ہے،اس کے مخطوطہ اور مطبوعہ نسخوں کی تفصیلات درج کی گئی ہیں،ساتھ ہی اس کے دواردو ترجموں کا ذکر بھی ہے،پھر مترجم نے اپنے ترجمے کی خصوصیات بیان فرمائی ہیں،اخیر میں معاونین کا شکریہ اور قارئین سے دعا کی درخواست ہے،اس کے بعد پندرہ صفحات پر مشتمل ایک مقالہ ہے،اس میں ترجمانُ القرآن حضرت عبداللہ بن عباس کی زندگی کو کافی تفصیل سے پیش کیا گیا ہے ، نام ونسب،حلیہ،شوقِ علم،دعائے نبوی کا فیضان،حیرت انگیز ذہانت،علم کے لیے اسفا ر ، علوم اسلامی سے عمومی اور علومِ قرآنی سے خصوصی دلچسپی،طرزِ تفسیر اور مرویات کی تعداد وغیرہ بھی بیان کی گئی ہے،اس کے بعد دو مضمون ہیں،ایک میں علامہ سیوطی کا تعارف اور مختصر احوال ذکر کیے گئے ہیں،دوسرے میں علامہ ابو الطاہر فیروز آبادی موٴلف تفسیر ابن عباس کا تعارف دو صفحات میں مرقوم ہے۔
ان سب کے بعد ترجمہ کی ابتدا کی گئی ہے،سب سے پہلے علامہ سیوطی کی”لباب النقول“ کا مقدمہ ہے، پھر”تنویر المقباس“ کا مقدمہ ہے، آخر الذکر مقدمہ میں حمد وصلوة کے بعد تفسیر کے سلسلہ سند کو بیان کیا گیا ہے،اس کے بعد بسم اللہ کی تفسیر سے کتاب شروع ہوئی ہے،ترجمہ کی کتابت کمپیوٹر کے ذریعہ کی گئی ہے،تصحیح کے کافی جتن کے باجود غلطیاں رہ گئی ہیں،اس ترجمہ میں سورتوں کی فہرست تو دی گئی ہے،لیکن فہرستِ مضامین بھی نہیں ہے، اگر اس کے ساتھ فہرست مضامین بھی ہوتی تواس کا افادہ کثیر اور آسان ہوتا؛اس لیے کہ آج کل پوری کتاب پڑھ ڈالنے کا مزاج علماء میں بھی ختم ہوتا نظر آرہا ہے تو عوام سے کس طرح اس کی امید کی جائے؟غرض یہ کہ اردو میں ہونے کی وجہ سے ظاہر ہے کہ عوام ہی زیادہ پڑھے گی،ان کے لیے فہرست ہوتی تو اور بھی اچھا ہوتا،ان سب کے باوجود ترجمہ کا کام ٹھیک ہے،طباعت اور کاغذ وغیرہ عمدہ ہے،ٹائٹل بھی دیدہ زیب ہے۔
ترجمہ مولانا عابدالرحمٰن صدیقی
تفسیر ابن عباس کا دوسرا ترجمہ حضرت مولانا عابدالرحمٰن صاحب صدیقی کا ہے،اس ترجمہ میں بھی علامہ سیوطی کی”لباب النقول فی اسباب النزول“ شامل ہے،اس کی اشاعت دیوبند کے”ادارہ درسِ قرآن“نے کی ہے،ترجمہ نہایت عمدہ اور سلیس ہے،اصل متن کی مکمل تصویر ترجمہ میں جھلکتی ہے،اردو کے محاورات اور روز مروں کے استعمال سے زبان کافی معیاری بن گئی ہے،ثقیل اور مشکل الفاظ سے حددرجہ احتراز کیا ہے،اس میں آیات کے ترجمے کے لیے حضرت تھانوی کے ترجمہ کو منتخب کیا گیا ہے،اس سے قاری کا اعتماد اور زیادہ ہو جاتا ہے،آیات کو قدرے جلی خط میں لکھا گیا ہے،پھر اس کے نیچے لکیریں کھینچ کر اردو ترجمہ قدرے باریک خط میں دیا گیا ہے،فقہ کی روشنی میں ترجمہ چھاپنے کا یہ طریقہ مستحسن اور بہتر بھی ہے۔
اس ترجمہ کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ دارالعلوم دیوبند کے دو عظیم مفتیانِ کرام کی نظر سے گذراہوا ہے،ایک حضرت مفتی کفیل الرحمٰن صاحب نشاط عثمانی رحمةاللہ علیہ ہیں اور دوسرے حضرت الاستاذ مفتی ظفیر الدین صاحب دامت برکاتہم ہیں،یہ دونوں حضرات”دارالافتاء“کے بڑے قابلِ اعتماد مفتی تھے،اول الذکر ابھی چند سال پہلے وفات پاگئے اور آخر الذکر اپنی کبرِ سنی کی وجہ سے استعفادے کر اپنے گھر میں آرام فرماہیں۔حضرت مفتی کفیل الرحمٰن صاحب نشاط عثمانی اردو زبان وادب کا بھی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے اور بہت بڑے شاعر تھے، ان کے تین شعری مجموعے زندگی میں ہی شائع ہو کر اہلِ ذوق سے داد تحسین حاصل کر چکے ہیں(راقم الحروف نے اپنے ”ایم،فل“کے مقالہ میں ان شعری مجموعوں کے تجزیاتی مطالعہ کو بھی شامل کیا ہے )موصوف نے پورے ترجمہ کو بڑی گہرائی سے مطالعہ فرما کر”عنوان بندی“بھی کی ہے،جس سے اس ترجمہ کی افادیت میں چار چاندلگ گئے ہیں،ترجمہ کی تکمیل کے بعد اشاعت کے موقع سے چھے اشعار میں”ہدیہٴ عقیدت“بھی پیش فرمایا ہے اور حضرت مفتی محمد ظفیر الدین صاحب دامت برکاتہم نے اس ترجمہ پر تقریظ رقم فرمائی ہے اور مترجم نے”عرضِ مترجم“کے عنوان سے سات صفحات پر مشتمل ایک دستاویز تحریر شامل اشاعت فرمائی ہے،ان تمام خصوصیات کی وجہ سے ی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں