سفر حیات
کہتے ہیں کہ شاعر و ادیب اپنے عہد کا نباض ہوتا ہے۔ اس کی تخلیقات میں اس کے عہد کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں۔ انسانی تہذیب کے کسی عہد کو سمجھنے کے لیے ہمارے پاس جو بہت سے معتبر ماخذ ہوتے ہیں ان میں ایک ماخذ ادب بھی ہے۔ ادب کا طریقہ کار تاریخ اور سماجی علوم کے طریقے سے مختلف ہوتا ہے کیونکہ تخلیق کار نہ تو اپنے عہد کی تاریخ لکھتا ہے اور نہ سیاسی و سماجی واقعات اور معاملات کا معروضی تجزیہ کرتا ہے۔ وہ تو اپنے عہد کے طرز احساس کو اپنے وجدان سے چھوتا ہے۔ انسانی جذبات احساسات کی کائنات کی سیر کرتاہے۔ زمان و مکاں کے معاملے کو اپنی تخلیقی آنکھ سے دیکھتا ہے اورپھر اسے یوں بیان کرتاہے کہ آپ بیتی جگ بیتی معلوم ہونے لگتی ہے۔
کسی بھی شاعر و ادیب کے تخلیقی اورفنی سفرکو اس وقت تک پوری طرح سمجھنا ممکن نہیں جب تک کہ ہم اس کے گرد وپیش کی دنیا کو اپنے دھیان میں نہ رکھیں۔ خاص طور پر وہ تہذیبی اور سماجی حالات جن میں کس لکھنے والے کی زندگی کے ابتدائی ایام گزرے۔ وہ حوادث زمانہ جنہوںنے تخلیق کار کی پرورش میں اہم حصہ لیا شخصیت کی تشکیل میں وراثت میں ملنے والے عضویاتی اور نفسیاتی امکانات ماحول کے ساز گار عوامل کے ساتھ مل کر حصہ لیتے ہیں۔ بچپن کا ماحول‘ وہ لوگ جن میں بچپن گزرا ہو تاحیات فرد کی شخصیت پر اپنے اثراب مرتب کرتے رہتے ہیں۔
منیر نیازی کی فنی و تخلیقی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس ابتدائی ماحول اور فضا کو اپنے سامنے رکھنا ہو گا جس میں ان کا بچپن گزرا۔ منیر نیازی 19اپریل 1928ء کو مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور سے متصل خانپور نام کی بستی میں پیدا ہوئے۔ اس زمانے میں ماحول جغرافیائی اور سماجی صورت حال کے بارے میں اشفاق احمد نے نہایت تخلیقی انداز میں لکھا ہے:
’’اگر کوہ شوالک سے اس بیدردی کے ساتھ جنگل نہ کاٹے جاتے تو پہاڑوں سے امڈتا ہوا سیلاب ہوشیار پور کی سر زمین کو یوں ہی اپنی لپیٹ میں نہ لے سکتا تھا۔ آبدی اس طرح ٹکڑوں میں تقسیم نہ ہوتی۔ اور اگر ہوتی تو ان کے درمیان رسل و رسائل کی آسانیاں تو برقرار رہتیں‘‘۔
’’ہوشیار پور اس کے گائوں کے درمیان چو کا ایک لامتناہی سلسلہ پھیلا ہوا ہے برسات کے دنوں میںپہاڑ ی نالے اسے لبالب بھر دیتے ہیں اور جب پانی کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے تو ریت کا لق و دق صحر ا پنے شہر اور گائوں کے درمیانی انگڑائی کی طرح پھیلنے لگتاہے۔ اندھری راتوں میں چوران ریگزاروں مٰں سستا کر اپے کام پر نکلتے ہیں۔ قبرستان کے اردگرد کبڑی کھجوروں کے جھنڈ میں مدھم سرگوشیاں ہوتی ہیں کالی سیاہ ڈرائونی راتوں میں اس ریگ زار کے ذرے ایک دوسرے سے چمٹے صبح کے انتظار میں آنکھیں جھپکا کرتے ہیں۔ اور کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اندھیری راتوںمیں کوئی دیوانہ چاند کی تلاش میں ادھر آ نکلتا ہے اور رات بھر سانپوں سے بھرے جنگل کی آوازیںسنتا رہتا ہے ۔ صبح شہر سے گائوں جانے والا کوئی بھی مسافر اسے اٹھا کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور ریت کے ذرے پھر سے دھوپ میں چمکنے لگتے ہیں‘‘۔
’’یہ گائوں گائوں بھی نہیں قصبہ بھی نہیں۔ اسے نوآبادیاتی بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اورشہر کا سٹیلائٹ ٹائون بھی نہیں۔ ایک بستی ہے جو بستے بستے بڑی دیر تک اور بڑی دور تک بس گئی ہے۔ چھوٹی اینٹوں کے بل کھاتی ہوئی گلیاں نیچی چھتوں کے اونچی کرسیوں والی مکان رنگ برنگے شیشوں والی بند کھڑکیاں اورکھلے دروازوں پر بانس اور سرکنڈوں کی تیلیوں کی چھتیں۔‘‘
’’اس بستی میں پرانے منصب داروں کے گھر تھے۔ اب ان میں چمگادڑوں اور ابابیلوں کا بسیرا ہے۔ اس نگری میں ان لوگوں کے دو منزلہ مکان ہیں۔ جو تلاش روزگا ر کے سلسلے میں افریقہ کویت یا بحرین میں بستے ہیں۔ ان لوگوں کے گھر والے یہاں رہتے ہیں۔ ان کی لڑکیوں کے سنگار میز اوپر کے کمروں میں ہوتے ہیںَ ان کی میزوں پر افرقہ کویت اور بحرین کے تحفے پڑے ہوتے ہیں۔ پھر یہ لڑکیاں افریقہ کویت یا بحرین چلی جاتی ہیں۔ اور جب لوٹتی ہیں تو ان کی چھوٹی چھوٹی بہنیں جوان ہو چکی ہوتی ہیں۔ جب وہ آتی ہیں تو افریقہ کی آبنوسی رکابیوں میں غیر ملکی شیرینیاں ولایتی رومالوں سے ڈھانپ کر ان چھوٹی ینٹ کی گلیوں میں چلتی ہیں جو آگے نکل کر جوگیوں کے مٹھ کی طرف نکل جاتی ہیں۔ یہ مٹھ ویران ہے اس کی کوٹھڑیاں اور کنڈ ڈھکے چکے ہیں۔ دھرم شالہ کے بس قدم آدم کھولے رہ گئے ہیں اور ان کھولوں میں پھونس کی چھت تلے گونگا رہتا ہے جب سرمئی شام اندھیری رات میں تبدیل ہو جاتی ہے تو بچے اس گلی کے آخری سرے تک جانے سے کتراتے ہیںَ نہیںکھنڈروں سے نہیں اس گونگے سے خوف آتا ہے۔ جس کی بے زبانی ان گری پڑی دیواروں میں صدائے بازگشت بن کر ہر وقت گونجتی رہتی ہے۔ ان بچوں نے آج تک کسی سے بات نہیں کی کہ یہ گونگا کئی صدیوں سے زندہ ہے۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آتاہے تو وہ ایک دلدوز چیخ مار کر پھونس کی جھونپڑی جلا دیتاہے خود اس میں بھسم ہو جا
پیر، 8 فروری، 2016
منیرنیازی
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں