جمعرات، 17 نومبر، 2016

دیوبند کی روایت سےجڑاایک نام

دیوبند کی ادبی روایت سے جڑا ایک نام
ابرار احمد اجراوی

دارالعلوم دیوبند کا فکری رجحان ہمیشہ مثبت اور تعمیری رہا ہے۔ اس نے ایک طرف اسلامی احیا ء کا غیر معمولی کارنامہ انجام دیا تو دوسری طرف ایسے رجال اور قلم کارپیدا کیے جنھوں نے ملک و قوم، اسلامی تہذیب و ثقافت اور زبان و ادب کی ایسی خدمات انجام دی، جس کی نظیر ہندوستانی تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔ اس کی یہ روایت آج بھی زندہ ہے اور نئی نسل کے ذریعے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس نسل سے جڑا ایک نام ”ابرار احمد اجراوی“ کا ہے۔

ابرا ر احمد اجراوی نئی نسل کے قلم کاروں میں اپنی انفرادی شنا خت رکھتے ہیں۔اسلا میات سے ادبیات اور عصری مسا ئل تک ان کے مو ضو عات پھیلے ہو ئے ہیں اور عربی سے اردو تر جمہ نو یسی ان کا خاص میدان ہے۔جہاں نئے گل بو ٹے اگا نے میں وہ کا میاب ہیں۔دا رالعلو م دیو بند سے فرا غت کے بعد انھو ں نے جا معہ ملیہ اسلامیہ سے اردو میں بی اے اور جے این یو سے ایم اے اور ایم فل کی ڈگری حا صل کی۔ان کے تخلیقی استعا روں میں اسلام اور مغربی تہذیب (تحقیق و تخریج)تذکیر بسو رۃ الکہف(تحقیق و تخریج)نبی رحمت (تر جمہ)عربی نا ولوں کے تجزیے(زیر طبع)عربی زبان میں مزاحمتی شا عری کی روایت (زیر طبع)شا مل ہیں۔
ابرار احمد اجراوی عربی کے ساتھ اردو لسا نیات کا خا صا عرفان رکھتے ہیں۔گہری اور معنی خیز نثریت ان کی تخلیق میں تا ثرا تی کیفیت پیدا کر تی ہے۔مو ضو عات کی تہوں تک پہنچ کر اپنے انفرادی نقطہ نظر سے قا ری کو آشنا کرا تے ہیں۔ان کے اظہا ر کی تا زگی اور فکر تا زہ کی خوشبو دل و دما غ کو معطر کر دیتی ہے۔وہ اپنے مو ضوعات کو ذہنی افق کی وسعت اور اظہاری دا ئرے کی ند رت عطا کر تے ہیں۔جہاں ان کے طر ز فکر اور طر ز احساس سے آگہی نصیب ہو تی ہے۔ان کے زاویے فکر اور اندا ز نظر کی تفہیم کا حوا لہ ”ادب امکان“ہے جو متفرق مضامین کا مجمو عہ ہے۔
ابرار احمد اجراوی کے ہاں عربی ادب کی شا دا بی کا احساس بھی تابندہ ہے۔ انھوں نے عربی ادب پر خاص محنت و ریاضت کا ثبوت دیا ہے۔اس حوالے سے جو مضامین انھوں نے لکھے ہیں وہ اپنی اہمیت و افادیت کا احساس دلاتے ہیں۔ ”عربی زبان میں ہندو ستا نی تہذیب و ثقافت“اور ”جدید عربی شا عری میں احتجاج اور مزاحمت کی نو عیت“کے عنوان سے ان کے جو م ضامین ہیں۔انھیں پڑھتے ہو ئے کئی تا ریخی تصویریں ذہن کے پر دے پر ابھر نے لگتی ہیں۔اسی طرح ”عربی زبان میں خواتین کی خودنوشت“ پر انھوں نے جو تحقیقی نگاہ ڈالی ہے اس سے ان کے ذہنی تحرک کو سمجھا جا سکتا ہے۔ان کے تعلق سے حقانی القاسمی کی یہ رائے اپنی اہمیت رکھتی ہے:
”ابرار احمد اجراوی میں جو امعان نظر ہے وہ ”ادب امکان“۴۱۰۲ کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ یہ کتاب ان کے تنقیدی تفحص کا آئینہ ہے۔ اس میں
نیا طوربھی ہے، نئی برق تجلی بھی۔ابرار احمد نے گھسے پٹے موضوعات کے بجائے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ مسائل اور مباحث کو اپنی تخلیق کا مو ضوع
بنایاہے اور اردو ادب کو نئے امکانات سے روشناس کرایا ہے۔ عربی مزاحمتی شاعری کے اردو تراجم اور عربی ناولوں کے اردو تراجم پر ان کا تحقیقی کام یقینا
وقعت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ السنہ شرقیہ سے آگہی اور انگریزی ادبیات کے شعور نے ان کے مطالعتی دائرے کے ساتھ ان کے ذہنی آفاق کو بھی وسیع کیا ہے“
                                                                                 (اندازبیاں:حقانی القاسمی ص۷۷)
یقیناابرار احمد نے عربی ادب سے اپنا رشتہ استوا ر کر کے وقت کی اہم ضرورت کو  پو را کیا ہے۔آج عربی زبان سے اردو داں طبقہ کی دوری کا احساس ہر کسی کو ہے۔ایسے میں ان کا یہ قدم قا بل ستا ئش اور لائق تحسین ہے۔
نئی نسل کے ابھر تے ادیبوں کو عمو ما درخور اعتنا نہیں سمجھا جا تا اور یہ بات بڑے زور وشور سے کہی جا تی ہے کہ فکر کی کمی،سوچ کی سطحیت،اظہار کے ابتذال،وسعت مطالعہ کی تنگ دا ما نی اور تخلیقی و تنقیدی شعور کے فقدان نے نئی نسل کے ادیبوں کو خاصا نقصا ن پہو نچا یا ہے۔جس سے ادب کا معیار بھی مجروح ہو اہے۔ان خیا لات کی مکمل تردید نہیں کی جاسکتی تو مجمو عی حیثیت سے قبو ل بھی نہیں کیا جا سکتا۔کیو ں کہ بقو ل حقا نی القا سمی:
”گذشتہ ایک دہا ئی کا جا ئزہ لیا جا ئے تو ادب میں نئی نسل نے جو تحرک اور طغیانی پیدا کی وہ پرا نی نسل کے بس کا روگ نہیں۔گو کہ پرانے لو گوں کا عہد زریں رہا ہے مگر اب ان کے پاس صرف پرانی یاد یں رہ گئی ہیں اور پرا نی آنکھیں۔آج کے اس دور میں ادب کو نئی آنکھوں کی ضرورت ہے“
                                 (طواف دشت جنوں ص ۳۹۲بحوا لہ ادب امکان ص ۷۰۲)ابراراحمد اجراوی کاقلم ان کے طبعی احساسات اور تخیلات کو سامنے لاتا ہے اور ایسے مو ضوعات تک رسائی حاصل کر نے کی جستجو کر تا ہے جہاں کہنے کو کچھ نیا ہو۔ ان کا یہ تخلیقی رویہ آج کے منجمد اور مفلو ج ماحول میں اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ انھوں نے ادبیات، شعریات، نثریات، ابلاغیات اور شخصیات پر مختلف مضامین قلم بند کیے ہیں، جن میں تجزیاتی انداز اپنا ایک تأ ثر رکھتا ہے۔
”ادبی مزاحمت:تصور و تنا ظر“تحقیقی طرز پر لکھا گیاان کا ایک عمدہ مضمون ہے۔جس میں احتجاج و مزاحمت کے لسا نیاتی پہلو،اس کی تعریف،اس کی آفا قیت،جما لیاتی لطافت،فنکار سے اس کے مطالبے،کن صورتوں میں ایسے ادب پارے جو احتجاج و مزاحمت سے لبریز ہیں وہ شور و شرابے میں تبدیل ہو جا تے ہیں جیسے زاویوں کو رخشندہ کیا ہے۔یہ اقتباس دیکھئے:
”احتجاج و مزاحمت اور تخلیقیت و ادبیت کا اجتماع ایک مشکل عمل ہے۔اس اجتماع کو عملی روپ دینے کے لئے ادیب اور شاعر کوبڑی تخلیقی ریا ضت اور ذہنی کدو کا وش کر نی پڑتی ہے۔احتجاجی شا عری نہ صرف مزاحمتی عنصرکی نما ئندہ ہو اور نہ ہی انقلاب اور بغاوت کی روش سے ہم آہنگ ہو کر صرف لو ازمات کے حصار میں بند۔دونوں قسم کی انتہا پسندی ادب کے لئے نقصان دہ ہے“(ایضاص۱۲)
ابرار احمد نے اس مضمون کو تحریر کر تے وقت مطالعہ کا خاص اہتمام کیا ہے۔اس مو ضوع پر مو جود ذخائر کو اپنے با طن کا حصہ بنایا ہے۔مختلف مقا مات پر اقتبا سات کے توسط سے با توں میں قطعیت کی شا ن پیدا ہو گئی ہے۔اس مضمون کا ایک مقصد ادب میں احتجاج اور مزاحمت کے نکتوں کی نشا ندہی ہے۔اسی لئے یہاں دونوں پہلوؤں کے اشعار مطلب بھر ہی نو ٹ کئے گئے ہیں۔بے وجہ کی طو الت سے احترا ز کیا گیا ہے۔
مزاحمت پارے کا رشتہ خارجی محرکات سے جڑا ہو تا ہے۔اسے بڑھا وا دینے کے لئے نہ کسی نعرے کی ضرورت ہو تی ہے اور نہ ہی اعلان و سیمینار کی۔ادیب حسا سیت کے جس مقام پر ہو تا ہے وہ اسی اعتبار سے قلبی نا آسودگی اور اضطراب و بے چینی کو اپنے تخلیقی وجود کا حصہ بنا تا ہے۔آج ہر سطح پر واردات و المیے کا ظہور ہے۔معا شی،سیا سی،مذہبی،سما جی اور اقتصا دی نا ہمواریوں نے پر امن زندگی کے خواب چھین لئے ہیں۔بین الاقوا می سطح پر جس طرح انسان لر زاں و تر ساں،ڈرا اور سہما ہو اہے۔خون کی ند یاں جس ارزانی سے بہہ رہی ہیں۔ان حا لات میں پر امن معا شرے کی تشکیل کی ذمہ داری ادیبوں کو قبو ل کر نی ہو گی اور ایسے ادب پارے تخلیق کر نے ہو ں گے جو فن اور مزاحمت کے تقا ضوں سے ہم آہنگ ہو۔آج اکثریت ایسے ادیبوں کی ہے جو جذبات کی رو میں فن کا خون کر تے ہیں۔ایسے ادیبوں کو مضمون میں ذکر کر دہ اصو لوں کو اپنا مطمح نظر بنا نا چا ہئے۔
”نقش حیات“ادبی نگار خا نے میں“یہ مضمون شیخ العرب والعجم،اسیر ما لٹا عظیم مجا ہد آزادی حضرت مو لانا حسین احمدمد نی کی خود نوشت ”نقش حیات“ کا تنقیدی جا ئزہ ہے۔یہ م ضمون ادبی فضا پر پھیلی عصبیت اور حد بندی کا آئینہ ہے۔یہاں جملہ معتر ضہ کے طور پر جو سوا لات اٹھائے گئے ہیں۔انھیں اس مضمون کا لب لباب قرار دیا جا نا چا ہئے۔ان سے جہاں پھیلی عصبیت کا اندا زہ ہو تا ہے وہیں مضمون کے معر ض وجود میں آنے کے پہلو منور ہو تے ہیں۔ابرار احمد کے سوا لات یہ ہیں:
”خود نوشت نگاری کی صنف میں جہاں کا لج،یو نیو ر سیٹی اور سکہ بند نظر یاتی ادبی گروہ  سے مختص شخصیات کی خود نوشت پر تحقیقاتی،تجزیاتی اور تنقیدی مقا لے لکھے جا تے ہیں اور ان کاادبی،تا ریخی،سما جی اور افادی قدر متعین کیا جا تا ہے وہاں ایسے لو گ کیوں فرا موش کر دیے جا تے ہیں۔جو کسی کا لج،یو نیور سیٹی اور کسی ادبی گروہ سے الگ ہو تے ہیں۔لیکن اردو کی زلف پریشا ں کی مشا طگی میں مصروف رہتے ہیں۔ہمار ی ادبی بے حسی کی وجہ سے ایسے لو گوں کی بہت سی خود نوشت ادبی مر تبہ پا نے سے محروم رہ جا تی ہیں۔حا لانکہ ان میں وہ سب خو بیاں مو جود ہو تی ہیں۔جنھیں خود نوشت کے شرا ئط قرار دیے گئے ہیں۔”نقش حیات“ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی متعصبانہ رویہ روا رکھا گیا ہے“
ان کے سوا لات کے خلا صے سے ان کے ذہنی تحرک کو سمجھا جا سکتا ہے۔انھوں نے حالیہ دنوں میں سوانح نگا ری کے حوا لے سے جتنے کا م ہوئے ہیں۔ان کا تجزیہ کر تے ہوئے اس المیہ پر اظہار افسوس بھی کیا ہے اور ان مصنفوں کے کا رنا موں کو بھی مع اقتباسات زیر بحث لا نے کی سعی کی ہے۔
نقش حیات“کے تجزیے کے لئے انھوں نے تمام خود ساختہ پیما نوں کو مسترد کر تے ہو ئے جو پیما نہ منتخب کیا ہے اس سے ا ن کی تنقیدی با لیدگی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔وہ پیما نہ دیکھئے:
”ادب تو قا ری اور ادیب کے ما بین ایک مقدس رشتہ ہے۔کو ئی تحریر قا ری کے با طن کو اپیل کر تی ہے اور اس کو کتھا رسس کے مر احل سے گزارنے میں کا میاب ہو جا تی ہے تو اس کو ادب کے نگا ر خانے میں جگہ دی جا سکتی ہے۔اردو زبان کے اسرارو موز سے نا واقفیت کا الزام تو اردو کے سب سے بڑے شا عر علا مہ اقبا ل اورترقی پسند وں کے میر فے ض احمد فیض پر بھی لگا یا گیا ہے۔لیکن وقت نے ثا بت کردیا کہ علا مہ اقبال اور فے ض کا کیا مقام ہے اور لا کھوں کی تعداد میں موجود دوسرے شا عاسی پیما نے کے تنا ظر میں ”نقش حیات“کے تجزیے کی فضا ہموار کی گئی ہے۔”نقش حیات“کے بطون میں اتر کر ابرار احمد نے اس کی ادبی لہروں پر مضبوط گرفت حاصل کی ہے اور تنقیدی جمود پر کاری  ضرب لگا نے کی سعی کی ہے۔انھوں نے اس کتاب کی سیاسی،سما جی،تا ریخی اور انقلا بی تحریکات جیسے مو  ضوعات کے بجائے ادبی لعل و گہر اور اس کے لو ازمات کی جستجو کی ہے۔طر ز تحریر،جملوں کی نشست و بر خاست،روانی،تسلسل،مو سیقیت،غنائیت،مکا لماتی شا ن،ڈرامائی کیفیت،فا رسی اور اردو اشعار سے حسب مو قع استدلال،تشبیہات و استعارات،بر جستگی و شگفتگی،شعری حسن،صنعت ت ضاد،متضاد الفاظ،اردو کے محاورات،ضرب الامثال،روز مرہ اور اختصار و ایجاز کے تفحص سے نقش حیات کو ادبی مقام عطا کر نے پر استدلالی بحث کی ہے۔جو مبصر کے امعان نظر اور ادبی مطالعات کی حسین دلیل ہے۔اختتامی پیرایے میں ان مو ضوعات کی طرف جو کتاب کے محتویات میں شا مل ہیں ضمنی اشارے بھی آگئے ہیں۔جن سے مضمون میں جا معیت آگئی ہے۔
”خطو ط غالب:چند ادبی مبا حثے“یہ مضمون خطوط غالب کی ادبی اور نثری لہروں سے قا ری کو روشناس کر اتا ہے۔یہاں ابرار احمد کا انحرافی ذہن خطوط غالب میں کسی نئی تجلیوں کا متلا شی ہے۔خطوط غالب پر تنقید کی کمی نہیں ہے۔اس کی تا ریخیت،اہمیت اور افادیت پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ایسی صورت میں سر قہ،چر بہ اور چبا ئے ہو ئے نو الوں کو چبا نا تو بہت سہل ہے مگر نئی راہ تلاش کر نا آسان نہیں۔اس مضمون کو پڑھ کر یہ اندا زہ لگا نامشکل نہیں ہے کہ مو صوف نے با توں کی تر سیل اور خطوط غالب کی تفہیم میں جدت سے کا م لیا ہے۔خطوط غالب کے اجزائے تشکیلی کی وضاحت بڑے اعماق کا نتیجہ ہے۔مضمون کا مقصد ادبی مبا حث کا اظہار ہے اس لئے زیادہ تر جستجو اسی کی گئی ہے۔مگر بین السطور میں کچھ تا ریخی،ثقا فتی اور افا دی زاویے بھی منور ہو گئے ہیں۔یہ مضمون چند ذیلی عنوانات پر محیط ہیں۔
”اردو زبان کی تو سیع میں تحریک ریشمی رومال کا کردار“یہ مضمون ابرار احمد کی ذہنی بصیرت اور شعوری حسیت کا غماز ہے۔ریشمی رومال تحریک کی سیا سی اور ہنگا می فضا میں اردو کو فرا موش کر دیا گیا اس کے غیر معمولی کر دا ر کو نظر اندا ز کر دیا گیا۔سا ری تان اس تحریک کے سیاسی پہلو پر ٹوٹی۔اس کی اہمیت،افا دیت،وسعت اور وقتی تقا ضوں کو مطلو ب رکھا گیا۔اس تحریک کے پس پر دہ اردو پھیلتی رہی۔خوشبو بکھیرتی رہی،غیر ملکوں کو مشکبار کر تی رہی۔اس طرف نظر التفات بہت کم ہو ئی۔ابرار احمد نے یہاں انفرادی نظر سے کا م لیا۔اردو کے اس کر دار سے قا ری کو روشناس کرا یا۔اس مضمون میں بڑی تہدا ری سے اردو کا جا ئزہ لیا۔اس تحریک کے افراد جہاں جہاں گئے۔اردو ان کے سا تھ تھی افغا نستان،چین،بر ما،جا پان،فرانس،امریکہ،افریقہ یو رپ اور عرب ممالک میں ارد و کی خوشبو انھیں کے تو سط سے پھو ٹی۔اور ان مقامات سے مختلف دینی و ادبی رسا لوں کا اجرا کیا۔مضمون میں ان پہلوؤں کو مستند دلائل کے سا تھ اجا گر کیا گیا ہے۔مضمون میں ایک صفحہ دارا لعلوم دیو بند کے لئے مختص ہے جو یقینا جا معیت میں ما نع ہے۔یہ الگ بحث کا متقاضی ہے۔اگر اس کو حذف کردیا جائے تو م ضمون میں وحدث تاثر کی فضا قا ئم ہو جا ئے گی۔
”افلا طون اور ارسطو کا نظر یہ نقل:تقا بل و تجزیہ“ان کا اہم مقالہ ہے۔ اہل یو نا ن کو جن فلسفیوں پر ناز ہو سکتا ہے ان میں افلا طون اور ارسطو سر فہرست ہیں۔دو نوں شعرو ادب کے حو الے سے اپنے اپنے نظر یات رکھتے ہیں۔دونوں کے نظریات کہیں ہم آہنگ ہیں کہیں مختلف۔تا ہم ارسطو کا قد اپنے استاد افلا طو ن سے قدرے اونچا ہے۔بو طیقا ارسطو کی ایسی تصنیف ہے جس کے بغیر ادبی تنقید کا مطالعہ تشنہ رہ جا تا ہے۔تنقید کے بہت سے اہم اور بنیادی مسا ئل کا نہ تو عرفان ہو پا تا ہے اور نہ ہی ادبی مسا ئل پر غور و فکر کی بصیرت پیدا ہو تی ہے۔اس کتاب کی حیثیت ادبی تنقید میں پہلی با قا عدہ تصنیف کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ دو ڈھائی ہزار سا ل گذر نے کے بعدبھی آج اس کی اہمیت بر قرار ہے۔
ابر ار احمد نے اپنے اس مضمون میں افلا طون اور ارسطو کے دیگر نظر یات سے قطع نظر محض ”نظر یہ نقل“کو مطمح نظر بنا یا ہے۔تا ہم دیگر نظریات بھی زیر بحث آگئے ہیں۔اس نظر یہ پر ابر ار احمد نے بڑی سنجید ہ گفتگو کی ہے۔تقا بل کا ایسا انداز اپنا یا کہ افہام و تفہیم قا ری پر گراں بار نہ ہو۔وہ کسی نتیجے پر پہنچ سکیں۔افلاطون کے نظر یہ نقل پر ارسطو نے جن جن پہلوؤں سے اعتراض کیا اور پھر اپنے نظریات پیش کئے وہ مضمون میں تا بندہ ہیں۔افلا طون اگر شا عری کو نقل در نقل تصور کر تا ہے۔حقیقت سے ما ورا ٹھہر اتا ہے تو ارسطو اسے انسان کا امتیازی وصف قراردیتا ہے۔افلا طون اگر شاعری کو عیب گر دا نتا ہے تو ارسطو انسانی جبلت خیال کر تا ہے۔مضمون نگارنے یہ بھی لکھا کہ افلا طون شا عری کا نرا مخالف نہیں۔دل میں نرم گوشہ رکھتا ہے۔اس پر دلیل بھی قا ئم کی ہے۔
عربی زبا ن و ادب میں ہندوستانی تہذیب وثقا فت:ما ضی اور حال کے تنا ظر میں“یہ مضمون ہنگا می مسائل کو مد نظر رکھ کر تحریر کیا گیا ہے۔صحافتی فضا پورے مضمون پر چھائی ہو ئی ہے۔ابتدا ئی صفحات عربی میں ہندوستا نی ثقافت کے تفحص کا اشا ریے ہیں۔یہاں ثقافت کے بہت سے ابعاد منور ہو گئے ہیں۔اس مضمون سے ہندوستانی تہ ذیب کے ان جہتوں کا ادراک ہو تا ہے۔جو عربی ادیبوں کی تخلیق میں رخشندہ ہیں۔مضمون کا آخری حصہ ہند میں عربی زبان کے مسا ئل و مشکلات کا آئینہ ہے جہاں ابرار احمد  نے دردمندانہ لہجے میں ان کے تدا رک کا اظہار کیا ہے۔

اعلی متنی تنقید کے مختلف مدارج:مسا ئل اور تدا رک“یہ مضمون متنی تنقید کی آخری شق ”اعلی تنقید“کا جا ئزہ ہے۔جس میں ان نکات کو وا ضح کیا گیا ہے جن کی رعا یت کسی بھی متنی ناقد کے لئے اہم ہے۔تد وین و تحقیق کے گر تے معیار کو بھی یہ مضمون آئینہ فرا ہم کرتا ہے۔ما لی منفعت کے لئے کلام فرو شی،اپنی مدح سرا ئی کے لئے کسی عزیز یاشا گرد کے نامر اور ادیب ان کے سامنے کہاں کھڑے نظر آتے ہیں ۔(ادب امکان ص ۹۲)سے اپنی تحریر کی اشا عت،تجا رتی مقصد سے متن کے جعلی نسخوں کی طباعت اور معا وضتا ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقا لے کا رواج ابرار احمد کی نظر میں تد وینی عمل کو مجروح کر تا ہے اور متن کو غیر مستند بنا تا ہے۔
ان کے علاوہ ”علامہ اقبال کی رومان پسندی:مشا بہتیں اور تضادات“”غزلیہ تنقید:محاکمہ اور محاسبہ“”دبستان دلی:کل اور آج“”شا عر اسلام علا مہ اقبال کا عشق رسول  ﷺ“”احتجاج اور مزاحمت کا شا عر:فے ض احمدفیض“”اردو شا عری کا جمہوری کردار“اور ”جدید عربی شاعری میں احتجاج اور مزاحمت کی نو عیت“کے عنوان سے ان کے  مضامین ان کی فکری جہتوں کو روشن کر تے ہیں۔
”علامہ اقبا ل کی رومان پسندی:مشابہتیں اور تضادات“علامہ اقبال کی شا عری میں رو مانوی اثرات کی جستجو سے عبا رت ہے۔علامہ اقبال کاشایدہی کوئی ناقد ہو جس نے اس پہلو کو تشنہ چھوڑا ہو۔علا مہ اقبال کے ہاں جذبات ووجدان کی جو طغیانی ہے۔الفا ظ و افکار سے جو نیا جہان طلوع ہو تا ہے۔طرز ادا اور اسلوب سے جو خوشبو پھوٹتی ہے۔ما ضی کی یادوں کا جو لا وا ابلتا ہے۔مستقبل کی جو سہانی کر نیں منور ہو تی ہیں اور مظاہرفطر ت کی جو دلکش تصویر کشی ان کے ہاں جو مو جود ہے۔ان سے صرف نظر کر نا کسی نقاد سے شا ید ممکن نہیں۔
ابرار احمد نے اس مضمون میں اقبال کی رو مان پسندی کے حوالے سے مما ثلت و منافرت کو جس اندا ز سے آشکا را کیا ہے وہ ان کے امعان نظر کی دلیل ہے۔تمہیدی گفتگو میں انھوں نے رو ما نیت کی کچھ تصویریں قید کی ہیں۔اس کے منظر و پس منظر کو سا منے رکھا ہے۔پانچ ایسے اقتباسات نقل کئے ہیں جن سے روما نیت کی فکری فضا ابھر تی ہے۔علا مہ اقبال کی رومان پسندی کا تجزیہ کر تے ہو ئے انھوں نے علامہ کی ان فکریات تک رسائی حاصل کی ہے جن کی لہروں میں رومان کے مختلف رنگ و روپ بکھرے ہوئے ہیں۔ما ضی پسندی کے تصور،فطرت نگاری،وطن پرستی،تغزل،پیکر ترا شی اور آزادی جو رو ما نیت کے عنا صر قرار دیے گئے ہیں۔ابرار احمد نے کلام اقبال میں بڑی بصیرت سے ان کو مترشح کیا ہے۔انھوں نے جہاں علا مہ کی رومان پسندی کے اصل محرکات کی طرف اشا رہ کیا ہے وہیں روما نوی بے را ہ روی اور انتہا پسندی کے بجا ئے نظم و ضبط اور اعتدال و توا زن کو ان کا امتیا زی وصف قرار دیاہے۔یہ مضمون اپنے مو ضوع سے ہم آہنگ بھی ہے اور مو صوف کی انفرادی سوچ کا غما ز بھی ہے۔
”جدید عر بی شا عری میں احتجاج اور مزاحمت کی نو عیت“(اردو تر جموں کے حو الے سے)ابرار احمد کے ذہنی اور تخلیقی رویوں تک رسا ئی میں معا ون ہے۔محنت اور ریا ضت کا ثبوت اس مضمون سے صا ف ظاہر ہے۔جس میں تا ریخی حسیت کو بڑے شگفتہ اور بر جستہ انداز میں ظاہر کیا گیا ہے۔ انھوں نے احتجاج اور مزاحمت کی تشکیلی فضا کو ابھا را اور پھر پو رے مضمون کی بنیاد رکھدی۔عربی اشعار کے ساتھ تر جمے خود سا ختہ ہیں۔جو عمدہ اور با محاورہ ہیں۔جن میں نفا ست اور سلاست مو جود ہے۔ابرار احمد نے عربی شا عروں کی شعری تجلیوں کو اپنے دروں میں اتار کر ان کے مزاحمتی افکار کو روشن کیا ہے۔معروف رصافی،احمد شوقی،حافظ ابراہیم،خلیل مطران،رشید سلیم خوری،عمر ابو ریشہ ابو القاسم شا بی اور محمود غنیم کے اشعار کو محور بناکر مزاحمتی اور انقلا بی شا عری سے قاری کو روشناس کرا یا ہے۔۸۹۷۱ء میں مصر پر نپو لین کے حملے سے اگر عربی شا عری میں بیدا ری کا آغاز ہوا تو انیسویں صدی نے مزاحمتی شا عری کی فضا ہموار کی۔عر بی ادیبوں نے عوام میں مزاحمت کی قوت ابھارنے کے لئے حب الوطنی کے نغمے گائے۔قوم کو خواب غفلت سے بیدا ر کیا۔بیرو نی طاقتوں کے خلاف نفر ت و عدا وت کی آگ کو ہوا دی۔سیاسی اور سما جی نا ہمو اریوں پر طنز کیا۔ظلم و بر بریت کی خو نیں عبا رتیں رقم کیں۔مصر،فلسطین اور افریقہ کو احتجاج و مزاحمت کی علا مت کے طور پر بر تا  ……جیسے خیا لات مضمون کا حصہ ہیں۔
”سما جیا تی طنز پر مبنی علمی و ادبی لطیفے“ابرار احمد کی شگفتہ مزاجی اور فکری جہتوں کا بیا نیہ ہے۔انھوں نے ”غافل مشو،ہشیا ر باش“”حسن و قبح“”لو ہا لو ہے کو کا ٹتا ہے“”کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے“”دنیا اور عقبی کا فرق“”علم ہے کچھ اور شی“اور ”فضول خرچی سے اجتناب“”کے تحت واقعات کا تذکرہ۔اس کا پس منظر اورحال سے اس کی مطا بقت کو بڑی ذہنی بیدا ری،عصری حسیت اور مشا ہداتی تجر بوں سے ہم آہنگ کر دیا ہے۔عملی و ادبی لطیفو ں کی زیریں لہروں سے جہاں سما جی بے را ہ روی کو آشکا ر کیا گیا ہے۔وہیں انسا نی افکار پر  ضر بیں بھی لگا ئی گئی ہیں۔انسانوں کی عا قبت نااندیشی،بے وفائی و غدا ری،عمل سے خالی و اعظ و مصلحین کے پند و نصا ئح اور ان میں تا ثیری قوت کا فقدان،یہو دیوں کی مادہ پرستی،شہرت کی چاہ اور فضول خرچی کو نشا نہ بنا یا گیا ہے۔ذکر کر دہ واقعات کی اصلیت یا فر ضیت سے قطع نظر مضمون میں پر و ئے گئے خیال و افکار،زبان کی سلاست اور ادب کے پیرا یوں میں سمٹ کر ذہنی و قلبی تقلیب کر تے ہیں۔
ابلا غیات پر انھوں نے ”تر سیل و ابلا غ کا عمل اور چینل کا انتخاب“”عوا می ترسیل کی زبان:حدود اور تقا ضے“اور ”الیکٹرانک میڈیا!دا من کو ذرا دیکھ“جیسے مضامین لکھے ہیں جو ان کے فکری منہج اور ذہنی تحرکات کا عمدہ ثبوت ہیں۔یہاں انھوں نے ابلا غیات کے مسائل و مبا حث پر ذہن کی توا نائی صرف کی ہے۔تینوں مضا مین ایک مر بو ط اور منضبط ذہن کا عکاس ہیں۔جن میں اثر بھی ہے اور کیف سحر بھی۔ابلا غیات کی اہمیت و افا دیت،اس کے مثبت و منفی پہلو،عوام کی سا ئیکی پر اس کے اثرات،لسا نی تر جیحات و انتخابات،مو  ضوعات و و اردات اور ما ضی حال سے تقا بل جیسے پہلوؤں کو منو ر کیا گیا ہے۔عصر حا ضر میں ابلا غیات نے جس طرح ذہن انسا نی کو اپنےحصار میں مقید کیا ہے اس کے پیش نظر یہ مضامین وقت کی اہم آوا ز ہیں۔ان کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے۔
شخصیا ت کے حوالے سے ”مو لانا حفظ الرحمن سیو ہا روی”حقا نی القا سمی“”ڈاکٹر شمس کمال“اور ”مو لانا محمد اعجاز عر فی قا سمی“کوجیسی شخصیات کواپنا محوربنایا اور ان کی شخصیت کے متنوع پہلوؤں کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔
ان چند مضامین سے ابرار احمد اجراوی کے تخلیقی رجحانات اور فکری تا بناکی کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ وقت کے مؤ قر اخبار ورسائل میں ان کی تخلیقات شایع ہوتی رہی ہیں۔ حالات حاضرہ پر بھی ان کے کئی مضامین اشاعت کے مر حلے سے گذر چکے ہیں اور اہل دانش نے ان کی تخلیقات کو سراہا اور اس نوجوان قلم کار کی حوصلہ افزائی کی ہے۔جن میں حقا نی القاسمی،پروفیسر شمس کمال اور مشرف عالم ذوقی کے اسما ء قابل ذکر ہیں۔ ادبیت کی گہری چھاپ ان کے مضامین کی بڑی خاصیت ہے۔اسلوب کی دلکشی، سلاست اور روانی ان کے ہرمضمون میں مو جود ہے اور اکثر مضامین شعور کی صلا بت اور فکر کی پختگی سے لبریزہیں ۔
ابرا راحمد کا ذہنی نظام دیو بند سے مستحکم ہے۔ دیوبند کے اسلاف و اکابر سے انھیں خصوصی عقیدت ہے۔ ان کا انداز گفتگو، رسم وراہ اور عادات و اطوار سے شرافت، متانت اور وقار کی جھلک ملتی ہے۔ ان کا ذہن نہ معاندانہ ہے اور نہ ہی مخاصمانہ۔محبت اور رواداری ان کے مزاج کا حصہ ہے۔ وہ غلطیوں کا اعتراف بھی کر تے ہیں اور مدلل باتوں کو قبول بھی کر تے ہیں جن سے ان کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ان کا تعلق اجرا ضلع مدھوبنی بہار سے ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں